ColumnTajamul Hussain Hashmi

مذہب کی آڑ لے کر شر پسندی کی خُو

تجمل حسین ہاشمی
87سال کا فرق ہے مگر مذہب کی آڑ لے کر شرپسندی کی خُو نہیں بدلی، برصغیر میں عید میلاد کے جلوسوں کی ابتدا کیسے ہوئی؟ جب 1926ء میں سکھوں کے جلوس پر فساد ہوا تو اس کا حل انگریز افسروں نے یہ نکالا کہ انہوں نے مسلمان اکابرین کو آفر کی کہ وہ بھی اس کے مقابلے پر اپنا کوئی مذہبی جلوس نکال لیا کریں چنانچہ مسلمانوں نے اس تجویز کو معقول خیال کرتے ہوئے قبول کرلیا۔ اگلے برس عید ملاد کے موقع پر زبردست جوش و خروش سے جلوس نکالا گیا، یہ جلوس اس شان سے نکالا کہ دشمنان اسلام کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ اس سے پہلے عید ملاد کے موقع پر صرف نذر نیاز اور میلاد شریف کی محفلوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ عوام الناس میں یہ دن’’12وفات‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اس دن کو منانے کیلئے وسیع اجتماعات ہونے لگے، جن میں سیرت النبیؐ سے زیادہ سیاسی اور ملکی مسائل بیان کئے جاتے رہے۔ یہ 1927ء کی بات ہے، اس عظیم الشان جلوس کی ابتدا ایک تاریخی حادثے سے زیادہ نہیں ہے۔ حالات نے اسے پروان چڑھایا۔ راولپنڈی شہر میں ہندو، سکھ اور مسلمان تین بڑی قومیں آباد تھیں، ہندوئوں اور سکھوں کی دفتروں میں عملداری تھی اور منڈیوں پر بھی وہی قابض تھے، ان کی معاشی بالادستی مسلمانوں پر حکمرانی کر رہی تھی، ان کی عبادت گاہوں سے گزر و گجروں، گڑیال اور گھنٹوں کی صدائیں، ناقوس کے نالے گھنگروں کے چھناکے اور طبلوں کی دھمک ابھرتی اور فضا میں دور دور تک پھیل جایا کرتی۔ یہ کیفیت محض مندروں اور گورودواروں کی چاردیواریوں تک محدود نہ تھی بلکہ سال میں کئی کئی بار نگر کیرتن ہوتے جن میں گلی گلی راگی بھجن گاتے پھرتے، شہر کی فرقہ ورانہ تلخی کا موجب ہندو سکھوں کے یہی کیرتن تھے۔ جامعہ مسجد کے سامنے سے گانے بجاتے نکلنا مسلمانوں کے صبر و سکون کو للکارنے کے مترادف سمجھا گیا۔ رفتہ رفتہ تلخیوں میں تیزی آتی گئی اور باہمی نفرت کی خلیج اتنی وسیع ہوئی کہ جون 1926ء کی ایک قیامت بدوش رات شہر میں قتل و غارت اور آتش زنی کی مہیب وارداتوں کو اپنے جلو میں لے کر آگئی۔ محض ایک رات کا کھیل تھا، اس المیہ کے بعد جس میں مسلمانوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑا، ضلع کے اعلیٰ فرنگی حکام نے میزان کو دونوں پلڑوں کو ہم وزن کرنے کیلئے شہر کے مقتدر مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ نگر کیرتن کے مقابلے کوئی جلوس مقرر کریں، یہ تجویز معقول تھی اور وقت کا تقاضا بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ چنانچہ اگلے برس عید میلاد کا جلوس نکالا اور اس شان سے نکالا کہ دشمنوں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ جلوس کے حوالے سے بعض حلقوں سے جلوس کیخلاف صدائیں بلند ہوئیں۔ مولانا ظفر علی خان نے زمیندار اخبار میں اداریہ لکھا کہ یہ سراسر بدعت ہے اور مذہب کو لہو و لعب میں بدلنے کی شعوری کوشش ہے۔ اس کے جواب میں عقیدے والے مسلمان کہتے ہیں کہ ’’ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ جب نیت میں میلاد النبی ؐ کی تقریب سعید پر اظہار مسرت مقصود ہے تو لہو و لعب کیسے ہوا اور نعت خوانی بدعت کیوں ہونے لگی؟ راولپنڈی کو یہ فخر حاصل ہے کہ جلوس کی ابتدا اسی شہر سے ہوئی تھی۔ محمد عارف، جوکہ منشی جان کے منشی رہے تھے، وہ لکھتے ہیں کہ راولپنڈی کے فسادات سے پہلے برصغیر میں میلاد کے جلوس نہیں نکلتے تھے، جب ڈپٹی کمشنر نے جامعہ مسجد کے فسادات پر کشیدگی کم کرنے کیلئے ہندو، سکھ اور مسلمان رہنمائوں کا اجلاس بلایا تو وہاں فیصلہ ہوا کہ جس طرح ہندو اور سکھ اپنے اپنے تہواروں کو منانے کی غرض سے مسجد کے سامنے سے گزرتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی جلوس نکالیں اور ہندوئوں اور سکھوں کے مندروں اور گورودواروں کے سامنے سے گزریں، لہٰذا اس فیصلے کے بعد 1927ء کی 12ربیع الاول کو عید میلاد کا پہلا جلوس راولپنڈی میں نکالا گیا، جس میں پورے پنجاب سے 10لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد یہ روایت پورے برصغیر میں شروع ہوگئی تاہم اس حوالے سے بعض مورخین یہ تسلیم نہیں کرتے کہ میلاد کا پہلا جلوس راولپنڈی سے نکالا گیا تھا بلکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ روایت پہلے سے مختلف شہروں میں موجود تھی۔ تاہم راولپنڈی کے واقعے کی وجہ سے عید میلاد کے تہوار کو ایک خاص اہمیت مل گئی تھی۔ 1926ء کے فسادات کی راکھ کی چنگاریاں 1947ء کی تقسیم کے وقت دیکھی گئیں۔ مذہب کی بنیاد پر سرحدوں کو الگ کیا گیا تھا، آج ہم فرقہ کی بنیاد پر محلے اور شہر بدل رہے ہیں۔ 1926ء کے بعد 2013 ء آیا، علاقہ وہی ہے جہاں پر 1926ء میں مذہبی فسادات ہوئے تھے مگر اس بار یہ فسادات مذہبی کی بجائے مسلکی بنیادوں پر ہوئے۔ محرم الحرام کا جلوس راجہ بازار میں ایک مسجد کے سامنے سے گزر رہا تھا، مسجد میں نماز جمعہ کا خطبہ جاری تھا، اسی دوران کہا گیا کہ مسجد کی چھت سے جلوس کے شرکاء پر سنگ باری ہوئی جو بعد ازاں فرقہ وارانہ فسادات میں بدل گئی، اس بار بھی دکانوں کو آگ لگی، مارکیٹیں نذر آتش ہوئیں، 10افراد جاں بحق 90سے زائد زخمی ہوئے۔ 2013ء میں راولپنڈی میں فرقہ وارانہ فسادات کی سازش تو بے نقاب کردی گئی، ملزم بھی پکڑے گئے مگر فرقہ واریت کا زہر اسی طرح گلی گلی پھیلا ہوا ہے۔
کتاب راول راج سے لیا گیا اقتباس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button