Column

دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر

دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر
تحریر : عابد ایوب اعوان

دنیا آج جس نازک موڑ پر کھڑی ہے، وہاں امن محض ایک خواب، اور جنگ ایک تلخ حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ ہر طرف تصادم، تصادم کی تیاری، اور طاقت کی نمائش ہو رہی ہے۔ کہیں روس اور یوکرین کے میدان جنگ دہک رہے ہیں، کہیں مشرق وسطیٰ شعلوں کی زد میں ہے، کہیں ایشیا میں جنگی کشیدگی بڑھ رہی ہے، اور کہیں جنوبی ایشیا میں دو دیرینہ دشمن ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے انگارے سمیٹے بیٹھے ہیں۔ اگر عالمی برادری نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو دنیا تیسری عالمی جنگ کی دلدل میں گر سکتی ہی اور اس بار، انسانیت شاید سنبھل نہ سکے۔
بڑی طاقتوں کی چپقلش: ایک مہلک کھیل، روس اور یوکرین کی جنگ محض دو ملکوں کا مسئلہ نہیں رہا۔ امریکہ اور یورپ کی مداخلت نے اسے مشرق اور مغرب کی پراکسی وار میں بدل دیا ہے۔ نیٹو کی توسیع اور روس کا دفاعی جنون، اس جنگ کو عالمی تصادم میں بدلنے کے درپے ہیں۔ اسی طرح چین اور تائیوان کا تنازعہ، بحر الکاہل میں ایک نئے محاذ کو جنم دے رہا ہے، جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی کھلے عام عسکری مشقیں کر رہے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ: امن کی تلاش میں، غزہ میں اسرائیل کی حالیہ جارحیت اور ایران کے ساتھ براہِ راست کشیدگی، مشرق وسطیٰ کو دنیا کے خطرناک ترین خطوں میں شامل کر چکی ہے۔ یہاں جنگ کسی ایک سرحد پر نہیں رکے گی۔ ایران، حزب اللہ، شام، یمن، عراق یہ سب اس جنگ کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کے بیچ بڑھتی ہم آہنگی اور ایران کی علاقائی حکمت عملی، دنیا کو نئے محاذ پر لے جا سکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت: ایٹمی ہمسائے، مسلسل تنائو، جنوبی ایشیا میں دو ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل کشیدگی دنیا کے لیے ایک مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ، جسے اقوامِ متحدہ آج تک حل نہ کروا سکا، بدستور دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کی جڑ ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی بڑھتی ہوئی سوچ، اقلیت دشمن پالیسیاں، اور پاکستان مخالف بیانیہ، اس خطے میں جنگی فضا کو گہرا کر رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک، بالاکوٹ حملہ، اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل خلاف ورزیاں وہ عوامل ہیں جو کسی بھی وقت جنگ کو بھڑکا سکتے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے، مگر بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات اور جارحانہ اقدامات جنوبی ایشیا کو تباہی کے دہانے پر لے جا سکتے ہیں۔ یہ خطہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے، اور اگر جنگ ہوئی تو اس کا دائرہ محدود نہیں رہے گا۔ ایک چھوٹی سی جھڑپ، اگر سیاسی حکمت سے نہ نمٹائی گئی، پورے خطے کو ایٹمی آگ میں جھونک سکتی ہے۔
ایٹمی خطرہ: انسانیت کے لیے سیاہ مستقبل، دنیا میں اس وقت ہزاروں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ امریکہ، روس، چین، بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا سب ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ہتھیار اگر کسی بڑے تصادم میں استعمال ہوئے، تو محض ایک خطہ نہیں، پوری دنیا متاثر ہوگی۔ کروڑوں انسان مارے جائیں گے، موسم، زراعت، اور فضا مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گی۔ ایٹمی جنگ کا مطلب صرف موت نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مستقل عذاب ہے۔
اقوامِ متحدہ کی بے بسی، قیادت کا بحران: افسوسناک امر یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے طاقتور ممالک کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں۔ ہر بڑی طاقت اپنے مفاد کی خاطر فیصلے کرتی ہے، انسانی حقوق، امن، یا انصاف ان کے ایجنڈے پر نہیں۔ عالمی قیادت میں نہ اخلاقی جرات ہے، نہ اتحاد، نہ ہی وہ وعن جو دنیا کو اس دلدل سے نکال سکے۔معاشی بحران اور سماجی عدم استحکام: جنگی ماحول نے عالمی معیشت کو پہلے ہی تباہ کر دیا ہے۔ افراطِ زر، مہنگائی، خوراک و ایندھن کی قلت، اور بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ معاشرے غیر متوازن ہو رہے ہیں، مظاہرے اور بدامنی بڑھ رہی ہے، جبکہ مہاجرین کا بحران ایک نئی انسانی المیہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
کیا اب بھی وقت ہے؟، جی ہاں، اب بھی وقت ہے۔ دنیا اگر سنجیدگی سے سفارت کاری، مکالمے، اور عالمی انصاف کے اصولوں پر عمل کرے تو یہ آگ روکی جا سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کو چاہیے کہ باہمی مذاکرات، مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل، اور عسکری جنون سے گریز کی راہ اختیار کریں۔
بڑی طاقتوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ دنیا پر حکمرانی چاہتے ہیں، تو اس کے لیے تباہی نہیں، استحکام کی راہ اپنانی ہوگی۔ جنگوں سے نہ ماضی میں کچھ حاصل ہوا، نہ آئندہ ہوگا۔ تیسری عالمی جنگ کا آغاز شاید چند میزائلوں سے ہو، مگر اس کا انجام پوری انسانیت کی قبرگاہ ہوگا۔
اختتامیہ
ہمیں یہ فیصلہ آج کرنا ہے کہ کیا ہم تاریخ میں بربادی کا کردار بننا چاہتے ہیں یا نجات دہندہ؟ اگر ہم نے خاموشی اختیار کی، اگر ہم نے سوال نہ اٹھایا، اگر ہم نے جنگی بیانیے کو چیلنج نہ کیا تو پھر تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
جیسا کہ ایک دانشور نے کہا تھا: ’’ جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، بس ہارنے والے زیادہ ہوتے ہیں‘‘۔v

جواب دیں

Back to top button