Columnمحمد مبشر انوار

انتخابی سرگرمیاں

محمد مبشر انوار( ریاض)
ویسے تو پاکستان میں آئینی پارلیمانی ؍ جمہوری نظام رائج ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں ایک آمر نے متکبرانہ اس آئین کی تضحیک کرتے ہوئے، اسے چند صفحات کا چیتھڑا کہا تھا، جو اسے اس کی طالع آزمائی سے نہیں روک سکا تھا۔ اسی پر کیا موقوف کریں کہ بعد ازاں، جب لولی لنگڑی جمہوریت کو بحال کرنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو اپنے غیر آئینی اقدامات کی توثیق کے لئے، غیر جماعتی منتخب ہونے والی اسمبلی کو مشروط روبہ عمل آنے کی اجازت دی اور آئین میں آٹھویں ترمیم کے نام پر تمام تر غیر آئینی اقدامات کو نہ صرف جائز قرار دلوایا بلکہ پارلیمنٹ کی جان ،اٹھاون ٹو بی کے تحت صدر کے ہاتھوں میں محبوس کردی۔ اس آٹھویں ترمیم کا نتیجہ تھا کہ بعد ازاں یکے بعد دیگرے پانچ بظاہر جمہوری نظر آنے والی حکومتوں کو صدر نے بیک جنبش قلم گھر بھیج دیا، جس کا پس منظر فقط اور فقط ذاتی پسند و نا پسند، انا ضد اور چپقلش رہی لیکن دوسری طرف جمہوری حکومتوں کے کارنامے بھی بہرطور کسی بھی حوالے سے قابل ستائش نہیں تھے اور نہ ہی ان حکومتوں کے گھر بھجوائے جانے پر عوام کی طرف سے احتجاج ہوتا نظر آیا۔ بہرکیف جمہوری حکومتوں کے سر پر لٹکتی اس تلوار کو ختم کرنے کی کوششوں میں 1999تک جمہوری حکومتیں کوشش کرتی رہی لیکن ان کی کسی بھی کوشش کو بار آور نہیں ہونے دیا گیا البتہ نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں، جب انہیں دو تہائی اکثریت حاصل تھی یا دلوائی گئی تھی، اپنے تئیں ایک انقلابی قدم اٹھانے کا فیصلہ ضرور کیا تھا لیکن اس انقلابی قدم کے پس پردہ وہی آمرانہ سوچ کارفرما تھی، جو نواز شریف کے مربی و محسن کے 1984کے ریفرنڈم میں نظر آئی تھی، فرق صرف یہ تھا کہ نواز شریف یہ کام بذریعہ پارلیمنٹ کرانا چاہ رہے تھے، جس کی کامیابی کے نتیجے میں نوازشریف خلیفہ بن جاتے اور سکہ رائج الوقت جمہوریت کہیں دور دفن ہو جاتی۔ دوتہائی اکثریت کے زعم میں نوازشریف نے ایسا انتہائی قدم بھی اٹھایا کہ جسے طاقتور حلقے،جو نوازشریف کو حکومت میں اکثریت دلا نے والے تھے، کسی صورت ہضم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، لہذا جنرل پرویز مشرف کی برطرفی پر فوج ایک منصوبے کے تحت بروئے کار آئی اور نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ نواز شریف تب بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہ کر سکے اور ایک معاہدے کے تحت اپنے تمام تر اہل خانہ اور خاص ملازمین کے ساتھ بیرون ملک شفٹ ہو گئے، یوں ملک ایک بار پھر طالع آزما کی نذر ہو گیا۔ تاہم اس آمر کی آمریت بھی ختم ہوئی گو کہ اس دور آمریت میں پاکستان نے ایک مقبول ترین رہنما کو کھو دیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس وقت تک پورے پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول سیاسی رہنما تھی، جن کی بات بہرحال ملک کے ہر کونے میں سننے والے موجود تھے۔ محترمہ بی نظیر کے بعد گو کہ حکومت پیپلز پارٹی کا مقدر ہوئی لیکن زرداری کی ٹھنڈی مفاہمانہ ؍ مصلحانہ سیاست نے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ٹھکانے لگا دیا تاہم زرداری نے بطور صدر اپنے دور حکومت میں کم از کم آٹھویں ترمیم کا خاتمہ اور پارلیمنٹ توڑنے کا صدارتی اختیار آئین سی نکال دیا، اس کے ساتھ ساتھ آئین میں یہ بھی شامل کر دیا کہ آئین شکنی کرنے والا، آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے والا یا اسے معطل کرنے والا ، صرف آئین شکن ہی نہیں بلکہ غدار بھی کہلائے گا۔ تحریری طور پر یہ اب آئین کا حصہ ہے اور اس نے کسی بھی طالع آزما کے لئی، کسی بھی قسم کا تجربہ کرنے سے بظاہر روک دیا ہے لیکن بقول چودھری شجاعت اس ترمیم کی خلاف ورزی کے لئے صرف دو جیپیں اور تین ٹرک کافی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب دوسری طرف کی سوچ ہی بدل چکی ہے اور انہیں براہ راست ایسا قدم اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ پاکستانی سیاست میں بغور دیکھیں تو یہ حقیقت واضح نظر آ رہی ہے کہ مسلم لیگ ق ( جنرل مشرف) کی حکومت اور بعد ازاں بننے والی ہر حکومت میں کوئی ایک بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائی اور جتنے بھی پریشر گروپس بنے ہیں، ان کی ڈوریں کہاں سے ہلتی ہیں، واقفان حال سب باخبر ہیں۔
اس ہنگام میں، بظاہر تین جمہوری حکومتیں اپنی مدت پوری کر چکی ہیں لیکن پاکستان کی قسمت دن بدن تنزلی کا شکار ہے اور سول حکومتوں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ تینوں جمہوری حکومتوں نے اپنی مدت تو پوری کی لیکن کسی ایک کا بھی وزیراعظم مدت پوری نہیں کر پایا، کسی بھی حکومت نے عوامی بہتری کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے، ماسوائے تحریک انصاف کی حکومت کہ جس میں معیشت کی بہتری کے لئے ٹھوس اقدامات لئے جا رہے تھے اور بتدریج معاشی حیثیت مستحکم ہو رہی تھی لیکن اسے رجیم چینج کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔ یہ معاشی اشاریے پی ڈی ایم حکومت میں شائع ہوئے لہذا اسے کسی بھی طور تحریک انصاف کی ذاتی تشہیر نہیں کہا جا سکتا کہ پی ڈی ایم حکومت جس درشتی اور تعصب کے ساتھ تحریک انصاف کے خلاف برسر پیکار تھی، اس سے تحریک انصاف کی حمایت میں رتی برابر توقع کرنا عبث تھا۔ خیر یہ حقیقت سامنے ہے کہ پی ڈی ایم بالعموم جبکہ ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام ف بالخصوص جس نفرت کے ساتھ تحریک انصاف کے خلاف بروئے کار ہیں، وہ سب پر عیاں ہے اور اس کی وجوہ بھی سب جانتے ہیں کہ کے پی میں تحریک انصاف وہ واحد سیاسی جماعت ہے کہ اگر مجوزہ انتخابات شفاف ہوتے ہیں تو تحریک انصاف تیسری مرتبہ کے پی میں حکومت بنا کر ایک منفرد ریکارڈ بنا سکتی ہے، جبکہ پنجاب میں تحریک انصاف کا مقابلہ ن لیگ سے ہے اور مقابلہ حقیقتا انتہائی سخت متوقع ہے۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک طرف اپنی عوامی مقبولیت کا بھرپور اطرام رکھتی ہیں اور دوسری طرف انتخابات کو بہرطور ہر صورت اس وقت تک ملتوی رکھنا چاہتی ہیں جب تک حالات ان کے لئے سازگار نہ ہوجائیں اور انہیں اپنی کامیابی کا یقین نہ ہو جائے یا انہیں یقین دلا دیاجائے۔ اسی لئے مولانا فضل الرحمان نے الیکشن کمیشن کی طرف سے کی گئی انتخابی تاریخ پر انتخابات کے انعقاد پر سخت سرد موسم کی وجہ شکوک کا اظہار کیا ہے اور دوسری طرف ن لیگ ابھی تک مخمصے کا شکار ہے کہ اگر نواز شریف وطن واپس آتے ہیں تو گرفتار ہوتے ہیں اور اگر نہیں آتے تو انتخابی مہم متاثر ہوتی ہے۔
