Ali HassanColumn

 آئی ایم ایف اور تگنی کا ناچ .. علی حسن

علی حسن

 

وزیر داخلہ راناثنا اللہ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے تگنی کاناچ نچادیا ہے۔ ایساایک ارب ڈالرکے لیے  پی ٹی آئی حکومت کے غلط معاہدے کی وجہ سے کیا جارہا ہے،عمران خان نے ملک کوگڑھے میں گرادیا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کی خامیوں کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی،اگر تیل کی قیمتیں بڑھانے کے بجائے ہم انتخابات میں جاتے تو ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ تھا اس لیے معاشی صورتحال کے پیش نظر مشکل فیصلے کیے تاکہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ ملکی معیشت اور امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے لیے اگر تمام سیاسی قوتیں سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گی تو بہتری ممکن نہیں، اس وقت ملک کی تمام سیاسی قیادت ایک جگہ پر اکٹھی ہے لیکن صرف عمران خان فرد واحدہے جوانارکی، افراتفری اور فساد فی الارض کا ذمہ دار ہے جو کسی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں لیکن ملک کو آگے لے جانے کے لیے ہم سب (کیا واقعی سب مل کر بیٹھ جائیں گے) کو مل کر بیٹھنا ہو گا۔اگر ہم نے ملک کو آگے لے کر جانا ہے اور ایک خوشحال ملک بنانا ہے تو بہتر زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں کیونکہ یہ صرف سیاستدانوں کا ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا فرض ہے

کہ مستقبل کے پیش نظر فیصلے کریں اور حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ایسی قیادت کو منتخب کریں جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ رانا جی نے کیوں یہ قیاس کر لیا ہے کہ آئی ایم ایف انہیں (حکومت) تگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف تو ترقی یافتہ ممالک کے ماتحت ایک ایسا ادارہ ہے جو قرضہ دینے کا کاروبار کرتا ہے۔ اسے اس بات سے غرض نہیں ہے کہ آپ قرضہ کی رقم کہاں اور کیسے خرچ کریں گے۔ اسے تو اپنی رقم پر سود اور اپنی رقم کو محفوظ رکھنے کا یقین ہونا چاہیے۔ اسے اگر یہ غرض ہوتی کہ رقم کہاں اور کس انداز میں خرچ ہو رہی ہے تو پاکستان یا دیگر ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے نہیں ہوتے۔ آئی ایم ایف کو کیا غرض کہ  دولت مشترکہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے دولت مشترکہ کی سربراہ ملک برطانیہ تو کمرشل فلائٹ سے آئیں لیکن مقروض پاکستان کا صدر مرحوم فاروق لغاری خصوصی طیارہ لے کر جائے اور جب اس کے طیارہ کا انجن خراب ہو جائے تو پاکستان سے ایک اور طیارہ انجن لے کر جائے تاکہ صدر پاکستان کو واپس لایا جائے۔ آئی ایم ایف کو کیا غرض کہ ملک کا وزیر اعظم ترکی میں 1999 میں آنے والے خطرناک زلزلہ کے بارے میں ترکی کی حکومت سے اظہار یکجہتی کے لیے جائے لیکن اسے استنبول میں کباب تیار کرنے والے کاریگر کے ہاتھوں بنا ہوا کباب کھانے کی خواہش جاگ رہی ہو۔ وہ کبابوں کو دوسرے روز ازمیر لانے پر بضد ہو جہاں ترکی کے صدر اس سے ملاقات کے منتظر ہوں۔ پاکستان کی تاریخ ایسے لاتعداد واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں آئی ایم ایف سے لیے ہوئے قرضوں کو دل کھول کر استعمال کیا گیا ہو۔

دنیا جہان میں قرضوں کے استعمال کا اہم ترین اصول یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے قرضہ لیا گیا ہو، اسے اسی مقصد کے لیے ایمان داری کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ قیام پاکستان سے قبل سندھ میں جو مہاجن قرضہ دیا کرتے تھے انہیں اس بات سے غرض نہیں ہوتی تھی کہ اپنی زمین گروی رکھا کر قرض لینے والا زمیندار اس سے لیے گئے قرضہ کو کہاں اور کیسے استعمال کرے گا۔ جن زمینداروں نے اس قرض کو پیداواری کاموں پر استعمال کیا وہ فائدے میں رہے اور جنہوں نے اپنی عیاشیوں کو مقدم جانا ان کی زمینیں گروی رہیں یا فروخت ہو گئیں۔ پاکستان کے ساتھ بھی آئی ایم ایف کے قرضوں کے استعمال کا یہی حشر ہوا ہے۔ سیاست دانوں سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ انہیں اگر آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہی نہایت ضروری لگتا ہے تو کیوں نہ حکومت پاکستان کی نجکاری کر دی جائے، کیوں نہ وفاقی اور صوبائی وزراء کی قطار در قطار کی ہی نجکاری کر دی جائے۔

