ColumnKashif Bashir Khan

ارسطو،اشرافیہ اور حکومت! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
جمہوریت کے خدوخال اور عوام کے لیے اس کے ثمرات آج تک ایک معمہ ہیں(بالخصوص پاکستان میں) گو کہ چند دانشور اور فلسفی سینکڑوں سال سے اسے بہترین طرز حکومت قرار دینے کی سر توڑ کوششیں کرنے کے باوجود جمہوریت کو مثالی نظام حکومت قرار نہیں دے سکے۔آج بھی ارسطو کی کہی بات کی بازگشت دنیا کی سیاست میں سنائی دیتی ہے جس میں اس نے جمہوریت کو ایک ایسا نظام قرار دیا تھا جس میں چند افراد مل کر نظام کو یرغمال بنا لیتے ہیں اور عوامی رائے کو گنتی کی بنیاد پر حکمران بن کر عوام کا استحصال کرتے ہیں۔یہ چند لوگوں کا ایک گروہ ہوتا ہے جو لاکھوں،کروڑوں لوگوں کی تائید(ووٹ)کے ذریعے مقتدر اعلیٰ بن کر اپنی پسند و ناپسند عوام پر لاگو کرتے ہیں۔ صدیاں بیت چکیں لیکن ارسطو کے فلسفے اور نظریات آج بھی دنیا کے تمام فلسفوں اور نظریات پر بھاری ہیں۔شہری زندگی اور سیاسی نظام انسانی کاخالق بھی ارسطو ہی کہلاتا ہے کہ اس نے پولیٹیکل سائنس کی بنیاد رکھی،گو کہ جمہوریت کی بنیاد بہت پہلے قدیم یونان میں 530 بی سی میں رکھی گئی اور انگریزی کا لفظ Democracy بھی یونانی دو الفاظ پر مشتمل ہے یعنی Demo اورCratoڈیمو سے مراد انسان یا شہری ہیں جب کہ کریٹو سے مراد پاور یعنی طاقت ہے۔اگر اس کی تعریف کی گہرائی میں جائیں تو یہی معلوم پڑتا ہے کہ عوامی طاقت یا عوام کی حکومت۔ ارسطو کا نظریہ مختلف تھا اور اس کا کہنا تھا کہ یہ دنیا انفرادی اشخاص کا مجموعہ ہے اور قدرت نے ہر جاندار میں انفرادی ترقی کی صلاحیت رکھی ہے جسے وہ استعمال کرکے اپنے اور معاشرے کی ترقی و سہولت کا باعث بنتا ہے۔
ارسطو ایک ایسی آئینی و قانونی حکومت کا داعی تھا جو ریاست کے باشندوں کو شہریت دینے کے ساتھ ساتھ سب کے حقوق کی ضامن ہو،غریب اور امیر کو برابری کے مواقع اور حقوق کی فراہمی کے لیے ارسطو کا نظریہ زمام اقتدار کے بہترین حقدارAristocrats&Obligarchy مشترکہ طور ہیں۔Obligarchy( کاروباری اور منفرد معاشرتی شخصیات کی حکومت۔چند لوگوں کی حکومت یا پھر یک جماعتیں حکومت جیسے سویت یونین کی حکومت)۔ اشرافیہ کو بطور حکمران بنانے کے ارسطو کے نظریہ کے پیچھے بڑے ٹھوس دلائل کارفرما تھے کہ اشرافیہ وہ طبقہ ہوتا ہے جو معاشی طور پر خود کفیل اور امیر ترین ہوتا ہے اور ان کی امارت اور آرام دہ زندگیوں نے ان پر عقل و دانش کے دروازے کھول رکھے ہوتے ہیں اور وہ بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ وہ ریاست کا انتظام کچھ اس طرح چلا سکیں کہ امیر و غریب کا یکساں خیال رکھ سکیں۔ ارسطو کے نزدیک اشرافیہ اور چند گنے چنے سریااشخاصکا کمبی نیشن ہی ریاست کا امور بہترین چلانے کے اہل اور حقدار ہوتے ہیں۔جدید زمانے میں اس کی زندگی مثال برطانوی نظام حکمرانی ہے جہاں پارلیمنٹ اور بادشاہت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔
