Columnمحمد مبشر انوار

نیا شہر راوی

محمد مبشر انوار( ریاض)
پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے کہ جہاں کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی دیکھنے کو نہیں ملتی ،ہرشعبہ ہائے زندگی میں چند افراد،خاندان اپنی اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں اور اس شعبہ میں کسی بھی نئے شخص کی آمد تقریبا ناممکن بنا دی گئی ہے۔ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود جس بے دردی و بے رحمی سے اس سے زرعی رقبوں کو ہاؤسنگ سوسائیٹیوں میں تبدیل کیا گیا ہے،وہ حکومتی نااہلیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکومتیں فقط اپنے من پسند افراد کو نوازنے کے لئے، کسی بھی قانون کو خاطر میں لائے بغیر اندھا دھند اجازت نامی دیتی رہی ہے۔دیہی علاقوں میں سہولیات کی عدم فراہمی نے ،شہروں کو ہجرت کرنے کی معقول وجہ بنا دیا اور لوگ اپنے محرومیوں کے ازالے کی خاطر اپنے دیہی گھروں کو چھوڑ کر بڑے شہروں کو منتقل ہوتے رہے لیکن کسی صاحب اختیار کے کان پر جوں تک نہیں رینگی کہ اس کا ازالہ کیا جائے۔ایک طرف زرعی زمینوں کو دھڑا دھڑ ہاؤسنگ سکیموں کی نذر کیا جاتا رہا ہے تو دوسری طرف آبادی میں اضافہ ہوشربا حد تک بڑھ چکا اور پاکستان آبادی میں اضافے کے حوالے سے سرفہرست ممالک میں آتا ہے،ارباب اختیار میں سے کسی نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ اس ملک کے شہریوں کی خوراک کا بندوبست کیسے اور کہاں سے ہو گا؟کیا نجی ہاؤسنگ سوسائٹی،کسی بھی طرح حکومتی اقدام کا نعم البدل ہو سکتی ہے؟تسلیم کہ چند ایک ممکنہ طور پر ہو بھی سکتی ہیں کہ جنہوں نے شہریوں کی رہائش میں تمام تر سہولیات کا خیال بھی رکھا ہو لیکن اکثریت سے متعلق فراڈ ہی سننے میں ملا ہے کہ شہریوں کی جیبوں پر ڈاکہ ہی پڑا ہے اور منصوبے دئیے گئے وقت پر مکمل نہیں ہوئے،جبکہ شہری اپنے آشیانے کی آس لئے دربدر بھٹک رہے ہیں۔ کئی ایک تو ایسے ہیں کہ جنہوں نے اپنا نام بنانے کے بعد،بذریعہ فائل مال بنانے کی مشینیں لگا رکھی ہیں کہ فائلیں تو پلاٹس سے کہیں زیادہ بیچ دی جاتی ہیں لیکن پلاٹ چند خوش نصیبوں کے حصے آتا ہے،جبکہ فائل خریدنے پر بدنصیبوں کاجو خرچ ہوتا ہے،وہ سیدھا سیدھا مالکان کی جیب میں چلا جاتا ہے کہ وہ ناقابل معافی رقم کے زمرے میں آتا ہے۔بہرکیف اصولا شہریوں کی رہائش کے لئے ،حکومتیں ہی اقدامات اٹھاتی ہیں تاہم اگر پرائیویٹ سطح پر تعاون کی ضرورت پڑے تو قوانین ایسے سخت ہوتے ہیں کہ شہریوں کا نقصان نہ ہو اور ان کی جیبوں سے مال نکلوانا ہی مقصد نہ ہو۔پاکستان کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں ،ہر شخص یہ خواہش ضرور رکھتا ہے کہ اس کا اپنا گھر ہو،جہاں وہ اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے اہلخانہ کے ساتھ زندگی گزار سکے لیکن اس خواب کی تعبیر موجودہ پاکستان میں تقریبا ناممکن ہو چکی ہے۔
تاہم تحریک انصاف کی حکومت نے 2020میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کرتے ہوئے ،دریائے راوی کے کنارے کنارے تقریبا 2000ایکڑ رقبہ اس اتھارٹی کو الاٹ کیا تا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے،شہریوں کی بہتر رہائش کا بندوبست کیا جا سکے۔ایک نئے شہر کی تعمیر میں ریاست کی جانب سے ایسا اقدام طویل عرصہ کے بعد دیکھنے کو ملا البتہ اس منصوبہ کو پبلک/پرائیویٹ تعاون سے پایہ تکمبل تک پہنچایا جانا ہے کہ اس شہر کی تعمیر جدید اصولوں کی بنیاد پر کی جا رہی ہے،جس میں قرین قیاس یہی ہے کہ تعمیر شدہ گھر اور دیگر سہولیات کی فراہمی شامل ہے۔ ابتداء میں ہی اس منصوبہ پر بہت سے اعتراضات اٹھے کہ پاکستان اس وقت دنیا اپنے غذائی رقبوں کو محفوظ بنا رہی ہے تا کہ اپنے شہریوں کو غذائی قلت کا شکار ہونے سے بچائے جبکہ اس رقبہ کو کاشتکاری کے لئے انتہائی مفید سمجھا جاتا ہے بلکہ ایسی زمینوں کو سونا اگلنے والی زمین سے تشبیہ دی جاتی ہے،بدقسمتی سے ،وقت کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ،حکومت پاکستان نے اس زمین سے ایک نیا شہر بسانے کا ارادہ کیا۔جبکہ روڈا حکام کا یہ کہنا ہے کہ لاہور سے شیخوپورہ تک تقریبا 44000ایکڑ زرعی زمینوں میں سے یہ رقبہ بہت زیادہ نہیں ہے بالخصوص جب اس نئے شہر میں 4ملین یعنی چالیس لاکھ لوگوں کو رہائش میسر ہو گی،اس پس منظر میں یہ رقبہ اتنا بڑا نہیں کہ اس سے چالیس لاکھ لوگوں کو چھت میسر ہو گی۔بالخصوص ایسے حالات میں جب لاہور شہر کی سرحدیں بیس برس قبل سے کہیں آگے جا چکی ہیں،گردونواح میں ایکڑوں پر پھیلے فارم ہاؤسز نے ،یہاں کی زرعی زمینوں کو نگل لیا ہے،کھمبیوں کا مانند جا بجا بھیلی ہاؤسنگ سوسائیٹیوں نے ،زرعی رقبوں پر بڑی بڑی رہائش گاہیں اور کمرشل سنٹر بنا دئیے ہیں ،جو ہنوز جاری ہیں تو اس صورتحال میں ،ایسا نیا شہر جہاں ماحولیات، تعلیم، صحت،سپورٹس و دیگر سہولیات کو مد نظر رکھتے ہوئے عمودی عمارتوں میں شہریوں کو رہائش فراہم کرنا ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔عوامی تحفظات کہ اس نئے شہر کو بسانے میں درحقیقت من پسند افراد کو نوازا جا چکا ہے،اس سے صرف نظر کسی صورت نہیں کیا جا سکتا تاہم اس حقیقت سے بھی انکا نہیں کیا جا سکتا کہ اس منصوبہ کو ماہرین کی زیرنگرانی ،باقاعدہ قواعد و ضوابط پورے کرتے ہوئے، جدید تقاضوں کے عین مطابق جاری ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں دریائے راوی میں سیلابی صورتحال رہی ہے اور چونکہ نیا شہر راوی کے کنارے بسایا جا رہا ہے لہذا اس امر کاا حتمال بہر طور رہے گا کہ مستقبل میں ایسی صورتحال پیدا ہونے پر اس کے حفاظتی اقدامات کیا ہو سکتے ہیں؟اس سوال کا جواب گزشتہ شب سفارت خانہ پاکستان میں، روڈا کی جانب سے روڈ شو کے دوران، بریگیڈئیر ( ر) منصور احمد جنجوعہ نے دیتے ہوئے کہا کہ راوی کے بیڈ میں کسی قیم کی کمی نہیں کی گئی اور سیلابی ریلوں میں آنے والے پانی کا ریکارڈ سامنے رکھا گیا ہے کہ یہاں سے زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ چھیاسی ہزار586000کیوسک تک پانی کا ریلا گزرا ہے۔ لہذا اس ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے حفاظتی پشتے بھی تعمیر کئے گئے ہیں جبکہ لاہور کو بچانے کے لئے راوی پر حفاظتی پشتوں کی تعمیر کئی دہائیاں قبل ہی کر لی گئی تھی۔ علاوہ ازیں! سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت ہر سال پانی چھوڑنے سے قبل پاکستان کو مطلع بھی کرتا ہے تا کہ یہاں حفاظتی انتظامات کئے جا سکیں۔اس نئے شہر کو بسانے کے لئے ،یقینی طور پر پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بیراج بنانے کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے ،اور اس کے ڈیزائن میں دو بیراج رکھے گئے ہیں جس سے یہاں مقیم آبادی کو پانی کی فراہمی جاری رہے گی دوسری طرف ان بیراجوں کی موجودگی میں زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے میں مدد ملے گی۔اس امر سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ایسے آبی ذخائر کی موجودگی میں زیر زمین پانی کی سطح برقرار رہتی ہے لیکن ان کی عدم موجودگی ،پانی کی مسلسل بڑھتی ہوئی ضرورت اورپانی کے شتر بے مہار استعمال سے زیرزمین پانی سطح گرتی چلی جاتی ہے،آج لاہور اور اس کے گردو نواح میں واقعتا زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جاچکی ہے،جس کی وجہ سے زمین کی ساخت و ہئیت میں بھی بش شمار تبدیلیاں پیدا ہو چکی ہیں۔اگر یہ بیراج تعمیر ہوتے ہیں تو یقینا اس سے جہاں اس شہر کے رہائشیوں کو فائدہ ہوگا وہیں زیرزمین پیدا ہو چکی تبدیلیوں میں بھی بہتری کا امکان ہے لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ جب دریائے راوی کا پانی بھارت کے ڈیمز میں ہے،تو یہ بیراج کیسے بھریں گے؟کیا بارانی پانی سے انہیں بھرا جائے گا؟ اور عین اسی وقت اگر بھارت بھی راوی میں پانی چھوڑتا ہے تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟کیا ان بیراجوں سے پن بجلی کا حصول بھی ممکن ہو سکے گا؟یہ سوالات بہرکیف روڈا کے حکام سے نہیں کر سکا البتہ امید ہے کہ جس سطح پر روڈا والے کام کر رہے ہیں،ان کا تدارک بھی انہوں نے سوچ رکھا ہوگا،سفارت خانہ پاکستان ،ریاض تارکین وطن کے لئے ایسے سیمینارز کرنے میں مسلسل روبہ عمل ہے اور اس پر خراج تحسین کا مستحق ہے بالخصوص سفیر پاکستان جناب احمد فاروق اور ان کا عملہ ایسے معاملات میں فعال و متحرک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button