Columnمحمد مبشر انوار

احتساب کا احسان

محمد مبشر انوار( ریاض)
ہمارا مزاج عجیب ہو چکا ہے کہ ہر آنے والے حکمران کے قصیدے پڑھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں ،اس کا ماضی،تعلیم حب الوطنی کی تشہیر وتیرہ بن چکا ہے جبکہ اصل حقیقت اس کے برعکس ہے کہ جب تک انداز حکمرانی نہ دیکھ لیا جائے،تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے سے گریز کرنا چاہئے۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی کی پرچھائیاں مستقبل کی امید بنتی ہیں کہ اگر نئے حکمران کا خمیر کیسا ہے اور اس سے کیا توقعات لگائی جا سکتی ہیں البتہ یہ الگ بات ہے کہ اقتدار پاکستان بالخصوص ماضی کی اچھائیوں ،جذبات کو پلک جھپکتے نگل لیتا ہے اور ہم لکیر پیٹتے نظر آتے ہیں اور اسی حاکم کا پوسٹ مارٹم شروع ہو جاتاہے۔ اس پوسٹ مارٹم میںبہرکیف بغض و عناد کی بجائے ،حاکموں کے اعمال ہی بنیاد بنتے ہیں ،ان کا دور اقتدار میں رہتے ہوئے،ملکی وسائل کے ساتھ کھلواڑ ہی ان کے پوسٹ مارٹم یا تنقید کی بنیادہوتا ہے۔ماضی کے حکمرانوں پر نظر دوڑائیں تو واضح طور پر ہمیں چند ایک ہی ایسے حکمران نصیب ہوئے ہیں،جن کے متعلق عوام الناس کی رائے بہتر رہی ہے لیکن 1985کے بعد سے نرسری کی پیداوار سیاسی قیادتیں ہوں یا حقیقی سیاسی قیادت رہی ہو،ان کا دورحکمرانی ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک و قوم کو تنزلی کی طرف ہی لے گیا ہے ۔آج بھی ن لیگی ووٹرز ،سپورٹرز یا مستقبل میں امیدواران کی پوسٹس دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ موجودہ حالات کا موازنہ 2017کی نواز شریف حکومت سے کر رہے ہیں،جس میں ڈالر ،تیل ،ڈیزل ،چینی اورآٹے کی قیمت کا ذکر کرتے ہوئے تبدیلی کو صلواتیں سنانے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کے سہولت کاروںپر تبری بھیجنا نہیں بھول رہے۔ممکن ہے یہ ن لیگ کا متوقع انتخابات کا بیانیہ ہو ،جس کی بنیاد پر وہ عوام سے ووٹ حاصل کرنے کی توقع کررہے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ یہ بھول رہے ہیں کہ قرض کی مے پینے والوں نوابوں کا زوال اسی دن وقوع پذیر نہیں ہوتا بلکہ ان کی آنے والی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتتی ہیں۔2017کی قیمتوں کا موازنہ کرنے والے یہ بھول رہے ہیں کہ یہ وہی دور تھا جب قرض کی مے پیتے ہوئے، اپنی نسلوں کا مستقبل بیرون ملک محفوظ بنایا جا رہا تھا جبکہ عوام کی آنی والی نسلوں کو گروی رکھا جا رہا تھا، اس کے باوجود حیران ہوں کہ ن لیگی کارکن آج بھی پاکستانی معیشت کا جنازہ نکالنے والوں سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ خیر یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اور ان کا حق ہے کہ وہ جسے چاہیں منتخب کریں یا جس کا چاہیں ساتھ دیںکہ گزشتہ سولہ ماہ میں ہونے والی ریکارڈ توڑ مہنگائی بھی جن کے اذہان کو بدل نہیں سکی،جن کے رہنما اقتدار ختم ہوتے ہی اپنے آبائی ملک پدھار گئے،اس کے باوجود یہ ان کی صوابدید ہے کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی کسی کے ساتھ بھی رکھیں۔ نگران وزیراعظم انوارلحق کاکڑ کے متعلق بہت سی حوصلہ افزاء باتیں سننے اور پڑھنے کو ملی،دیکھنے میں بھی وہ ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں لیکن معیار تو آخرکار کارکردگی ہی ہوگی،جس کا انتظار ہے ۔یوں تو نگران حکومت کا مینڈیٹ فقط عام انتخابات کروانا ہے اور آئین کے مطابق عام انتخابات نوے روز کے اندر اندر کروانا آئینی تقاضہ ہے لیکن یہاں دو نکات ذہن میں رکھنا ازحد ضروری ہیں کہ کیا واقعی نگران حکومت نوے روز میں انتخاب کروائے گی؟اولا کیا مردم شماری کے بعد حلقہ بندیوں کا کام مطلوبہ مدت میں مکمل ہو سکے گا؟دوئم پی ڈی ایم کے سابقہ وزیراعظم اور اس کی اتحادی سیاسی جماعتوں کی ردعمل کیا ہے؟الیکشن کمیشن آف پاکستان مردم شماری کے بعد اپنی قانونی مجبوری کا واضح اظہار کر چکا ہے کہ وہ نوے روز کے اندر انتخاب کروانے کی پوزیشن میں ہی نہیں کہ جب تک حلقہ بندیوں کا کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا،الیکشن کمیشن انتخاب نہیں کروا سکتا،لہذا اس ایک نکتے پر ہی عام انتخابات کا انعقاد آئین کے مطابق نہیں ہو سکتا۔دوسرا نکتہ پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کا ردعمل ہے کہ مسلسل مطالبہ نوے روز میں انتخابات کا کیا جا رہا ہے لیکن کوئی ایک سیاسی جماعت بھی انتخابی میدان میں اترتی دکھائی نہیں دے رہی اور نہ ہی امیدواران کے تعین کا عمل نظر آ رہا ہے،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے مرحلے کی تکمیل تک سیاسی جماعتوں کو یقین ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے،لہذا سیاسی گہما گہمی نظر نہیں آرہی۔
اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے توقع یہی ہے کہ عام انتخابات اگلے سال فروری میں منعقد ہونے کے امکانات ہو سکتے ہیںکہ اس وقت تک پارلیمانی طرز حکومت کو قائم رکھنے کے لئے ایوان بالا کے انتخاب سے قبل ،ایوان بالا کا انتخابی حلقہ موجود ہونا ضروری ہے لیکن کیا واقعی ریاست پاکستان یا ارباب اختیار پارلیمانی طرز حکومت یا آئین کی عملداری میں سنجیدہ بھی ہیں؟بدقسمتی سے اس سوال کا جواب کسی بھی صورت مثبت نہیں دیا جا سکتا،ارباب اختیار کے اذہان میں جو بھی منصوبہ بندی ہے،اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ توقع کرنا کہ وہ آئین کی پاسداری کریں گے،ہضم نہیں ہوتا ۔ اس کے شواہد دیگر عوامل سے بھی ظاہر ہورہے ہیں کہ اس وقت احتساب کی گردان تواتر سے کی جارہی ہے اور مختلف حلقے اس کی پرزور حمایت کررہے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل ایک مرتبہ سخت ترین احتساب کیا جائے تا کہ ملک لوٹنے والوں سے نہ صرف لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے بلکہ ان کو اس انتخابی عمل سے بھی باہر کیا جائے۔دیکھنے ،سننے کو یہ انتہائی معقول بات لگتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ سنتے سنتے زندگی گذر چکی لیکن کوئی ایک بھی حکمران ایسا نہیں ملا،جو واقعتا کڑا احتساب کرتا اور ملکی وسائل لوٹنے والوں کو قرار واقعی سزا دے کر ،لوٹی ہوئی دولت واپس خزانے میں لاتا،اس کے برعکس جب بھی طاقتور رخصت ہوا تو لرزہ خیر انکشاف ہی سامنے آیا اس لوٹ مار میں وہ خود بھی شامل رہا۔