آج بھی وہاں بادشاہ یا ملکہ کو حقیقی حکمران سمجھا جاتا ہے۔ (گو اس کا پارلیمنٹ میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے) اشرافیہ کا جو تصور ارسطو کے یہاں پایا جاتا تھا وہ آج کے دور میں ممکن نہیں ہے بالخصوص جنہیں ہم اشرافیہ کہتے ہیں ان کا اصل اشرافیہ طبقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔پاکستان میں موجود تمام امیر ترین لوگ حکومتی و غیر حکومتی کا تعلق حقیقی اشرافیہ سے کسی طور بھی نہیں جوڑا جا سکتا۔
حکومتوں میں آ کر اور سرکاری مراعات کی چھتری تلے عوام کے حقوق و دولت اکٹھی کر کے امیر ترین شخص یا خاندان بننا اشرافیہ کا وصف پرانے دور میں ہرگز نہیں تھا۔ارسطو اگر اشرافیہ کو اقتدار اعلیٰ کا حق دار قرار دیتا تو اس کے نزدیک اصل اشرافیہ کی قدریں اور روایات ان کو غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات سے روکتی ہیں بلکہ ان کے نزدیک ایسے مکروہ اقدامات کا سوچنا بھی محال ہوتا ہے۔اس لیے قارئین کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ارسطو کا اشرافیہ اور موجودہ ادوار کے امیر ترین حکمرانوں کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔برطانیہ کی ملکہ کو ہم اشرافیہ کہہ سکتے ہیں لیکن عوام کی صفوں سے اٹھ کر ہر جائز و ناجائز طریقے سے پیسہ کما کر امیر ترین ہو جانے والے جتنے بھی پروٹوکول اور عیش کرلیں ان کو اشرافیہ نہیں کہا جا سکتا۔بات جمہوریت سے شروع ہوئی اور ارسطو تک جا پہنچی کہ ارسطو پولیٹیکل سائنس کا بانی کہا جاتا ہے اور اس کا استاد افلاطون (پلوٹو) تھا جس سے اس کے نظریاتی اختلاف بھی تھےلیکن استاد افلاطون اور شاگرد ارسطو اس پر متفق تھے کہ انسانی زندگی کیسے خوشگوار بنائی جائے اور انسانی زندگی کے کن مقاصد کا حصول ضروری ہے۔انسانی زندگی میں خوشی کا حصول اور اس کے ذرائع اور طریقہ کار پر افلاطون اور ارسطو کے خیالات ایک تھے اور آج بھی ان خیالات و نظریات کو انسانی زندگی میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اب اگر ہم جمہوریت کے بارے ابراہم لنکن کی مشہور تعریف پر نظر ڈالیں تو اس کا کہنا تھا کہ عوام کی حکومت،عوام کے ذریعے۔عوام کے لیے حکومت اب اگر اس تعریف کو دیکھا جائے تو سننے میں بہت بھلی لگتی ہے لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر کی جمہوریتوں پر نظر دوڑائیں تو امریکہ سمیت کسی بھی جمہوریت میں عوام کے ذریعے عوام کی حکومت دکھائی نہیں دیتی
۔یہ نظام انصاف کا نظام نہیں ہے اور اس میں حصہ لینے والے اور جیتنے والوں کی اکثریت امیر ترین لوگ تو ہیں لیکن (باوصف) اشرافیہ یا جمہوری ہرگز نہیں،میں پاکستان میں موجود اکثریتی سرمایہ داران،امیرترین سیاست دان،وڈیروں اور بزنس ٹائیکون شخصیات کو جانتا ہوںاور بدقسمتی سے وہ سب حقیقی اشرافیہ کی تعریف پر پورا نہیں اترتے ، اگر اس وقت پاکستان میں اشرافیہ کو ڈھونڈنا ہو تو مجھے تو صرف نواب آف بہائولپور کی فیملی دکھائی دیتی ہے لیکن ماضی میں بہائولپور کے عوام اور پھر پاکستان بننے کے بعد جس طرح نواب آف بہائولپور نے آسانیاں پیدا کیں اس کے بعد ان کو زور زبردستی سے پس منظر میں پھینک دیا گیا۔آج بھی بہائولپور میں نواب خاندان کے عروج کی نشانیاں جابجا ہر جگہ بکھری پڑی ہیں۔