ColumnTajamul Hussain Hashmi

موسمی دعوے

تجمل حسین ہاشمی
وہ میرے دفتر آیا، ٹیبل پر اخبار دیکھ کر مسکرا کر کہنے لگا واہ کیا بات ہے اخبار پڑھا جا رہا ہے۔ اس کے انداز میں بڑی حیرانگی تھی۔ میں نے کہا اس میں حیرانگی والی کیا بات ہے۔ اخبار تو معلومات کا خزانہ ہے، وہ بیٹھ گیا کہنے لگا چائے پلائو ، میں نے چائے کا آرڈر کیا اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔ کہنے لگا آپ کو معلوم ہے میں گزشتہ کئی سالوں سے گھروں میں اخبار ڈالتا رہا ہوں حقیقت یہ ہے اب تو کوئی اخبار نہیں مانگتا ما سوائے ان دیوانوں کے جن کو اخبار، کتاب ابھی بھی پڑھنے کا شوق ہے جبکہ ساری دنیا موبائل میں سما گئی ہے۔ وہ بھی وقت تھا جب لوگ صبح دفتر جانے کے لیے بس کے انتظار میں کھڑے، چوک کے سٹال پر اخبار پڑھتے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ اب تو کوئی ہمارا حال تک نہیں پوچھتا کہ کیسی گزر رہی ہے؟۔ گزشتہ دنوں کراچی ایکسپو سینٹر میں کتابوں کی نمائش تھی۔ دو لاکھ سے زیادہ لوگوں نے نمائشی میلے میں شرکت کی، ایسی کتابی سرگرمیاں سال میں ایک بار نہیں دو بار ہونی چاہئیں، کتابی میلے کے آرگنائزر و حکومت اس پر تھوڑی توجہ دیں تو یقینا مزید بہتر ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں نمائش کا انعقاد سکولوں، کالجز، یونیورسٹیز کی سالانہ چھٹیوں کے دوران ہونا چاہئے، اور نمائش میں چھوٹے بچوں کے لیے بھی تعلیمی سرگرمیاں ہونی چاہئیں۔ نمائشوں کا اہتمام خاص کر سکولوں ، کالجز اور یونیورسٹیز کے بچوں کے تعلیم سال کے اختتام پر ہونا چاہئے، میرا خیال ہے کہ کتابوں کی نمائش کا وقت تبدیل ہونا چاہئے، حکومت وقت سے گزارش ہے کہ پیپر پر امپورٹ ڈیوٹی ختم ہونی چاہئے، تاکہ مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ کتابیں پبلش ہوں اور والدین کو سلیبس کی سستی کتابیں مل سکیں۔ جہاں پاکستان نیوز پیپر کے رپورٹر کے مطابق 500روپے والی کتاب کی قیمت 2500روپے تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے حالات میں کتاب خریدنا آسان نہیں رہا۔ مہنگائی کا اثر تعلیم پر بہت کم پڑنا چاہئے اس کے لیے حکومتوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے، تعلیم کو فلاحی منصوبوں میں شمار کیا جانا چاہئے، ہمارے ہاں تعلیم پیسہ بنانے کا بہترین شعبہ ہے، جہاں قانون نظر نہیں آتا، سینئر صحافی رئوف کلاسرا نے غیر ملکی کتابوں کی امپورٹ کے بند ہونے کے حوالے سے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی توجہ مبذول کرائی۔ جس پر نگران وزیر اعظم نے مثبت جواب دیا جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو بھی کتابوں سے کافی لگن ہے، جناب نگران وزیر اعظم صاحب اگر کاغذ پر امپورٹ ڈیوٹی ختم کر دیں تو یقینا سستی کتابیں، بچوں کے سلیبس عام افراد کی دسترس میں ہوں گے، کاروباری حضرات نے اپنے سکولوں کی کئی کئی برانچز بنا رکھی ہیں جہاں بچوں کی کتابوں سے لے کر جرابوں تک کا کاروبار جاری ہے، اپنے لوگو بنا لیے ہیں، پہلے ایک رجسٹر پر ساری کتابوں کا کام کیا جاتا تھا۔ اپنی مرضی پر قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ کوئی انکم ٹیکس جمع نہیں کراتے۔ تعلیم نظام میں اصطلاحات کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیم کے حصول کو سستا کیا جائے، تعلیم عام آدمی کی پہنچ میں اس وقت ہو گی جب اس سے جوڑے تمام معاملات سستے ہوں تاکہ غریب کی پہنچ میں ہوں، حکومت 1.074ٹریلین روپے عوام کی سہولت کے لیے سبسڈی دے رہی ہے۔ ای سی سی نے بھی 57بلین کے الیکٹرک کو ایڈوانس میں سبسڈی دی ہے۔ ایسی سہولت صرف تین سیکٹرز کو مل رہی ہے جس میں انرجی، زراعت اور انڈسٹری شامل ہے۔ جس میں ہر سال کرپشن کے سکینڈل منظر عام ہیں، پاکستان میں اس وقت 63فیصد نوجوان جن کی عمر 30سال سے کم ہے ، تعلیم کے حصول یا روزگار کے لیے گھر بیٹھے ہیں۔ حکومت وقت پرائمری، سکینڈری اور ہائی سکولوں کو سبسڈی دے اور ٹیکنیکل تعلیم کو لازمی قرار دے، حکومت تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے چند فیصلے لازم قرار دے، سب سے پہلے ملک میں قائم تمام تعلیمی اداروں کو بجلی کے بلوں اور کتابوں پر 70فیصد تک سبسڈی دیں، اگر کوئی فرد یا فلاحی ادارہ ٹیکنیکل تعلیمی ادارہ کھولنا چاہتا ہے تو اس کو سرکاری سپورٹ دینی چاہئے، اس وقت نصاب میں تبدیلی انتہائی ضروری ہے، ملک بھر میں ایک تعلیم نظام کے لیے سابقہ وزیر اعظم عمران خان نے اقدام کئے لیکن مکمل عمل درآمد نہ ہوا۔ کتابوں کی تعداد کو کم کریں اور ان کی جگہ پریکٹیکل اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کو لازمی قرار دیں جیسا کہ حکومت کی طرف سے نوجوانوں کو فری کورسز کرائے جا رہے ہیں جو کہ ایک بہترین اقدام ہے، مسلم لیگ ن کے دور میں لیپ ٹاپ سکیم متعارف کرائی گئی تھی۔ حکومت کو انکم سپورٹ پروگرام اور یوٹیلیٹی سٹورز کو دی جانے والی سبسڈی کو کم کر کے تعلیمی اداروں کو کتابوں، بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور بجلی کی مد میں سبسڈی دینی چاہئے، یہ مراعات بچوں کے بے فارم اور نادرا کی تھم ویریفکیشن سے مشروط ہونی چاہئے تاکہ کسی قسم کی کرپشن نہ کی جا سکے ۔ کیوں ملک میں مافیا بہت طاقتور ہے، کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، تعلیم کے لیے سبسڈی بچوں کی حاضری سے جوڑ دیں تاکہ نظام میں شفافیت قائم رہے، ہمارے ہاں مافیا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ، پینے کے صاف پانی پر بھی کرپشن جاری ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ سندھ نے تھر میں 555آر او پلانٹ بند ہونے پر کمپنی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا، سخت کارروائی پر کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو گا، سالوں سال کیس چلتے ہیں، احتساب کے نام پر ادارے میں اربوں روپے کے فنڈ استعمال کئے جاتے ہیں لیکن نتیجہ صفر جو سب کے سامنے ہے۔ تمام مقدمات کو سیاسی کہہ کر سیاست کی نذر کر دیا جاتا ہے، لیکن اربوں روپے کا نقصان قوم کو معاشی غلام بنا چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button