ColumnTajamul Hussain Hashmi

نئے سال میں ’’ اڑان پاکستان ‘‘

تحریر : تجمّل حسین ہاشمی
رائو رشید کی کتاب کا عنوان ’’ جو میں نے دیکھا ‘‘ کو دیکھ کر آرڈر کیا، ایسا لگا کہ اس کتاب میں تاریخی معلومات ہوں گی۔ وہ لکھتے ہیں کہ 1970ء کی بات ہے جب مجیب الرحمان لندن آئے۔ اس وقت ملک میں الیکشن نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی وہ اکثریتی پارٹی کے لیڈر تھے، لیکن برطانیہ حکومت نے مجیب الرحمان کو ایسا پروٹوکول دیا کہ لگ رہا تھا جیسے وہ سربراہ مملکت ہوں ۔ وہاں کے فارن آفس نے ان کو خوش آمدید کیا اور فارن آفس کی کار ہوٹل تک چھوڑ کر آئی ۔ ایسا لگتا تھا کہ آئندہ کا لیڈر مجیب الرحمان ہی ہو گا یا تو بنگلا دیس کا صدر یا پھر وزیر اعظم ہو گا۔ برطانیہ میں بنگالیوں میں بڑا جوش خروش تھا۔ بنگالیوں میں بڑی انسانیت پائی جاتی ہے۔ ہمارے لیڈر تو کمرے کے باہر بندے کھڑا کرتے ہیں کہ کوئی اجازت کے بغیر اندر داخل نہ ہو سکے۔ پروٹوکول کے شوقین ہیں۔ اس شوق نے ملکی خزانہ خالی کر دیا ہے لیکن مجیب الرحمان کے ہوٹل میں کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ ہمارے ہاں طبقاتی تفریق بہت زیادہ ہے، لیکن بنگالیوں میں ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ جس ہوٹل میں مجیب الرحمان ٹھہرا تھا اس میں دو کمرے تھے، جو صبح سویرے بھرنا شروع ہو جاتے تھے۔ رائو رشید لکھتے ہیں کہ ایک انگریز نے مجھ سے پوچھا کہ مجیب الرحمان پڑھتا کب ہے۔ جس بندے کو ملک کا سربراہ بنانا ہو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ معیشت، سیاسیات اور بین الاقوامی معاملات کے رجحانات پر گہری نگاہ رکھنے والا ہو۔ ان کو سٹڈی کرے، دوسرے ممالک کے ساتھ کیسے تعلقات کو آگے بڑھنا ہے۔ کامیاب لیڈر کو تاریخ کا علم ہونا چاہئے۔ رائو رشید کا کہنا تھا میں نے انگریز کو کہا کہ مجیب الرحمان کے پاس وقت نہیں کہ وہ اخبار بھی پڑھ سکے۔ انگریز کہنے لگا کہ پھر وہ علم کہاں سے حاصل کرتا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ جو لوگ اس کے آس پاس باتیں کرتے ہیں وہیں سے علم اس کو حاصل ہے ۔
یہ 1970ء کی باتیں ہیں، جب بھٹو اور مجیب الرحمان کا آپس میں تنائو تھا اور جنرل یحییٰ اس وقت بادشاہ بنا تھا۔ دنیا اس کو مجبوری سے بنا ڈکٹیٹر سمجھتی تھی۔ ماضی تو ہمارے ہاں ابھی تک ویسا ہی ہے، وہی طرز سیاست ہے ۔ ہمارے ہاں سیاست کیلئے تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ خان کا لاڈلا عثمان بزدار جیسا خوش نصیب کوئی نہیں ہو سکتا ۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ اپنے سامنے رکھی ہوئی فائل مدد کے بغیر نہیں پڑھ سکتا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئی پاکستان تحریک انصاف کے پاس جہانگیر ، فواد چودھری، علیم خان، قریشی جیسے کئی قابل اور تعلیم یافتہ افراد موجود تھے۔ جو صوبے کے معاملات کو بہتر چلا سکتے تھے۔ شاید آج ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی لیکن ہماری قوم کی قسمت ہی ایسی ہے۔ مشرف دور میں انتخابات میں حصہ لینے کیلئے گریجویٹ کی شرط کو ضروری قرار دیا گیا تھا ۔ اس آرڈر کے بعد کئی سیاست دانوں کی حالت غیر تھی۔ جعلی ڈگریاں منظر عام ہوئی۔ انگریز کا سوال انتہائی قیمتی تھا۔ ہماری سیاست میں انا پرستی اپنے عروج پر ہے۔ لیڈر ابھی تک ذاتی مفادات، سیاسی مقدمات سے باہر نہیں نکل سکے۔ جمہوری یا آمریت کے ادوار میں عوام اپنے حقوق سے محروم رہے۔ اس وقت طوفان بدتمیزی معاشرتی، اخلاقی قدروں پامال ہو چکی ہیں۔ پہلے پی ٹی آئی والے نے ات مچا رکھی تھی اور اب مسلم لیگ ن والوں نے اخیر کر دی ہے۔ الزامات کی سیاست اپنے عروج پر ہے۔ جمہوری حکومت کا کہیں کنٹرول نظر نہیں آ رہا۔ سرکاری منصوبوں میں اربوں روپے کمیشن لیا جاتا رہا۔ کرپشن سکینڈل کی فائلیں بند پڑی ہیں۔ گزشتہ تین روز سے سارا کراچی بند ہے اور حکومتیں خاموش ہیں۔ جس کا دل چاہتا ہے ملک بند کر دیتا ہے۔ ایسا طرز عمل کیوں پایا جا رہا ہے۔ اس کی ایک ہی بنیادی وجہ ہے کہ ملک میں وہ 5فیصد لوگ ہیں جن کے متعلق وزیر خزانہ کہ چکے ہیں، جو ملکی معیشت کو نقصان دے رہے ہیں۔ اربوں ڈالر قوم کے چوری کر کے ایسے گروپس کی پرورش کر رہے ہیں جو ریاست سرعام چیلنج کر رہے ہیں۔ حکومت بلند بالا پلاننگ کر رہی ہے۔ رواں سال کے آخری روز وزیر اعظم شہباز شریف یعنی 31دسمبر کو اڑان پاکستان پروگرام کا اعلان کریں گے۔ وزیر منصوبہ بندی کے مطابق 5سال کا قومی اقتصادی پلان 2024سے 2029تک محیط بنایا گیا ہے ۔ اڑان پاکستان کے ذریعے 2035تک 1000ارب ڈالر معیشت کی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ یقینا حکومت کو ایسے فیصلے کرنے چاہئیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم ملکی سیاسی صورتحال ہے، آئی ٹی سیکٹر کی گروتھ پر حکومت کافی منحصر ہے، لیکن انٹر نیٹ کی بندش کے بعد کیسے ترقی ممکن ہو گی۔ ملکی معیشت سیاسی جماعتوں کی آ پس کی لڑائیوں کی وجہ سے خراب ہے۔ سیاسی جماعتیں اداروں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنا بند کریں۔ تخت کے حصول میں خرید و فروخت بند کریں، اداروں کے استعمال کو روکا جائے۔ اداروں کو ذاتی ملکیت مت سمجھیں۔ جو بھی حکومت کا حصہ بنا اس نے اپنے لیے تا حیات مراعات، میڈیکل اور سرکاری دوروں پر خزانہ کو استعمال کیا۔ جمہوریت کی بات کرنے والے جمہوریت کو پامال کرتے ہیں اور عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے چلاتے رہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایسے بیانیے لے کر عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش میں رہیں۔ کیا ایسے طرز سیاست سے وہ ہدف پورے ہو سکیں گے جن کی پلاننگ منصوبہ بندی وزیر کر رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button