ColumnTajamul Hussain Hashmi

آٹھ فروری 2024کا نوجوان ووٹر

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق 11ستمبر 2023تک رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12کروڑ 75لاکھ 87ہے، الیکشن 2018کے مقابلے میں 2024کو ہونیوالے عام انتخابات میں کتنے ووٹرز کا اضافہ ہوا اس حوالہ سے ابھی تک الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا، لیکن موجودہ ڈیٹا کے مطابق 18سے 35سال عمر کے ووٹرز، جن کو نوجوان کہیں گے ، ان کی شرح 44فیصد ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک نئی فرسٹ تیار کی جا رہی ہے جس سے معلوم ہوسکے گا کہ مزید کتنے ووٹرز میں اضافہ ہوا ہے۔ الیکشن 2018میں تمام پارٹیوں کی طرف سے جاری ٹکٹ کے ڈیٹا کے مطابق نوجوان کو زیادہ ٹکٹ پاکستان تحریک لبیک کی طرف سے جاری ہوئے تھے، جس کی شرح 36فیصد تھی۔ نوجوان کی فیورٹ سمجھی جانے والی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے صرف 17فیصد نوجوانوں کو ٹکٹ جاری کئے، جو اپنے بیانیہ سے دور کھڑی نوجوان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے۔ آج وہ غریب ووٹر اور سپورٹر مشکلات میں گھرا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی 17فیصد اور مسلم لیگ (ن) نے سب سے کم 13فیصد ٹکٹ نوجوانوں کو جاری کئے۔ نوجوان کو ٹکٹ دینے کی حکمت عملی پر اس وقت تمام سیاسی جماعتیں فوکس کر رہی ہیں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی بابوں کو آرام کرنے کا مشورہ دے رہے تھے، مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کا خیال تھا کہ میاں نوازشریف واپس آکر مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز اور نوجوانوں میں نئی روح پھونک کر ایک ایسا انتخابی ماحول بناکر ثابت کر دیں گے کہ مسلم لیگ (ن) ہی ملک کی سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے، اس قدر درست ثابت نہیں ہوا۔ میاں نواز شریف نوجوان کو بھول کر الیکٹیبلز اور سیاسی جماعتوں سے ایڈجسٹمنٹ میں لگ چکے ہیں، اس لئے کئی خدشات و سوالات نے
جنم لیا ہے۔ (ن) لیگ کو پنجاب میں کافی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ (ن) لیگ کے رہنما احسن اقبال اور دانیال عزیز میں جملوں کا تبادلہ ٹکٹ دینے کے حوالہ سے ہی شروع ہوا، بیان بازی پر دانیال عزیز کو (ن) لیگ کی طرف سے نوٹس بھی جاری کیا گیا، ان3721557نوجوان ووٹرز سے زیادہ خوف زدہ اس وقت مسلم لیگ (ن) دکھائی دیتی ہے، آٹھ فروری 2024کو اگر نوجوان نے گھر سے نکل کر اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کی ٹھان لی تو یقینا پاکستان میں بہت بڑی تبدیلی نظر آئے گی، ماضی کے آٹھ انتخابات میں نوجوان ووٹر کی شرح بہت کم دیکھی گئی جو گھر سے باہر نکل کر ووٹ کاسٹ نہیں کرتا۔ اس دفعہ صورت حال کافی مختلف نظر آرہی ہے، مہنگائی، بیروزگاری اور میرٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان نسل جمہوری سیاست سے مطمئن نہیں ہے۔ سیاست دانوں کے بلنڈرز اور اداروں کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ نے پورے نظام پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ اس وقت جب الیکشن سر پر ہوں اور سیاسی قائدین کو عوامی دبائو کا سامنا ہو تو ایسی رپورٹ کا پبلش ہونا سیاسی پارٹیوں کیلئے اچھا شگون نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا انتخابات سے پہلی چھوٹی بڑی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے ایسا تاثر پیدا ہوا ہے کہ میاں نوازشریف ہی منتخب ہوں گے، اب یہ تاثر (ن) لیگ کو تنگ کر رہا ہے۔ (ن) لیگ کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بکنے والا نہیں ہے، یہ
حقیقت 25کروڑ عوام پر آشکار ہوگئی ہے کہ سب ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے بیانیہ بنایا جاتا ہے۔ ادھر 9مئی کے واقعات کے بعد نوجوان تبدیلی کے نظریے سے پیچھے ہٹتے نظر آتے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے نوجوان مطمئن ہیں۔ ان 40سال سے تین تین مرتبہ باری لینے والوں کو بھی شاید اس دفعہ ووٹر کا خوف ہے کہ کہیں گیم الٹ ہی نہ جائے۔ سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے صحافیوں کی نظر میں آزاد امیدواروں کو زیادہ سیٹیں ملیں گی، سیاسی صورت حال کافی حیران کن ہوچکی ہے، اس وقت نوجوان جمہوریت، مفاہمت اور ایک دوسرے کیخلاف جھوٹے پروپیگنڈے کے مقاصد کو کافی سمجھ گیا ہے، یہ تاثر پیپلز پارٹی سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کو متاثر کرے گا۔ بلاول بھٹو زرداری واضح اعلان کر چکے ہیں کہ چوتھی بار وزیراعظم نہیں بننے دیں گے، میاں نواز شریف کے "وہ کون تھا” کے بیانات سے ووٹر متاثر نہیں ہوگا۔ نوجوان تمام حالات کو بغور دیکھ رہا ہے۔ دسمبر کے آخر اور ماہ جنوری میں سیاسی صورتحال واضح ہو جائیگی، جوڑتوڑ کا نتیجہ اور امتحان سخت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے گراف کا بھی پتہ چل جائیگا۔ میاں نوازشریف کے بیانات سے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ ابھی بھی سیاسی حالات اچھے نہیں ہیں، سیاسی حلقوں میں اہم سمجھے جانے والے سابقہ منسٹر محمد علی درانی کی تجویز نے سیاسی قائدین کی مشکلات اور وزیراعظم کے خواب کو کمزور کر دیا ہے، بظاہر اگلے چند روز میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے بیانات میں تیزی نظر آئے گی کیوں کہ لاڈلے کے تاثر کو زائل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائیگی جو اس وقت پیپلز پارٹی کی طرف سے بنایا جارہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف زیر عتاب ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور استحکام پاکستان پارٹی کیلئے چیلنج ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button