Column

پاکستانی تاریخ میں یوم تکبیر

پاکستانی تاریخ میں یوم تکبیر
تحریر : روہیل اکبر
پاکستان کی تاریخ میں یوم تکبیر ایک ایسا دن ہے جو ملک کی دفاعی صلاحیت اور خود مختاری کی علامت ہے یہ دن ہمیں 28مئی 1998ء کی یادیں تازہ کرتا ہے جب پاکستان نے کامیابی کے ساتھ بلوچستان کے چاغی کے مقام پر اپنے ایٹمی تجربات کیے ان تجربات نے پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنا دیا اس تاریخ ساز کامیابی کے پیچھے جن شخصیات کی محنت، لگن اور قربانیاں شامل ہیں ان میں سب سے نمایاں نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہے جنہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بانی بھی کہا جاتا ہے یوم تکبیر صرف ایٹمی دھماکوں کا دن نہیں بلکہ یہ پاکستانی قوم کے عزم، حوصلے اور بے پناہ قربانیوں کا مظہر ہے بھارت کے ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کو شدید بین الاقوامی دبا کا سامنا تھا کہ وہ جوابی کارروائی نہ کرے تاہم اس وقت کی حکومت نے عوامی خواہشات اور ملکی سلامتی کے پیش نظر یہ جرات مندانہ فیصلہ کیا اور چاغی کے پہاڑوں میں کامیاب ایٹمی تجربات کیے ان تجربات نے نہ صرف پاکستان کی دفاعی پوزیشن کو مضبوط کیا بلکہ خطے میں طاقت کا توازن بھی برقرار رکھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان27 اپریل ( کاغذات میں یکم اپریل1936) کو بھوپال بھارت میں پیدا ہوئے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی تو اس وقت انکے پاں میں جوتی بھی نہیں تھی اور ملک کی مٹی نے اس وقت ان کے قدم چومتے ہوئے جیسے انہیں خوش آمدید کہا پھر ڈاکٹر صاحب اپنی مٹی کا وہی قرض لوٹاتے لوٹاتے اور اپنوں کے ظلم سہتے سہتے آخر کار وطن کی مٹی میں جا سوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان محسن پاکستان تو تھے ہی ساتھ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بابائے ایٹم بھی تھے میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قربت میں وقت گزارنے کا موقع ملاانہوں نے جب تحریک تحفظ پاکستان کے نام سے سیاسی پارٹی بنائی تو مجھے سیکرٹری اطلاعات بنایا گیا پارٹی کی ممبر شپ شروع ہوئی تو ڈاکٹر صاحب کا فارم نمبر ایک تھا اور میرا 10نمبر فارم تھا یوں پارٹی کے حوالہ سے ڈاکٹر صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو پھر انکے جانے تک جاری رہا ڈاکٹر صاحب خوبصورت انسان تھے ان کے اندر وطن کی خدمت کا جتنا جذبہ تھا وہ شائد ہی کسی اور میں موجود ہو جب ملک میں لوڈ شیڈنگ عروج پر تھی تو ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ میں سستی ترین ایٹمی بجلی بنا سکتا ہوں جو عوام کو 10پیسے فی یونٹ میسر ہوگی اور لوڈ شیڈنگ بھی نہیں ہو گی اس وقت سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا صرف فیس بک تھی جس پر ہم نے خوب شور مچایا اور ڈاکٹر صاحب کا پیغام بھی پھیلایا لیکن نہ تو حکمرانوں کے کان پر جوں رینگی اور نہ ہی عوام نے اس کا کوئی اثر لیا یوں ہم آج تک مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ملک اور قوم کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے ہر وقت انکی سوچ پاکستان کے بارے میں ہی گردش میں رہتی انہوں نے جب اپنی اعلیٰ تعلیم یورپ سے مکمل کی تو پھر دھات کاری (Metallurgy)میں مہارت حاصل کی 1974ء میں بھارت کے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنا سکتا ہوں اگر مجھے موقع دیا جائے ڈاکٹر صاحب نے یہ خط پاکستان کے سفارت خانے بھیج دیا جہاں خو ش قسمتی سے اس وقت پاکستان کے سفیر میاں عبدالوحید تھے میاں وحید صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں وہ لاہور سے دو بار ایم این اے بھی رہے جب ڈاکٹر صاحب نے سیاسی پارٹی تحریک تحفظ پاکستان بنائی تو بطور سیکریٹری اطلاعات لوگوں سے رابطے اور پھر ان کی ڈاکٹر صاحب سے ملاقاتیں کرانی بھی میری ذمہ داری تھی لاہور میں ایک دیرینہ سیاسی کارکن امجد گولڈن نے میری ملاقات میاں عبدالوحید سے کرائی اور انہیں ہم نے تحریک تحفظ پاکستان میں شمولیت کی دعوت دی جب میاں صاحب کو علم ہوا کہ یہ پارٹی ڈاکٹر صاحب نے بنائی ہے تو انہوں نے بطور سفارت کار کے کچھ باتیں ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بتائی اور اس خط کا بھی ذکر کیا جو ڈاکٹر صاحب نے اس وقت حکومت کو لکھا تھا ساتھ میں یہ شرط بھی رکھی کہ ڈاکٹر صاحب ان کے گھر آئیں گے تو شمولیت کا اعلان بھی کرونگا اور خط والی تفصیل بھی بتائونگا میں نے ڈاکٹر صاحب کو میاں صاحب کے بارے میں تفصیلات بتائی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ ہماری پارٹی میں شامل ہو جائیں گے اگر آپ انکے گھر لاہور تشریف لائیں تب جسکے بعد ڈاکٹر صاحب نے لاہور آنے کا پروگرام بنالیا اور پھر ہم سب پارٹی عہدیدار میاں عبدالوحید کے گھر پہنچ گئے جہاں میاں صاحب نے پارٹی میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کیا اور ڈاکٹر صاحب کے خط والا قصہ بھی سنایا کہ جب مجھے بطور سفیر ڈاکٹر صاحب کا خط ملا تو مجھے اس میں جان محسوس ہوئی اور پھر میں نے وہ خط اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پہنچایا جس کے بعد ملک میں ایٹم بم کی بنیاد رکھی گئی میاں عبدالوحید نے یہ بھی بتایا کہ اس طرح کے بہت سے خط ہمارے پاس آتے رہتے ہیں جنہیں ہم اکثر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب کے خط میں ایک سنجیدہ تحریر تھی جو میرے دل کو لگی یہ اسی خط کا نتیجہ تھا کہ بھٹو صاحب نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا او ر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان آنے کی دعوت دی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس دعوت کو قبول کیا اور پاکستان آ کر کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز ( جو بعد میں خان ریسرچ لیبارٹریز کہلائیں) کی بنیاد رکھی ان کی قیادت میں پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئرز کی ٹیم نے دن رات ایک کر کے ایٹمی پروگرام پر کام کیا شدید بین الاقوامی پابندیوں، جاسوسی کی کوششوں اور مالی مشکلات کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور محنت سے پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی میں خود کفیل بنایا انہوں نے نہ صرف ایٹم بم بنانے کے لیے ضروری یورینیم افزودگی کی تکنیک میں مہارت حاصل کی بلکہ اس کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ بھی تیار کیا ڈاکٹر خان کی خدمات کو پاکستانی قوم نے ہمیشہ سراہا ہے اور انہیں ’’ محسن پاکستان‘‘ کا لقب د یا کیونکہ ان کی کوششوں کے بغیر پاکستان کا ایٹمی پروگرام شاید اتنی تیزی اور کامیابی سے مکمل نہ ہو پاتا آج کا یوم تکبیر ہمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کی بے مثال قربانیوں اور لگن کی یاد دلاتا ہے یہ دن اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ایک قوم اگر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے متحد ہو جائے تو کوئی بھی رکاوٹ اسے روک نہیں سکتی ایٹمی طاقت بننے کے بعد پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ملک کو بیرونی جارحیت سے تحفظ حاصل ہوا یوم تکبیر پاکستان کی خود مختاری، سالمیت اور دفاعی عزم کا دن ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات 10اکتوبر 2021ء کو ہوئی لیکن ان کی خدمات ہمیشہ پاکستانی قوم کے دلوں میں زندہ رہیں گی یوم تکبیر کا ہر سالانہ جشن ہمیں ان عظیم شخصیات کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں، ساتھ میں اس شخص کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جس نے اس تاریخی دن کا نام یوم تکبیر رکھا، مجتبی رفیق کراچی میں اس وقت بچہ تھا، لیکن اب نوجوانی کی عمر سے آگے قدم بڑھا چکا ہے، ان سے کیے ہوئے وعدے آج تک وعدے ہی ہیں، جب دھماکے کیے گئے تھے، اس وقت بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور اب بھی مسلم لیگ ن ہی برسراقتدار ہے، یوم تکیبر نام رکھنے سے لیکر آج تک مجتبی رفیق بے روز گار ہے۔

جواب دیں

Back to top button