پاکستان کی موجودہ صورتحال ذاتی تجوریاں بھرنے والوں کی ہوس زر کی ہولناک تصویر کشی کر رہی ہے کہ آج شہریوں کے پاس بجلی کے بل ادا کرنے کی سکت تک نہیں چھوڑی ،جبکہ اس حالت تک پہنچانے والے آج بھی بیرون ملک اپنے پرتعیش محلوں میں عیاشی کرتے دکھائی دیتے ہیںاور ان کے اندھے مقلد ،آج بھی ان کو پاکستان کا نجات دہندہ تصور کرتے ہوئے،ان کی راہ تک رہے ہیں۔بہرحال اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے ایک فی الفور حل تو یہ بھی ہے کہ مراعات یافتہ طبقے کو مفت دی جانے والی بجلی کو ختم کیا جائے اور بلاامتیاز ہر کسی سے بجلی کا بل وصول کیا جائے کہ اس وقت پاکستان ،اتنی مہنگی بجلی مفت فراہم کرنے کی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکت، جبکہ بتدریج دیگر عوامل پر ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جائے،لائن لاسز اور بجلی چوری کرنے والے پر سخت کارروائی کی جائے۔
گو کہ نگران جکومت کا یہ مینڈیٹ قطعی نہیں ہے کہ وہ ان معاملات میں ملوث ہو لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کو ان حالات میں نہ چھوڑا جا سکتا ہے اورنہ ملک چلتا نظر آتا ہے،اس لئے قرین قیاس یہی ہے کہ نگران حکومت بھنور میں پھنسی ہوئی ریاست کے ساتھ بھنور میں اترجائے گی،اور اس بھنور میں اترتے ہی،نگران حکومت کے فرائض پس پردہ چلے جائیںگے۔بھنور میں اترتے ہی،معاملات تہہ در تہہ الجھتے جائیں گے اور نگران حکومت بظاہر اپنے اصل فرض سے دور ہوتی جائے گی جبکہ پس پردہ منصوبہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ حالات کو جواز بناکر مافیاز کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے،یہاں پھر بظاہر یہ کارروائی بلاامتیاز نظر آئے گی لیکن ذاتی رنجشوں،ضد و انا کی بنیاد پردرحقیقت ایک سیاسی جماعت کو ٹھکانے لگایا جانا مقصود دکھائی دیتا ہے۔ایک لمحہ کو یہ تصور کرلیتے ہیں کہ ساری برائی کی جڑ ایک زیر عتاب سیاسی جماعت ہی ہے،اس کو ٹھکانے لگانے کا کارخیر سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ کیا یہ ممکن ہے کہ ریاست پاکستان کو آج اس مقام تک لانے والی سیاسی جماعتوں کی اس لوٹ مار کا حساب بھی لیا جائے اور ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے؟میری نظر میں موجودہ صورتحال میں سب سے پہلے تو نجی بجلی گھروں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں،جو سابقہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے دور اقتدار میں ہوئے ہیں،کو عالمی عدالت انصاف میں ،اس بنیاد پر کھولا جائے کہ ان معاہدوں کی شقوں کے پس منظر میں نیک نیتی کا عنصر تلاش کیا جائے،ان معاہدوں سے مستفید ہونے والوں کی سرکاری حیثیت کا جائزہ لیا جائے،کہ آیا یہ معاہدے نیک نیتی کی بنیاد پر کئے گئے ہیں یا ان میں دانستہ بدنیتی کا عنصر شامل ہے۔اسی طرح حکومت کے پاس بہت سے عالی دماغ موجود ہیں،جو ان معاہدوں کے سقم باہر لاکر عالمی عدالت انصاف سے ان معاہدوں کو بہرکیف بہتر بنا سکتے ہیں او رپاکستان کو اس ظلم سے نکال سکتے ہیں اگر نگران حکومت احتساب کے اس بھنور میں اترتی ہے اور ان معاہدوں سے اعراض برتتی ہے تو کم از کم مجھے اس کے احتسابی عمل پر اعتبار نہیں بصورت دیگر نگران حکومت کا احتساب، احسان یہ قوم کبھی فراموش نہیں کر پائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button