شاید یہ سب کچھ نہ ہوتا

شاید یہ سب کچھ نہ ہوتا
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
ہماری تاریخ میں بڑی سیاسی تلخیاں ہیں، ان تلخیوں کی وجہ سے ہم کئی سال معاشی طور پر بہت پیچھے جا چکے ہیں۔ معاشی تنگ دستی نے ان تلخیوں کو گھر گھر تک پہنچا دیا ہے۔ معاشرہ بکھر چکا ہے، سماجی، معاشرتی اور اخلاقی قدریں دم توڑ چکی ہیں۔ جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی کو قابل فخر سمجھا جا رہا ہے۔
یہ بڑا عجیب اتفاق ہے کہ شاہد حامد کے والد جنرل ( ر) حامد، پاکستان کے تیسرے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں اٹھاتے رہے کہ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور وہ خود کو بھٹو کا وفادار سمجھتے تھے، تاہم وقت کیسے بدلتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ انسان کیسے بدل جاتے ہیں۔ اسی جنرل حامد کے بیٹے شاہد حامد نے 5نومبر 1996 ء کی رات، اسی ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کی حکومت توڑنے کے لیے اپنے دوست فاروق لغاری کے کہنے پر صدارتی حکم نامہ تیار کر کے دیا۔ شاہد حامد کے تیار کردہ اسی صدارتی حکم نامے نے ملک کی تاریخ ہمیشہ کے لیے بدل دی، کیونکہ اسی کے نتیجے میں آصف علی زرداری جیل گئے، جہاں سے وہ 2004ء میں تقریباً دس سال بعد رہا ہو کر ملک سے باہر چلے گئے۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو مارچ 1999ء میں ملک چھوڑ کر جلا وطن ہو چکی تھیں، اور جب آٹھ سال بعد وطن واپس آئیں تو راولپنڈی کے ایک بازار میں سرِعام شہید کر دی گئیں۔ اگر اس رات بے نظیر بھٹو کی حکومت نہ توڑی جاتی، تو شاید یہ سب کچھ مختلف ہو سکتا تھا۔ ( کتاب ’’ ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ سے لیا گیا اقتباس)۔
سیاست تین طرح کی ہوتی ہے: پاور پولیٹکس، سرپرائز پولیٹکس اور اکوائرڈ پولیٹکس۔
ہمارے ہاں زیادہ تر سیاست پاور پولیٹکس اور سرپرائز پولیٹکس پر مشتمل رہی ہے۔ ہر نیا الیکشن دھاندلی زدہ قرار دیا جاتا ہے، کسی بھی الیکشن پر سیاسی جماعتوں کا باہمی اتفاق نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ رکتا ہی نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے لیے بے شمار مشکلات کا سامنا کیا۔ بھٹو خاندان کی قربانیاں آج بھی زندہ ہیں۔ پاکستانی سیاست میں کئی ایسے اتار چڑھائو آئے، جنہوں نے ملک کو کمزور کیا۔ 1999ء میں شریف فیملی جدہ چلی گئی، اسحاق ڈار کو گرفتار کر لیا گیا، شریف فیملی کے خلاف تفتیش کی گئی، لیکن جنرل مشرف مرحوم کوئی ایسا کیس ثابت نہ کر سکے جسے رجسٹرڈ فراڈ کہا جا سکے۔ ایسے کئی مقدمات کی فائلیں آج بھی سرکاری الماریوں میں پڑی ہیں۔ اسحاق ڈار کے حوالی سے اسٹیبلشمنٹ مطمئن رہی، کیونکہ وہ حقیقتاً ایک قابل وزیر خزانہ ثابت ہوئے۔ میاں اظہر نے انہیں مشرف کی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی، جسے اسحاق ڈار نے ٹھکرا دیا۔ میاں اظہر نے اس کے بعد جنرل مشرف مرحوم کو ان کے خلاف منفی رپورٹ دی۔ جو بعد میں شائع بھی ہوئی۔
ویسے، پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے درست کہا تھا کہ ’’ حکومتی فیصلے میاں نواز شریف کی مشاورت سے لیے جاتے ہیں‘‘۔ میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار ایک پیج پر ہیں۔ اسحاق ڈار معاشی اتار چڑھائو کو بخوبی سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مشرف دور میں ان کے خلاف کچھ ثابت نہ ہو سکا۔ عوامی سوچ یہی ہے کہ اگر کچھ ثابت نہ ہو سکا تو پھر عوام کو دھوکے میں رکھ کر کیا حاصل کیا گیا؟، اس طرزِ عمل نے عوام کا قانون اور اداروں پر اعتماد کمزور کیا ہے۔ ہمیں سمجھوتوں کی سیاست سے باہر نکل کر عوامی ووٹوں کی طاقت سے ملک کو آگے بڑھانا ہوگا۔ بین الاقوامی سیاست بدل رہی ہے، جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کا رخ تبدیل کر دیا ہے، ترقی پذیر ممالک کے لیے صورتحال خاصی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ ہمیں اپنے ہاں طاقت کی سیاست کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اب عمران خان ہی کو دیکھ لیں، سیاست میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ پس پردہ کیا چل رہا ہے، ہر طرف خاموشی ہے، لیکن میڈیا پر خبروں کی حقیقت کو بھی بے بنیاد قرار دیا جا رہا ہے۔ 1999ء میں میاں نواز شریف کی جدہ روانگی سے پہلے بھی ایسی ہی خاموشی تھی، مسلم لیگ ( ن) اس وقت کسی معاہدے کی تصدیق نہیں کر رہی تھی، لیکن آخر کار وقت کے ساتھ سب کچھ سامنے آ گیا۔
وقت کے ساتھ سب کچھ واضح ہو جاتا ہے، مگر تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اگر طاقتور حلقے اب بھی ماضی کی طرح ملک کو آگے بڑھانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، تو یقین کریں، یہ ممکن نہیں ہوگا۔ دنیا بھر میں حالات تبدیل ہو چکے ہیں ، عوامی سوچوں میں تبدیلی آ چکی ہے، مزید سیاسی سختی اختلافات کو جنم دے، ماضی کے واقعات سے سیکھ کر ملک کی بہتری کریں، غیر ملکی بینکوں میں پڑے اربوں ڈالر، ان کی واپسی کے بیانے اپنا وزن کھو چکے ہیں، کہاں ہیں وہ عدالتی فیصلے، جن پر وزیر اعظم کو نا اہل کیا گیا تھا۔ آج ان فیصلوں پر کوئی آواز نہیں۔