Columnمحمد مبشر انوار

پتھر کا دور

محمد مبشر انوار( ریاض)
معاشرتی و معاشی انسانی ترقی میں بنیادی کردار اس قیادت کا ہے جو ذاتی مفادات کے بجائے، گروہی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دے کر اپنے اور اپنے لوگوں کی ترقی و سہولت کے لئے فیصلے کرتی رہی ہے۔ اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی گئی پالیسیوں اور کئے گئے فیصلوں کا ثمر ہے کہ آج وہ ملک اور قومیں بام عروج پر نظر آتی ہیں جبکہ ایسے ممالک جہاں پالیسیاں بناتے ہوئے اشرافیہ نے اپنے مفادات کو مد نظر رکھا، ایسے فیصلے کئے کہ تما م تر وسائل اور ثمرات فقط اشرافیہ کی تجوریوں میں سمٹ جائیں، ان کی حالت اس وقت انتہائی دگر گوں نظر آتی ہے۔ پاکستان، بدقسمتی سے ایک ایسی ریاست ہے ،جس کا قیام درحقیقت مظلوم و پسے ہوئے قوم کے لئے کیا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، اس کی اشرافیہ نے یہاں کے محنت کشوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ایک ایسی ریاست جسے قدرت نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے لیکن اس کے ارباب اختیار کی ہوس پرستی اور حرص نے ان وسائل کو عوام کے لئے شجر ممنوعہ بنا رکھا ہے، کوتاہ قد اور بونی قیادتوں کے ناعاقبت اندیشانہ فیصلوں نے قعر مذلت میں دھکیل رکھا ہے۔ دوسری طرف دیگر ریاستوں کی طرف نظر دوڑائیں تو حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ ایک طرف تو بھارت ہے، جو اول روز سے ہی پاکستان کا مخالف ہے، لیکن وہاں کرپشن کے باوجود ریاست مجموعی طور پر معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرر ہی ہے، معاشرتی سطح پر ہنوز وہاں کئی ایک شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کی گنجائش موجود ہے، جو بہرکیف ہر معاشرے میں رہتی ہے۔ بنگلہ دیش کی حیرت انگیز معاشی ترقی، پاکستانی زمیں بوس معیشت کا منہ چڑاتی نظر آتی ہے کہ بنگلہ دیش وہ ملک ہے، جسے ہمارے ناخدائوں نے بوجھ سمجھا تھا، انہیں بنگلہ دیشیوں کے کپڑوں سے پٹ سن کی بو محسوس ہوتی تھی، آئے روز سیلاب کی تباہ کاریاں، مغربی پاکستان کے کاندھوں پر اضافی بوجھ تھا لیکن آج وہی بنگلہ دیش کپاس درآمد کر کے، اس سے بہترین سامان تیار کرکے عالمی منڈی میں فروخت کر رہا ہے، قیمتی زرمبادلہ کما رہا ہے۔ اس کے باوجود قطعا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بنگلہ دیش کی اس ترقی کے بعد وہاں سب ہرا ہے کہ وہاں کی معاشرتی ترقی جمود کا شکار ہے اور ہوس اقتدار میں محبوس سیاسی قیادت کسی بھی طور عوام کو ان کا حق رائے دہی آزادانہ استعمال کرنے کی آزادی دینے کے لئے تیار نہیں، یہ حقائق ایک تو بنگلہ دیشی نظام حکومت سے واضح ہیں دوسرا سعودی عرب میں موجود بیشتر بنگلہ دیشی شہریوں کی زبانوں پر عام ہے۔
مختصر سا یہ موازنہ واضح کرتا ہے کہ ترجیحات کے حوالے سے بہرطور پاکستانی اشرافیہ ہمسایہ ممالک سے کوسوں دور نظر آتی ہے ، ملکی معاملات و مفادات کے متصادم بنائی گئی پالیسیوں کے اثرات سامنے نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ جن دو ممالک کا موازنہ کیا گیا ہے، وہاں قدرتی وسائل کو ضائع کرنے کے بجائے، ان وسائل کو ذخیرہ کرنے کا خاطر خواہ انتظام کیا گیا ہے، بالخصوص آبی وسائل کے حوالے سے ان دو ممالک نے زبردست پالیسیاں ترتیب دی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف ان کی زراعت کو سارا سال بلاتعطل پانی میسر رہتا ہے تو دوسری طرف اس ذخیرہ شدہ پانی سے انتہائی سستے داموں بجلی کا حصول بھی ممکن رہتا ہے، جو صنعت کش پہئے کو متحرک رکھتی ہیں۔ صنعت کا پہیہ متحرک رہے تو نہ صرف ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں بلکہ اس کی برآمدات سے قیمتی زرمبادلہ کا حصول بھی ممکن ہوتا ہے۔ پاکستان میں آبی وسائل سے سستی ترین بجلی کے حصول کے وسیع ترین امکانات موجود ہیں لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ پاکستانی ارباب اختیار کی ہوس زر نے، آج پاکستان کو اس جگہ لاکھڑا کیا ہے کہ گھریلو استعمال کے لئے بجلی کا فی یونٹ پچاس روپے تک جا پہنچا ہے۔ اولا تو صنعت ہی ملک میں نہیں بچی اور جو صنعت بروئے کار ہے، اس کے مالکان اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ وہ کسی بھی طور حکومتی خزانے میں پیسہ جمع نہیں کروائیں گے بلکہ اپنی چوریوں کا، عیاشیوں کا سارابوجھ غریب عوام کی ہڈیوں سے گودا نچوڑ کر وصول کریں گے۔ بارہا ذکر کیا جا چکا ہے، صفحات کالے کئے جا چکے ہیں کہ کس طرح اور کیونکر1993میں نجی بجلی گھروں کا قیام عمل میں لایا گیا اور بعد ازاں ان بجلی گھروں کے عارضی بندوبست کو مستقل کیا گیا۔ اس سے کون سے افراد کی ذاتی معیشت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی گئی اور کس طرح اور کیوں ان معاہدوں کو مقامی عدالتوں کی بجائے عالمی عدالتوں کی ضمانتوں پر تحریر کیا گیا، ان معاہدوں کی چیرہ دستیاں اب عوام کو بے حال کرتی نظر آرہی ہیں۔
