Column

پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتیوں میں شفافیت

پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتیوں میں شفافیت
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
مملکت میں سرکاری ملازمت پبلک سروس کمیشن کے ذریعے دینے میں شفافیت ہے۔ پنجاب میں گریڈ پندرہ کی سٹنیو گرافر کی اسامی کو پنجاب پبلک سروس کمیشن کی وساطت سے پر کیا جاتا ہے۔ تعجب ہے وفاق میں گریڈ پندرہ کی اسامی پر بھرتی کرنے کا اختیار وفاقی وزیر کے پاس ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے مسلم لیگ نون کے گزشتہ دور میں موجودہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھرتیوں کے سلسلے میں اپنے اختیارات سرنڈر کرتے ہوئے تمام اسامیاں پر کرنے کا اختیار فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو دے دیا تھا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے بغیر امتحان پاس کئے سرکاری ملازمت میں آجاتے ہیں جب تعلیمی قابلیت اور اہلیت رکھنے والے سرکاری ملازمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ حال ہی میں پبلک اکایونٹس کمیٹی کے اجلاس میں بھاری رشوت کے عوض گریڈ ایک سے پندرہ تک اسامیوں پر غیر قانونی بھرتیاں کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک اردو معاصر کی خبر کے مطابق پی اے سی کا اجلاس پی ٹی آئی کے ایم این اے جنید اکبر کی صدارت میں ہوا جس میں آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی جس میں غیر قانونی بھرتیوں کا اسکینڈل سامنے آیا ہے جس کے بعد غیر قانونی بھرتیوں کا معاملہ قومی احتساب بیورو کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔اب یہ نیب پر منحصر ہے وہ کم سے کم وقت میں اس معاملے کی انکوائری کرنے کے بعد غیر قانونی بھرتیوں میں ملوث افراد کا کیس نیب عدالت میں بھیجتا ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان تعلقات میں سردمہری ہے جے یو آئی کے امیر کے صاحبزادے کی دور وزارت میں غیر قانونی بھرتیوں کا معاملہ نوٹس میں آیا ہے۔گویا قومی احتساب بیورو کو اس اسکینڈل کی تحقیقات میں احتیاط کے پہلو کو مدنظر رکھنا ہوا گا ۔جیسا کہ اخبار میں رپورٹ ہوا ہے دس سے پندرہ لاکھ میں مبینہ طور پر نذرانہ دے کر لوگوں نے غیر قانونی ملازمت حاصل کی جس کی انکوائری ہر بہت ضروری ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری مواصلات نے بتایا انہوں نے چار سو سے زائد لوگوں کو ملازمت سے فارغ کیا ہے جواس امر کا غماز ہے نگران دور میں مواصلات کی وزارت میں بھریتوں کی منڈی لگی رہی ہے۔ عجیب تماشا ہے کوئی ایک دو نہیں، پانچ ہزار اسامیوں پر غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں ہیں، جس سے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا ملک کے پانچ ہزار نوجوانوں کی ملازمت پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ وہ نوجوان جو اپنی محنت سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد حصول روزگار کے لئے وفاقی اور صوبائی محکموں میں ملازمت کے لئے درخواست دیتے ہیں ان کی جگہ نااہل اور مبینہ طور پر رشوت کے عوض لوگوں کو ملازمت دے دی جائے تو اہل نوجوانوں پر کیا گزری ہو گی۔ ملک و قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی سیاست میں آنی والے بہت سے حضرات کا مطمع نظر مال پانی کمانے کے حصول کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ چنانچہ انہی وجوہات کی بنا بہت سے سیاست دان انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے سے گریزاں ہیں۔ سیاست دان راست باز ہوں تو انہیں کسی قسم کا خوف و خطر نہیں ہوتا نہ وہ جیل جانے سے خائف ہوتے نہ ہی مقدمات سے گھبراتے ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ اس لحاظ سے اہم ہوتا ہے اس کے روبرو تمام وفاقی محکموں کی آڈٹ رپورٹس پیش کی جاتی ہیں۔ وفاق میں پبلک اکائونٹس کمیٹی واحد فورم ہے جہاں وفاقی محکموں میں مبینہ طور پر پائے جانے والی کرپشن کے معاملات مخفی نہیں رکھے جا سکتے۔ ہمیں یاد ہے چند سال قبل ہم نے ایک مہربان وفاقی سیکرٹری سے کسی کو نائب قاصد کی ملازمت دینے کی درخواست کی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا ان کا کہنا تھا انہیں بھرتی کرنے کا اختیار نہیں ہے لیکن وفاقی وزیر کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے ہیں۔ پی اے سی کے اجلاس میں پاکستان پوسٹ اور وزارت ہائوسنگ میں بھی غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ عجیب تماشا ہے سیاسی حکومتیں چاہیں تو ملازمت کے حصول میں شفافیت لانے کے لئے جدوجہد کی ضرورت نہیں بلکہ یہ آسانی سے پبلک سروس کمیشن کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ سوال ہے پنجاب حکومت گریڈ پندرہ کی اسامی صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پر کر سکتی ہے تو وفاق میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟۔ حقیقت یہ ہے سیاست دان چاہیں تو اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں غیر قانونی کاموں کا راستہ روک سکتے ہیں بدقسمتی سے بعض سیاست دان بذات خود غیرقانونی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں لہذا ایسے سیاست دانوں سے قوم کسی اچھے کی کیا امید کر سکتی ہے۔ ہمیں یاد ہے نواز شریف نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو ممنون کرنے کی خاطر تحصیل دار، نائب تحصیل دار اور پولیس انسپکٹر بغیر کسی میرٹ کے بھرتی کئے، جن میں سے بعض سپرنٹنڈنٹس آف پولیس کے عہدے پر ترقی پانے کے بعد ملازمت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے بھی اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں بہت سی اسامیوں پر بھرتی کا اختیار صوبائی پبلک سروس کمیشن کو دے دیا تھا، جو ان کا احسن اقدام تھا۔ ہم اسلامی ریاست کے شہری ہونے کے دعویٰ دار ہیں غیر قانونی کام کرتے وقت ہمیں اس بات کا خیال کیوں نہیں آتا ہمارے مذہب میں غیر قانونی اور انصاف کے برخلاف کام کرنے کی ممانعت ہے۔ ہمارا معاشرہ روبہ زوال کیوں ہے جس وجہ قانونی کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کا فقدان ہے۔ قرون اولیٰ کے دور میں یہی کچھ ہوتا تھا کوئی بڑا جرم کا ارتکاب کرتا اسے چھوڑ دیا جاتا تھا اور کسی غریب سے جرم سرزد ہوتا تو اسے سزا دی جاتی تھی۔ جب تک ہم ملک میں قانونی کی بالادستی اور انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے صدق دل سے کوشش نہیں کریں گے ہم ترقی سے محروم رہیں گے۔ اب وقت آگیا ہے ملک میں قانون کی بالادستی اور آئین پر عمل پیرا ہو کر ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک سرکاری ملازمتوں کا حصول ہے تمام سرکاری محکموں کو خالی اسامیوں پر فیڈرل اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کرنی چاہیے تاکہ کسی کے ساتھ ملازمت کے حصول میں ناانصافی نہ ہونے پائے۔

جواب دیں

Back to top button