سپیشل رپورٹ

غزہ میں کیمیائی ہتھیار کا استعمال، برطانوی سرجن نے گواہی کے لیے خود کو پیش کر دیا

غزہ میں صہیونی فورسز کی جانب سے کیمیائی ہتھیار کے استعمال پر برطانوی سرجن نے گواہی کے لیے خود کو پیش کر دیا ہے۔

الجزیرہ کے مطابق غزہ کے اسپتالوں میں کام کرنے والے ایک 54 سالہ برطانوی فلسطینی ڈاکٹر غسان ابو ستۃ نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسرائیلی حکام کے جنگی جرائم کے خلاف ان کی گواہی کو عالمی عدالت انصاف میں قانونی چارہ جوئی کے لیے استعمال کیا جائے۔

ڈاکٹر غسان ابو ستۃ ایک پلاسٹک سرجن ہیں جو جنگوں میں زخمی ہونے والے لوگوں کی سرجری میں مہارت رکھتے ہیں، انھوں نے محصور فلسطینی علاقے غزہ میں رضاکارانہ طور پر 43 دن گزارے، غسان نے زیادہ تر شمال میں الاحلی اور الشفا اسپتال میں خدمات انجام دیں۔

غسان ابو ستۃ نے برطانیہ کی سب سے بڑی پولیس فورس کو ان زخموں کے حوالے سے گواہی دے دی ہے جو انھوں نے غزہ کے اسپتالوں میں دیکھے، اور ان استعمال شدہ ہتھیاروں سے متعلق بھی جو مبینہ جنگی جرائم کی بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کی تحقیقات کے لیے جمع کیے جا رہے ہیں۔

ابو ستۃ اپنی اس بات پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں کہ انھوں نے غزہ کے اسپتالوں میں سفید فاسفورس سے جلے زخموں کا علاج کیا ہے، یہ ایک ایسا کیمیائی ہتھیار ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت ممنوع ہے۔ انھوں نے اے ایف پی کو بتایا ’’سفید فاسفورس سے بننے والا زخم ایک خاص طرح کا ہوتا ہے، فاسفورس جسم کے انتہائی گہرے حصے تک جلتا رہتا ہے، یہاں تک کے ہڈی تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘

انھوں نے درمندی کے ساتھ کہا کہ ان مظلوموں کے ساتھ ضرور انصاف ہوگا، چاہے اس میں پانچ سال لگ جائیں یا دس سال، دنیا میں طاقت کا توازن آخر کار فلسطینیوں کو انصاف دینے کی اجازت دے دے گا۔

واضح رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی دعویٰ کر دیا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے غزہ میں شہری آباد پر سفید فاسفورس کے بم استعمال کیے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سینیئر کرائسس ایڈوائزر ڈوناٹیلا رویرا نے کہا کہ ایسی مصدقہ تصاویر اور ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے غزہ میں وائٹ فاسفورس کے بم استعمال کیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button