بلاشبہ نواب آف بہائولپور ارسطو کی اشرافیہ کے تعریف پر بطور حکمران سو فیصد فٹ ہوتے تھے اور ان کی بہائولپور کے عوام کے لیے کئے گئے اقدامات قریباً سو سال کے بعد بھی آج ایک اشرافیہ حکمران کے وصف کی اعلیٰ مثال ہے۔میں تو بہائولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی کو دو کیمپس دیکھ کر ہی حیران و پریشان ہو گیا تھا اور جہاں میرے دل سے موجودہ وائس چانسلر جناب اطہر محبوب کے لیے دعائیں نکلی تھیں اور میں ان کی قابلیت اور علم دوستی کے لیے اسلامیہ یونیورسٹی کو پاکستان کی بہترین اور بڑی یونیورسٹی بنانے کا معترف ہو گیا تھا وہاں میں یہ سوچنے پر مجبورتھا کہ سو سال پہلے بہائولپور کے نواب حکمرانوں کے دل میں عوام اور انگلی نسلوں کی ترقی کے لیے جوپل رہا تھا وہ آج کے حکمرانوں کی سوچ اور قابلیت سے کوسوں دور ہے بلکہ اس سوچ تک پہنچنے کی ان میں نہ تو ہمت ہے اور نہ ہی ان کی دماغی گنجائش ۔
ریاستی نظام حکومت کی مضبوطی اور افزائش کے لیے اگر جمہوریت کو ہی اپنا ہے تو پھر اپنے نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہو ں گی کہ جس میں حکمران کے وصف کو لازمی پرکھنا ہوگا۔ موجودہ نظام صرف طاقتور اور دولت مند کو سند حکمرانی عطا کرتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں طاقتور اور دولت مندوں کی اکثریت اور ان کے دولت مند بننے کے طریقہ کار سے اب تو بچہ بچہ واقف ہےجب تک حکمرانی کے لیے قابلیت ایمانداری روایت پسندی اور اس کا بے داغ ماضی سخت ترین شرط نہیں بنایا جائے گا ہم بطور پاکستانی ایسے ہی بے منزل اور بے چین بھٹکتے رہیں گے۔دین اسلام میں بھی حکمرانی کے لیے امیر المومنین کو لازم قرار دیا گیا ہے اور اگر اس اسلامی عہدہ(امیر المومنین) کی تفصیلات دیکھیں تو امیروں کا امیر اور مشاورت لازم ملزوم ہیں۔ بات پھر وہاں ہے یعنی اشرافیہ،جو شخص مذہب اسلام میں امیر ہو گا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ حکمرانی کا وصف نہ رکھتا ہو اور اشرافیہ نہ ہو۔آج عوام کو اشد ضرورت ہے کہ حکمرانوں کے وصف پہچانیں اور اصل اشرافیہ اور امیر المومنین کے وصف اپنے اوپر حکومت کرنے والوں میں تلاش کریں۔
موجودہ دور کے اقتدار پر بلا اور بلواسطہ قابض طاقتور لوگوں کو اشرافیہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ طاقتور اور امیر تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ نہ تو اصل اشرافیہ کی شرط پر پورا اترتے ہیں اور نہ ہی جو جمہوری ہیں۔یہ بات یقینی ہے کہ ریاست کے نظام کو چلانے کے لیے صرف مالدار افراد ہی ناکافی ہیں اور موجودہ قابل اور لائق لوگوں کی قحط الراجی کے دور میں چلنے والی جمہوریتوں پر بھی انہی نو دولتیوں کا قبضہ نظر آتا ہے جو صرف اور صرف طاقت کے بل بوتے پر حکومتیں حاصل کرنے اور چلانے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں اور ہماری آج کی بدترین معاشی اور معاشرتی صورتحال کی اصل وجہ بھی یہ ہے۔ عوام کو اصل جمہوریت کے تمام تقاضوں اور وصف حکمرانی کو سمجھنا ہوگا اورپھر اپنے اور آنے والی نسلوں کی زندگیوں کے فیصلے کرنے والے اصل لوگوں کو سامنے لانا ہو گا۔یقین کیجئے یہ مشکل کام نہیں اگر عوام چاہیں تو!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button