ابتدائی طور پر مریم نواز شریف کو میدان میں اتارا گیا ہے اور لاہور میں ہونے والے پہلے ہی انتخابی جلسے نے چودہ طبق روشن کر دئیے ہیں کہ ایک طرف شرکاء کی تعداد انتہائی کم اور اس پر طرہ یہ کہ اس میں عمران خان کے نعرے بھی سنائی دئیے گئے۔ بظاہر یوں دکھائی دے رہا ہے کہ انتخابی ماحول کو گرمانے کی کوشش ضرور کی جار ہی ہے کہ باخبر ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ عالمی اداروں کی طرف سے سخت دباؤ ہے کہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے تا کہ ایک منتخب حکومت سے بات چیت ہو سکے لہذا ایسا انتخابی ماحول دکھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اسی ضمن میں کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ، کے پی میں عوامی نیشنل پارٹی کے سیاسی اجتماعات ہوئے ہیں لیکن تحریک انصاف کو انتخابی جلسے کرنے کی قطعی اجازت نہیں بلکہ اگر تحریک انصاف کا کوئی ووٹر یا سپورٹر جھنڈا اٹھائے بھی دکھائی دیتا ہے تو اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ کیا اس ماحول میں ہونے والے انتخابات، اگر ہوئے تو کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آئین کی خلاف ورزی کر کے نہیں کروائے گئے اور نگران حکومتیں آئین سے ماورا ء حکومت کر رہی ہیں، کو عالمی ادارے یا طاقتیں کس طرح قبول کریں گی؟ عالمی ادارے و طاقتیں تو خیر بعد کی بات ہے، خود تحریک انصاف ان انتخابات کو کیسے قبول کرے گی؟ اس کا توڑ کرنے کے لئے بہرطور سوشل میڈیا پر ایک تجویز وائرل ہے کہ جس میں ووٹرز کو ترغیب دی جارہی ہے کہ اگر تحریک انصاف کو انتخابی عمل سے باہر کیا جاتا ہے تو ووٹرز بیلٹ پیپر پر اپنا ووٹ یوں درج کروائیں کہ وہ مسترد ہو جائے۔ عوامی سروے تو یہی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مقبولیت چالیس فیصد سے کہیں زیادہ ہے اور اگر تحریک انصاف کے ووٹرز یہ کر گزرے تو سارا انتخابی عمل مسترد ہو جائے گا اور نئے انتخابات کروانے لازم ہو جائیں گے، یقینی طور پر نئے انتخابات کا انعقاد آئین کے تحت ہی ہو گا لیکن کتنی مدت کے بعد اور کون اس کا اعلان کرے گا؟ علاوہ ازیں! اگر مجوزہ انتخابات مسترد ہو جاتے ہیں تو تحریک انصاف کو کیا فائدہ ہو گا اور اس کے مخالفین کو کیا فائدہ ہو گا؟ سامنے کی بات ہے کہ سیاسی شطرنج کی بچھی بساط پر چالیں چلنے والوں کی جیت ہو گی ، جو اس وقت تحریک انصاف کے خلاف ہیں اور ظاہری سی بات ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ سیاسی مخالفین ہی اقتدار پر قابض رہیں گے، اس میں بہرکیف پاکستان کا فائدہ قطعا نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button