Column

حکومت پنجاب اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے

رفیع صحرائی
اس وقت لاہور میں پنجاب کے سرکاری ملازمین کا دھرنا جاری ہے۔ یہ ملازمین اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو ملازمین اپنے تمام مطالبات میں حق بجانب ہیں۔ وہ حکومت سے کسی قسم کی خصوصی مراعات نہیں مانگ رہے بلکہ حکومت کی جانب سے چھینی گئی مراعات کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ملازمین حکومتی اقدامات کو اپنا معاشی قتل قرار دے رہے ہیں۔
ملازمین کا سب سے بڑا مطالبہ لیو انکیشمنٹ کے سابقہ طریقہ کار کی بحالی، پنشن اصلاحات کی واپسی اور سرکاری سکولوں کی نجکاری کے فیصلے کی واپسی ہے۔ گزشتہ جولائی میں بھی پنجاب کے سرکاری ملازمین سڑکوں پر نکلے تھے اور کامیاب دھرنے و قلم چھوڑ ہڑتال کے ذریعے اپنے دو مطالبات منوانے میں کامیاب رہے تھے۔ وہ دو مطالبات بھی نگران حکومت کی آئی ایم ایف سے وفاداری کے نتیجے میں بجٹ کے موقع پر پنجاب کے سرکاری ملازمین کی پنشن اور تنخواہ میں اضافے سے متعلق تھے جب حکومت نے دوسرے تین صوبوں، مرکز، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے برعکس پنجاب میں ایک عجیب و غریب فیصلہ کر کے ملازمین کی تنخواہ اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں معمولی اضافے کا فیصلہ کیا تھا۔ تب مرکز میں میاں شہباز شریف کی حکومت تھی اور انہی کے ایما پر پنجاب کے ملازمین کو حکومت کی طرف سے کئے گئے فیصلے کے نتیجے میں سڑکوں پر آنا پڑا تھا۔
پنجاب میں سرکاری ملازمین نے کئی ہفتے پہلے ہی دس اکتوبر کو لاہور میں دھرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ جناب محسن نقوی نگران وزیر اعلیٰ منتظم تو اچھے ہیں مگر بحرانوں کو اپنے انداز میں حل کرنا چاہتے ہیں۔ 14جولائی کو بھی انہوں نے ملازمین کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔ اسی روز وفاقی حکومت کے نمائندے جناب احمد خان نے ملازمین کے ساتھ کامیاب مذاکرات کر کے ملازمین کی اشک شوئی کی تھی۔
حسبِ سابق جناب محسن نقوی نے 9اکتوبر کو یعنی دھرنے سے ایک دن پہلے میڈیا ٹاک میں سرکاری سکولوں کو نجی تحویل میں دینے کا عندیہ ظاہر کیا۔ نقوی صاحب نے یہ فیصلہ اپنے دورہ پائلٹ سکول وحدت روڈ کے بعد سرکاری سکولوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے نتیجے میں کیا۔ حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ سکول میں سٹاف کو پورا کرتے، الٹا انہوں نے تمام سرکاری سکول ہی پرائیویٹ سیکٹر کو دینے کا فیصلہ کر لیا۔ سکول میں 1650طلبہ کے لیے صرف 60اساتذہ کی تقرری، ان 60میں سے 10اساتذہ کو طویل رخصت پر بھیجنے کی منظوری، 35اساتذہ کی خدمات الیکشن کمیشن کے حوالے کرنا اور سکول میں صرف 15اساتذہ کا حاضر ہونا انتظامی مسئلہ تھا جو حکومت کی ناقص پالیسی کا موجب تھا۔ سکول میں حاضر 15اساتذہ تو شاباش کے مستحق تھے جنہوں نے 1650طلبہ کو سنبھالا ہوا تھا۔
اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں اور دیگر سرکاری ملازمین حکومتی مشینری کے وہ کل پرزے ہوتے ہیں جو مشین کو رواں دواں رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ ان پرزوں کے بغیر حکومتی مشینری بے کار ہے۔
دھرنے کے دوسرے ہی روز اگیگا کے رہنمائوں کو مبینہ طور پر دھمکیاں دی گئیں اور دھرنا ختم کرنے کو کہا گیا۔ اسی رات ڈیڑھ اور دو بجے کے درمیان دھرنے میں سوئے ہوئے اگیگا کے قائدین کو دھرنے سے گرفتار کر لیا گیا۔ ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ان پر تشدد بھی کیا گیا۔ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ حکومت اور پولیس کی طرف سے بہت بڑی زیادتی کی گئی ہے کیونکہ دھرنا کے شرکا انتہائی تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو پُرامن احتجاج کر رہے ہیں۔ اگیگا کے قائدین کی گرفتاری نے غم و غصہ کی لہر دوڑا دی ہے۔ پنجاب بھر کے سرکاری تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے ہیں۔ اساتذہ کی بڑی تعداد مرکزی دھرنے میں پہنچ رہی ہے۔ مرکزی دھرنے میں نہ پہنچنے والے اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین اپنے اپنے ضلع میں احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے اچانک دھاوا بول دیا۔ اطلاعات کے مطابق اساتذہ کے ساتھ طلبہ بھی مظاہروں میں شریک ہو گئے ہیں۔ پولیس نے مرکزی دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے خواتین اور مرد ملازمین پر تشدد کر کے حالات کو سنگین بنا دیا ہے۔
اس سے اگلا مرحلہ زیادہ بگاڑ کا سبب بھی بن سکتا ہے جب حکومتی سختی کے نتیجے میں سرکاری سکولوں اور کالجز کے اساتذہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے تمام طلبہ بھی سڑکوں پر آ جائیں گے۔ حکومت کے پاس پولیس کے علاوہ کنٹرول کرنے کا کوئی بھی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ تمام افسران اور بیوروکریسی بھی سرکاری ملازمین کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے کہ وہ خود بھی حکومتی پالیسیوں کی زد میں آ رہی ہے۔ طلبہ پر لاٹھی چارج یا آنسو گیس کا استعمال پولیس کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔
مسائل مذاکرات ہی سے حل ہوتے ہیں۔ طاقت کا استعمال اور وہ بھی اپنے لوگوں کے خلاف مسائل کا حل نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ نگران حکومت اپنی پوری توجہ آئندہ الیکشن کے انتظامات پر مرکوز کرے۔ سرکاری ملازمین کی مراعات کی واپسی یا اضافے کا فیصلہ منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ ملازمین کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے کہ معاشی تحفظ کی شرائط کے ساتھ انہیں ملازمت دی گئی اور پچیس تیس سال بعد انہیں اس تحفظ اور مراعات سے محروم کیا جا رہا ہے جن کا وعدہ ملازمت کے آغاز میں کیا گیا تھا۔ حکومت اپنی پالیسیاں آئندہ دی جانے والی ملازمتوں میں نافذ کرے تاکہ سرکاری ملازمت کے خواہشمند سوچ سمجھ کر ملازمت اختیار کریں۔ ایسی بے رحمانہ پالیسیوں کا نفاذ پہلے سے موجود سرکاری ملازمین پر نہیں ہونا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button