پاک، افغان کشیدگی: سرحدوں کی نہیں، انسانیت کی کہانی
تحریر : قادرخان یوسف زئی
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی کہانی ایک ایسی تلخی سے بھری ہے جس میں خوشیوں کا ذکر کم اور دکھوں کا حوالہ زیادہ ملتا ہے۔ یہ صرف سفارتی رشتوں کا معاملہ نہیں، بلکہ انسانی زندگیوں کا المیہ بھی ہے جو سرحدوں کے اُس پار بھی اتنا ہی گہرا ہے جتنا اِس طرف۔ تاریخ کے صفحات میں ان تعلقات کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے صرف معاہدات اور سیاست کافی نہیں، بلکہ جذبات، درد، اور امید کو بھی شامل کرنا ناگزیر ہے۔یہ کہے بغیر کہ ریاستوں کے تعلقات اکثر غیر مستحکم ہوتے ہیں، حقیقتاً یہ ایک المیہ یا المیوں کا سلسلہ معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے تعلقات جو تاریخی بیانیے کی گواہی دیتے ہیں، ان میں جذبات، سرحدیں، معاہدے اور مذاکرات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تعلق محض زمینی حدود کا نہیں بلکہ ان لوگوں کی عکاسی کرتا ہے جن کی زندگیوں کو ان تعلقات میں سیاست اور سماج کے فائدے کے لیے جدوجہد کا نشان بنایا گیا ہے۔
افغانستان نے نئے وجود میں آنے والی مملکت پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی رکنیت دینے کی مخالفت کی تھی، 1947ء میں جب پاکستان نے جنم لیا، تو افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو آج بھی دونوں ممالک کے تعلقات پر اثرانداز ہوتا ہے۔ سرحدیں جو صرف زمین کے ٹکڑے نہیں بلکہ انسانوں کی تقدیر کو تقسیم کرنے والی لکیر ہیں، ان کے درمیان بستے لوگ کبھی ہمسایہ تھے، کبھی دوست اور کبھی دشمن۔ لیکن کیا ان سرحدوں کے اس پار انسانی المیوں کو کبھی سمجھا گیا؟ یہ ایک کٹی ہوئی شروعات کی علامت ہے۔ یہ تسلیم کرنا تکلیف دہ ہے کہ 2600کلومیٹر طویل سرحد محض کاغذ پر ایک لکیر یا زمین پر کھینچی گئی حد نہیں بلکہ ایک مصصم حقیقت ہے اس امر کو تسلیم کرنا ہوگا ، یہ درست ہے کہ یہ ان دو قوموں کے درمیان تقسیم ہے جو کبھی قریبی دوست یا کم از کم پڑوسی تھے، مگر اب سیاسی مفادات کی بنا پر تنازعات کا شکار ہیں۔ ان تنازعات سے کو فائدہ اٹھا کر اپنی فروعی مفادات کو فروغ دے رہا ہے ، یہ امر بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے ، اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر ملک اپنی آزادی کی قیمت رکھتا ہے اور کسی بھی ملک کو اس کی قدر کرنا ہوگی۔
جب دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سرحدی باڑ لگانے کا فیصلہ کیا گیا تو پاکستان میں کئی لوگوں کے لیے باعثِ اطمینان تھا، مگر افغانستان میں اس نے شکایات اور دشمنی کا ایک نیا طوفان کھڑا کر دیا۔ یہ باڑ صرف ایک سیکیورٹی اقدام نہیں بلکہ ان مسائل کی علامت ہے جنہیں دونوں ممالک نے باہمی ترقی اور خوشحالی کے لیے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بد قسمتی سے افغان طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ان تنازعات نے نئی شکلیں اختیار کر لی ہیں۔ ہر حملہ اور اس کا جواب نہ صرف د تشویش ناک ہے بلکہ بے اعتمادی اور بے حرمتی کی بنیاد پر تعلقات کو مزید خراب کرتا ہے۔ کیا یہ دو ہمسایہ ممالک کے درمیان کسی اچھی روایت کی عکاسی کرتی ہے تو اس کا جواب یقیناََ نہیں ملے گا کیونکہ اس سے دونوں ممالک کے عوام کو براہ راست نقصان ہے ۔