پاکستان کے طول و عرض میں اس وقت بجلی کے بلوں کے خلاف عوام سراپا احتجاج نظر آتے ہیں، ان کے مالی حالات اجازت نہیں دیتے کہ وہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کر پائیں۔ ایک تحریک جنم لے چکی ہے کہ اس ماہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہیں کی جائے گی بلکہ کئی ایک مقامات پر تو یہ اعلانات بھی سنائی دئیے ہیں کہ اگر واپڈا اہلکار کنکشن کاٹنے آئیں تو ان کو بزور روکا جائیگا۔ بالفرض ریاستی اہلکاروں کے کار سرکار میں مداخلت کے جرم میں، ریاست شہریوں کے خلاف مقدمات درج کرنا شروع کر دے، تو کتنے شہریوں کو گرفتار کر پائے گی؟ کیا جیلیں لاکھوں /کروڑوں کی تعداد میں شہریوں کو رکھنے کے قابل ہیں، جیلوں کی استعداد اتنی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کو جیلوں میں رکھا جا سکے؟ دوسری صورت میں اگر شہری بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی پر اپنے کنکشن کٹوا دیں تو کیا حکومت کو بجلی سے حاصل ہونے والی آمدن کا نقصان نہیں ہوگا؟ یا حکومت اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے بجلی مزید مہنگی کرے گی، ویسے اس سے زیادہ اور کتنی مہنگی کرے گی؟ کیا اشرافیہ، جس کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ اس کے لئے سو/ہزار روپے فی یونٹ بھی مہنگا نہیں، اتنے مہنگے بل ادا کرکے حکومت سے بجلی خریدے گی؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اشرافیہ پہلے ہی بجلی چوری میں ملوث ہے او ر اسی کی وجہ سے بجلی اتنی مہنگی ہو چکی ہے، یا اپنا بوریا بستر گول کر کے بیرون ملک جا بسے گی، بعینہ ویسے ہی جیسے سابقہ حکومت کے نامی گرامی جو پاکستان میں صرف بغرض اقتدار آتے ہیں، اور اقتدار ختم ہوتے ہی واپس اپنے آبائی ملک روانہ ہوجاتے ہیں۔ ملکی معیشت کو ترقی کی پٹڑی پر ڈالنے کے دعویدار بحفاظت واپس اپنے آبائی ملک پہنچ چکے ہیں لیکن نجانے ملکی معیشت کو کس پٹڑی پر ڈال کر گئے ہیں کہ عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے، نجانے وہ آنکھیں کس طرح اس صورتحال کا جائزہ لے رہی ہیں جو کہتی/سمجھتی تھی کہ بیرون ملک کے شہریوں کی آمد سے ملکی معیشت بہتر ہو جائیگی؟
صرف اس ایک غلط پالیسی کی بنیاد پر، بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس دانستہ مجرمانہ غفلت کی بنیاد پر ملک اندھیروں میں ڈوب رہا ہے، عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مخالف قوتیں بہرطور اپنے مذموم مقاصد میں بظاہر کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔ امریکی صدر بش نے سانحہ 9؍11پر جنرل مشرف کو فون پر یہی دھمکی دی تھی کہ آیا پاکستان امریکہ کے ساتھ ہے یا اس کو پتھر کے دور میں دھکیلا جائے، جس کے جواب میں جنرل مشرف نے ’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے، اپنے ’’ مضبوط‘‘ کندھے امریکہ بہادر کو فراہم کئے تھے لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ امریکہ تو پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیلنے پر تلا تھا، اس وقت نہ سہی، آج سہی، امریکی بمباری نہ سہی، بجلی بم، پٹرول بم، مہنگائی بم، معاشی بم، نااہل قیادتوں کا بم، ذاتی مفادات کے اسیر سیاستدانوں کا جم غفیر، جو اپنے مفادات کے عوض، پاکستان کو انتہائی آسانی کے ساتھ قرضوں کی دلدل میں دھکیل چکا ہے اور فی الوقت انارکی کی صورتحال جنم لے چکی ہے۔ اللہ کریم پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، دشمنوں کی سازشوں کے تارپود کو تار تار کرنے پر قادر مطلق انہیں ناکام کرے اور پاکستان کو پتھر کے دور کی بجائے سدا شاد و آباد رکھے ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button