دل اگر بے غبار ہو جائے

دل اگر بے غبار ہو جائے
تحریر : صفدر علی حیدری
ایک سیانے سے میں نے ایک دن کامیابی کا راز پوچھا تو وہ شرمانے لگا، ہچکچانے لگا۔
میں نے وجہ پوچھی تو وہ ایک جھلسا دینے والی ’’ ٹھنڈی ‘‘ آہ بھر کر بولا ’’ مجھے یہ راز معلوم ہوتا تو آج میں خود کامیاب زندگی نہ گزار رہا ہوتا۔ ہاں البتہ میں تمہیں ناکام ہونے کا ایک تیرِ بہدف صدری نسخہ ضرور دے سکتا ہوں۔ کاش مجھے اس کی سمجھ ناکام ہونے سے پہلے آ جاتی۔ لیکن یہ وہ پہیلی ہے جسے ناکام ہوئے، بغیر بوجھنا بڑا مشکل ہے‘‘۔
اور پھر خود ہی اس نے اس قیمتی راز پر پڑا ابہام کا پردہ اٹھا دیا۔
’’ جب آپ ہر ایک کو راضی کرنے لگتے ہیں تو ناکامی ایک میرا ہی کیا سب کا مقدر بن جاتی ہے ‘‘۔
اس بھولے بادشاہ کو اب کون سمجھائے کہ ادھر تو صرف ’’ ایک ‘‘ کو راضی کرنے کی کوشش میں جہاں بھر کی ملامت ہمارا مقدر ٹھہری ہے اور نوبت اب یہاں تک آن پہنچی ہے کہ’’ اپنے بھی خفا ہم سے، بیگانے بھی ناخوش‘‘۔
ماننا ہو گا کہ ہم میں فقط جراتِ اظہار ہی کی نہیں، جراتِ انکار کی بھی کمی ہے، سو ’’ یس سر یس سر ‘‘ کہہ کہہ کر ہم نے دوسروں کو کچھ زیادہ ہی سر پر چڑھا لیا ہے۔ ’’ ڈومور‘‘ نے جبھی تو صورت حال ’’ کجھ ہور‘‘ کر دی ہے۔
سو سمجھوتوں، مصلحتوں اور قرضوں نے سلطنت وجود کا جوانی میں ہی ’’ کب‘‘ نکال دیا ہے۔ المیہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ ہم ’’ دوہرائی‘‘ ( بار بار ایک سی غلطیوں دوہرانا) کے عادی ہو چکے ہیں۔ جبھی تو حسبِ توفیق ہماری ’’ دھلائی ‘‘ جاری ہے۔ ایسے میں یہی ٹھکائی ہی ہماری دوائی ہے جو ہمارے بڑے اور ہمارے ’’ اپنے ‘‘ پوری تندہی سے زبردستی ہمیں ’’ گڑکانے‘‘ ( پلانے) جا رہے ہیں۔ اور اب تو خیر سے صفائی کا بھی حکم دے دیا گیا ہے۔ یعنی خود ٹھیک ہو جائو ورنہ۔۔۔ مجبوراً یہ نیک کام بھی ہمیں اپنے مبارک ہاتھوں سے کرنا پڑے گا۔
بات کہیں اور نکل گئی۔ ذکر ہو رہا تھا کامیابی کا کہ جس میں ناکامی سدِ راہ بن جاتی ہے۔ یہ ناکہ بندی اکثر سالکوں کی راہیں کھوٹی کر دیا کرتی ہے۔ راہ کھوٹی ہو جائے تو انسان دائروں کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے۔ پھر تو پائوں غبار آلود ہو کر منزل سے دور دور ہی رہتے ہیں۔
دائروں کے راہی تھے منزلیں کہاں ملتیں ؟
بے مراد ہیں پائوں گردِ راہ سے اٹ کر بھی
ہم میں سے اکثر لوگ انا اور خودی کے درمیان فرق ہی نہیں کر پاتے۔ خودی دراصل اپنی ذات سے محبت کے حسین توازن کا نام ہے، یعنی عشقِ مسنون، جب کہ انا انسان کی اپنی ذات سے بڑھی ہوئی غیر متوازن محبت کو کہتے ہیں۔ اس اندھی محبت بلکہ اندھا دھند محبت کو آپ ’’ عشق ممنوع ‘‘ یا پھر عشقِ مجروح کہہ سکتے ہیں، جو ہرگز روا نہیں۔ مجروح اس لئے بھی کہ یہ کائنات یا خود اپنی ذات میں سے کسی ایک یا دونوں کو مجروح ضرور کرتا ہے اور یہ عمل مثلِ جراحی نہیں ہوتا بطریق ’’ قسائی‘‘ ہوتا ہے۔