سب سے پریشان کن مسئلہ مہاجرین کا ہے، جو دونوں ممالک کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہے۔ کبھی پاکستان معاہدے کے مطابق انہیں ملک بدر کرنے کی بات کرتا ہے اور کبھی افغان حکومت کی درخواستوں اور انسانی ہمدردی کی اپیلوں پر انہیں سماجی سہولیات فراہم کرتا ہے، مگر یہ مہاجرین تشدد، بے روزگاری اور عدم تحفظ کے دائروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ مشترکہ بوجھ نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی لاگت کو بھی بڑھاتا ہے، جو لوگوں کی روزمرہ زندگیوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ پاکستان کے لئے یہ اہم مسئلہ امن و امان او افغان حکومت کے رویئے سے جڑا ہوا ہے ، ان کی تلخی اور بد گمانیوں کے اثرات سے مہاجرین بلواسطہ متاثر ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا ایک ایسا میدان بن چکا ہے جہاں شدت پسند تنظیمیں منفی جذبات اور جھوٹی خبریں پھیلاتی ہیں۔ یہ قسم کی جہادیت جغرافیائی حدود سے ماورا ہو کر انسانی ذہنوں کو نشانہ بناتی ہے اور قوموں کے درمیان نفرت کو ہوا دیتی ہے۔ دنیا بھر کے نیٹ ورکس کے ذریعے امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے والے اس پروپیگنڈے کے اثرات انتہائی مہلک ہیں۔ یہ پیغامات مسلسل معاشرے میں پھیلائے جا رہے ہیں ۔ دنیا کو مثبت تبدیلی کے پیغامات کی ضرورت ہے، طاقت کے نہیں۔ سوشل میڈیا، جو ایک دور میں عوام کی آواز تھا، آج نفرت اور انتہا پسندی کا میدان بن چکا ہے۔ دہشت گردی کا یہ نیا ہتھیار سرحدوں کو نہیں بلکہ دلوں کو زخمی کرتا ہے۔ یہ وہ پروپیگنڈا ہے جو دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے سے دور کر رہا ہے۔ اس نفرت کے بیج نے وہ درخت اگایا ہے جس کا پھل حکومتوں کے لیے بھی زہر ثابت ہو رہا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ گولیوں اور میزائلوں سے نہیں جیتی جا سکتی بلکہ منطق، انصاف اور رحم دلی سے جیتی جا سکتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کے تاریخی اور جغرافیائی تعلقات ہیں اور یہ لوگ خوف اور نفرت کی دیواریں توڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سرحدوں کو صرف جغرافیائی تقسیم کے طور پر نہیں بلکہ ان جگہوں کے طور پر سمجھا جانا چاہیے جہاں تبدیلی اور رابطے کے مواقع موجود ہوں۔ ان مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریقین دکھ اور تکلیف کو تسلیم کریں اور ایک دوسرے کے درد کو سمجھتے ہوئے ایک پرامن مستقبل کا خاکہ تیار کریں۔ اس جدوجہد کے بچوں کے لیے کسی کو سننے اور ان کی پرواہ کرنے والا چاہیے۔ اب وقت ہے کہ دونوں ممالک تمام غیر تعمیری رنجشوں کو پیچھے چھوڑ کر تعلقات میں بہتری کے لیے قدم بڑھائیں۔
پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان محبت، تاریخ، اور جغرافیہ کا رشتہ ہے۔ ان سرحدوں کو صرف جغرافیائی نہیں، بلکہ انسانی بنیادوں پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ تعلقات بہتر تب ہوں گے جب دونوں ممالک ایک دوسرے کے درد کو سمجھیں، احترام کریں، اور نفرت کے بجائے دوستی کی راہ اپنائیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ دہائیوں پرانی کشمکش کس کے فائدے کے لیے ہے؟ عام انسان، جو اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے، آخر کب تک ان سیاسی بساطوں کی قیمت چکائے گا؟ شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے سیاسی تختوں سے اتر کر انسانیت کی فریاد سنیں اور امن کو موقع دیں۔ کیونکہ اگر امن ایک خواب ہے تو یہ خواب بھی دیکھنا اور اسے حقیقت بنانا ہمارا فرض ہے۔ اور اس حقیقت کو کوئی بھی فراموش نہیں کر سکتا ، دونوں ممالک کی عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دیں ہیں ، انہیں اس کا ثمر ملنا چاہیے ۔