 

کیوں نہ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی نجکاری کر دی جائے تاکہ ملک اخراجات کے بوجھ سے محفوظ رہے اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے تگنی کا ناچ نہ ناچنا پڑے۔ ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیں تو سہی کہ قرضے میں بال بال جکڑا ہوا ہو لیکن پھر بھی دل کھول کر اخراجات کئے جارہے ہوں۔ آئی ایم ایف کے بارے میں بنگلہ دیش کے گرامین بنک کے بانی محمد یونس نے اپنی خود نوشت میں خوبصورت تجزیہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ ادارہ تو ایسے ملازم رکھتا ہے جو قرضہ ’’فروخت‘‘ کرتے ہیں۔ ان ملازمین کی یہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ گاہک کو کسی نہ کسی طرح مائل کریں کہ وہ قرضہ حاصل کریں۔ وہ رانا جی کی حکومت کو کیوں تگنی کا ناچ نچوائے گا۔ رانا جی! غلطی ہم سے ہی ہوئی ہے۔صرف غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری غلطیوں کی نشاندہی آئی ایم ایف کو نہ کرنا پڑے۔ قرضہ لینے والے ممالک کے حکمران طبقے کو بھی پابند کیا جانا چاہئے کہ قرضہ کی رقم کو مال مفت دل بے رحم تصور نہیں کیا کریں۔

پاکستان کا ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ یہاں سیاست داں ملک کے مسائل کے حوالے سے سوچنے میں کوتاہی اور کمزوری کا شکار ہوتے ہیں۔ بہتر معیاری تعلیم،بہترین علاج و معالجہ، بہترین مواصلات کا نظام، عوام کے لیے بہترین اور سستی سفری سہولتیں، غرض تمام بنیادی معاملات کے بارے میں سرکاری ملازمین ہی سوچتے اور فیصلہ کرتے ہیں، کب عوام کے منتخب نمائندوں کے ایوانوں میں بنیادی مسائل پر سیر حاصل بحث ہوئی ہو۔ ملک کے مقتدر ایوانوں میں کب بحث ہوتی ہے کہ اس ملک کے عوام کے ساتھ جانوروں کے مقابلہ انسانوں جیسا سلوک تو کیا جائے۔ بجلی کی کمی اور دن بھر کا زیادہ تر حصہ بجلی کی عدم فراہمی کی نذر ہوجانا ، کیوں کر اس ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں آٹھ سے بارہ اور سولہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کو حکمرانوں نے عوام کی تقدیر قرار دے دی ہے۔ خود حکمران اپنے دفاتر اور گھروں میں جنریٹر کے ذریعہ پیدا ہونے والی بجلی میں وقت گزارتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرض کے پیسے سے خریدا ہوا تیل خرچ کرتے ہیں۔ وہ اس ملک کے عوام کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کا عذاب کیوں نہیں برداشت کرتے۔

 

سوشل میڈیا سائٹ پر جاری کی گئی ایک سٹوری میں اداکار فیصل قریشی نے حکومت کو ایک تجویز دی ہے کہ اگر ہر گھر کو 5 سے 10 کلو واٹ کا سولر سسٹم قسطوں پر لگا کر دے جس کا دورانیہ پانچ سال میں مکمل ہو تو ہر گھر سولر سسٹم لگا لے گا تاکہ لوڈ شیڈنگ کا کچھ تدارک ہو سکے۔ سولر سسٹم لگنے سے تیل پر چلنے والے 50 بجلی گھر فوراََ بند ہوجائیں گے جس سے اربوں ڈالرز کے تیل کی امپورٹ کا بل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا اور معیشت بہتر ہو جائے گی۔ اداکار نے مزید کہا کہ اگر حکومت اس پر غور کرے توہم اپنے ملک کے حالات کو بہت بہتر کر سکتے ہیں۔ تیل بر آمد کرنے پر ملک کو جو پیسہ ادا کرنا پڑا رہا ہے ، اس کے بارے میں یہ بھی غور کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں پیٹرول کی راشننگ کر دی جائے۔ حکومت کو مشکل سے نجات کے راستے تو تلاش کرنا ہی ہوں گے۔ یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف نے نچایا ہوا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے کہ سرکاری دفاتر میں سولر کی پلیٹوں کو لگانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ یہ تحقیقات کرنا پڑے گی کہ سولر پلیٹیں کون سپلائی کرے گا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button