کائنات سے ذات کی طرف یہ الٹی زقند آدمی کو کبھی خود کشی کراتی ہے تو کبھی خود کش حملہ آور بناتی ہے۔ میرے ایک دوست نے ایک دن بڑی پیاری بات کی۔ کہنے لگا’’ کامیابی کا تعلق انسان کے باطن سے ہے۔ اصل کامیابی اندر کی کامیابی ہے‘‘۔ جبھی تو ’’ بیرونی امداد‘‘ سے حاصل کی گئی کامیابی انسان سے اس کی غیرت چھین لیتی ہے اور یوں’’ سب کچھ ملا سکون کی دولت نہیں ملی‘‘ کی سی کیفیت انسانی روح کو بے بسی سے ہاتھ ملنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ باطنی کامیابی کا معاملہ یہ ہے کہ یہ صفائے باطنی کے سوا ہاتھ نہیں آتی۔ اس کے لئے تطہیر نفس پہلی اور لازمی شرط ہے۔ تسخیر اس ترتیب میں آگے کا مرحلہ ہے۔ ترتیب بے سبب کہاں آتی ہے یہ تو تربیت کے فیضان ہوا کرتی ہے۔ بنا تربیت ایسی کوئی تدبیر کی بھی جائے تو نتیجہ’’ تبخیر ‘‘ کی صورت برآمد ہوتا ہے اور یوں ہر کوشش بخارات بن پر فضا میں منتشر ہو جاتی ہے۔
سورہ الشمس گواہ ہے کہ رب ذوالجلال نے گیارہ قسمیں کھانے کے بعد اعلان فرمایا کہ فلاح اسی نے پائی جس نے اس نفس کو پاک کیا ( سارے جہان کو نہیں صرف اپنی جان کو) اور نامرادی اسی نے سمیٹی جس نے تکرار گناہ سے اسے دبا دیا۔
یہ تکرار استقرار بن جائی تو گناہ معمول کی چیز بن جاتا ہے۔ معمولی لگنے لگتا ہے۔ پھر یہ جسارت اس کی کمیت اور کیفیت کو بڑھا کر گناہ کبیرہ بنا دیتی ہے۔ گناہ تو ایک گستاخی ہوتی ہے۔ کیا چھوٹی کیا بڑی، گستاخی تو گستاخی ہی ہوئی جو غلام کے حق میں کبھی مفید ثابت نہیں ہوتی۔
صفائے باطنی سے گناہ کا غبار ٹل جاتا جائے تب آئینہ دل میں حق کی تصویر آپ سے آپ روشن دکھائی دینے لگتی ہے ۔ پیر نصیر الدین نصیر بھی کیا عجب یاد آئے
دل اگر بے غبار ہو جائے
حق کا آئینہ دار ہو جائے
مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد ہے’’ دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے ‘‘۔اب سفر تمام ہوتا ہو آنکھ کھلے۔ آنکھ کھلتی ہے تو وہ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انسان کا منہ بھی کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔
اب اگر ایسا نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ اس کی ہدایت کا سامان کر دیتا ہے۔ کوئی راہ چلتا اسے جگا دیتا ہے تو اس کا احسان شمار ہو گا
’’ ہم کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں ‘‘۔
یہ بڑا مناسب وقت ہوتا ہے اور غنیمت بھی ، اپنی اصلاح و فلاح کا، صفائے باطنی کا۔ تزکیہ نفس کا۔ لیکن ہوتا عموماً یہ ہے کہ انسان بجائے اپنے دوسرے کہ اصلاح کا بیڑا اٹھا لیتا ہے۔ گھر بار چھوڑ تبلیغ کے مشن پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔
گویا ہم ہر اچھی چیز اپنی چاہتے ہیں مگر اصلاح دوسروں کی۔
گویا اصلاح اچھی چیز نہیں ہے۔ اگر ہے ہی تو انسان کی اپنی زات کے لیے نہیں ہے۔ جبھی تو لوگ اسے دوسروں کی دیکھنا چاہتے ہیں
کبھی لکھا تھا ’’ لیکن کیا کیا جائے کہ ہم ’’ دم پرست‘‘ لوگ ہر اچھی چیز اپنی چاہتے ہیں اور اصلاح دوسرے کی ‘‘۔
جس کے اپنے بچے کی ناک بہتی ہو اسے کسی اور کے بچے پر اعتراض کہاں زیب دیتا ہے ؟۔
انسان اپنے من کا سلطان ہے اور سلطان صرف حکم دیتے اچھے لگتے ہیں۔ اس سلطان کو جب جب صفائی کا خیال آتا ہے، یہ تالی بجا کر حکم صادر فرما دیتا کہ سب کچھ صاف کر دیا جائے اور پھر اس کے ہرکارے ہر جگہ کی صفائی کرتے ہیں سوائے اپنے گھر کے۔ گھر میں گند زیادہ ہو جائے تو صفائی کا کام اکثر غیر کرتے ہیں پھر صفائی نہیں ہوتی صفایا ہوتا ہے ۔
اس کاٹھ کباڑ میں کوئی کام کی چیز ملے تو اسے بھی بطور یادگار اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ یاد نہیں ایک بار ہم اپنے ساتھ والے گھر کی صفائی کرنے جا نکلے تھے۔ پھر جب بطلِ حریت اور مومن کامل کے تمغے سجائے واپس لوٹے تو ہمارا بہت سا مال اسباب ہمراہ سکھ چین لٹ چکا تھا اور گھر’’ روڑھی‘‘ ( فلتھ ڈپو) بن چکا تھا۔ یہ فلک بوس ’’ روڑھی‘‘ تاحال موجود ہے اور اب تو اس میں کئی ایک چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں کا اضافہ بھی ہو گیا ہے۔
سب سے مہلک جس میں تعصب کی ڈھیری ہے جو سب کو ڈھیر کر دینے کے درپے ہے۔ اسی کا فیضان قبرستانوں میں ہزاروں یادگاریں آباد کر چکا ہے مگر ہم ہیں کہ دوسروں پر اعتراض کرتے اور ان کی ’’ اصلاح ‘‘ میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ہر طبقہ خود کو مسٹر کلین سمجھتا ہے اور دوسرے کو بدترین۔ اکابر پرستی ، اصنام پرستی کی حدیں توڑ رہی ہے اور ہم اپنے حال اور اسی کھال میں دما دم مست کرتے پھر رہے ہیں۔ ہادی کوئی نہیں اور کوئی ہو بھی تو سب کا مشترکہ نہیں کہ یہاں سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ کوئی مشترکہ نہیں ہر ایک متنازعہ ہے اور یہی سارا تنازع ہے۔ ہاں یہی سچ ہے کہ ماضی پرست معاشرے اپنے ماضی سے خوشی حاصل کرتے ہیں عبرت نہیں ۔ ہاں البتہ دوسروں کے لئے عبرت کی مثال ضرور بن جاتے ہیں۔ دوسروں کی مثالیں دینے والے خود کوئی قابل قدر مثال بن بھی کیسے سکتے ہیں؟۔
وقت ابھی بھی ہمارے پاس ہے اور شاید اختیار بھی کہ ہم ان دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔ صفائی یا صفایا۔ ہم نے دیر کر دی تو غالب کی یہ بات ہم پر صادق آئے گی ( اللہ اس دن سے بچائے) ۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو مجھے جو دید عبرت نگاہ ہو