ColumnImtiaz Aasi

پارلیمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے

امتیاز عاصی
سیاست دانوں ہوں یا عام شہری انصاف کا حصول سب کا قانونی حق ہے۔ مملکت کے کسی شہری کو انصاف سے محروم رکھنا قرین انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ انصاف سب کے لئے نہ ہونا نہ صرف قرون اولیٰ کی قوموں کی تباہی کا باعث بنا بلکہ ہماری بربادی کا بھی سبب بن گیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا عدالتی نظام اس قدر بوسیدہ ہے کسی کے حق میں فیصلہ آئے تو انصاف مل گیا اور برخلاف فیصلہ ہو جائے تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں ایک ایسا کلچر پروان چڑھ چکا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ سیاست دانون نے ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرکے عدلیہ کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے۔ جس ملک میں مقدمات کے فیصلوں کے لئے مدت مقرر کرنے کے باوجود انصاف کا حصول ناپید ہو ایسی مملکت میں رہنے والوں کو عدالتی نظام پر کیسے اعتماد ہو سکتا ہے؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں ایسا عدالتی نظام موجود ہے جس میں برسوں مقدمات کے فیصلے نہ ہونے پائیں؟ مقدمات کے فیصلوں کی تاخیر کی ذمہ دار صرف عدلیہ نہیں وکلا برادری بھی ہے۔ اگر وکلاء حضرات مقررہ تاریخوں پر باقاعدگی سے پیش ہوتے رہیں تو عدالتوں کے لئے ممکن نہیں وہ فیصلوں میں تاخیر کریں لہذا انصاف کے حصول میں تاخیر کا ذمہ دار صرف عدلیہ کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیلیں سائلین کی آخری امید ہوتی ہیں۔ اگر اعلیٰ عدالتوں سے اپیلیں مسترد ہو جائیں تو سائلین کے لئے اور کوئی Remedyنہیں رہ جاتی ہے۔ ایک عرصے سے اعلیٰ عدلیہ اور سیاسی حلقوں میں بعض قانونی پہلوئوں پر بحث مباحثہ جاری تھا آیا سپریم کورٹ جن کیسوں میں سوموٹو لیتی ہے یا آئین کی دفعہ 184(3)کے تحت جن کیسوں کی سماعت کرتی ہے ان میں سائلین کو اپیل کا حق ہونا چاہیے یا نہیں۔ اتحادی حکومت نے سوموٹو اور آئین کی دفعہ 184(3)کے کیسوں میں سائلیں 188کے تحت اپیلوں کا حق دے دیا۔ سپریم کورٹ نے ریویوآف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے یہ ایکٹ اختیارات سے تجاوز کرکے بنایا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے 19جون کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جس کا فیصلہ اسمبلی کی تحلیل ہونے کے ایک روز بعد جاری کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ سے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کے آئندہ وزیراعظم بننے کا امکان کم ہی رہ گیا ہے جس کے بعد وزیراعظم کی دوڑ میں میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو رہ گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے پارلیمنٹ نے اس ابہام کو دور کرنے کے لئے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023منظور کرنے کا مقصد آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت عدالت عظمیٰ اگر کسی معاملے کا سوموٹو نوٹس لیتی ہے یا آئین کے اس آرٹیکل کے تحت پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی جاتی ہے اس میں کارروائی کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ جو حکم یا فیصلہ کرتی ہے اس کے خلاف متاثرہ فریق کو آئین کے آرٹیکل 188کے تحت نظرثانی یا ریویو داخل کرنے کا آئینی حق حاصل ہو۔ سابقہ تجربات کے پیش نظر یہ بات بالکل واضح ہے کہ ریویو میں عدالت صرف اسی صورت میں اپنے پہلے سے جاری کردہ حکم یا فیصلہ میں کوئی تبدیلی کر سکتی ہے فیصلے میں کوئی واضح اور بنیادی غلطی ریکارڈ پر پوری طرح عیاں ہو رہی ہو اس کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہے کہ 95فیصد ریویو کی درخواستیں مسترد کر دی جاتی ہیں۔ چونکہ آرٹیکل 188میں واضع کردہ ریویوکی داد رسی اصل میں ان معاملات میں مہیا کی گئی ہے جو ماتحت عدالتوں اور ہائی کورٹس سے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ پہنچتے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے دو یا تین فیصلہ جات اس معاملے میں ریکارڈ پر موجود ہوتے ہیں لیکن آرٹیکل 184(3)میں سوموٹو لینے کی صورت میں سپریم کورٹ کا جاری کردہ فیصلہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ ہوتا ہے اور ایسا فیصلہ اپیل یا نگرانی کی چلنی سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ نہیں پہنچتا۔ چنانچہ اس قانونی کمزوری اور قانون سے متعلقہ حلقوں کے دیرینہ مطالبے کے پیش نظر پارلیمنٹ نے مذکورہ قانون کا نفاذ کرتے ہوئے آرٹیکل 184(3)کے فیصلے سے متاثرہ فریق کو یہ داد رسی مہیا کی تھی کہ ایسے کسی فیصلے کے خلاف آرٹیکل 188کے تحت دائر کردہ ریویو کا دائرہ کار کسی دوسرے ریویو جو آرٹیکل 185کے اپیل کے دائرہ اختیار سے پیدا ہوا ہو مختلف حیثیت کی گئی اور قانونی طور پر ایسی ریویو کی اپیل کا درجہ دیتے ہوئے یہ بھی قرار دیا گیا کہ ایسا ریویو ایک بڑا بینچ سنے گا اور حقائق اور قانونی نقاط کی ازسر نو سماعت کا اس بڑے بینچ کو اختیار حاصل ہو گا۔ یہ بھی مذکورہ قانون میں شامل کیا گیا کہ 184(3)سے متاثرہ فریق اگر ریویو پٹیشن دائر کرتا ہے تو اس پر یہ قدغن بھی نہیں ہوگی کہ وہ صرف اسی وکیل کے ذریعے اپیل دائر کرے گا جس نے ابتدائی سماعت میں اس فریق کی نمائندگی کر چکا ہو۔ قانونی حلقوں نے اس قانون کے حسن قباحت کی بات کرتے ہوئے اس وقت کی ضرورت اور انصاف کے تقاضوں کے ہم آہنگ قرار دیا تھا۔ یہ حلقے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اس رائے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ اسے آئین اور قانون کی وہ پشت پناہی حاصل نہیں ہے جو اس کی قبولیت کا درجہ حاصل کرنے کے لئے مطلوبہ جواز فراہم کر سکے۔ سپریم کورٹ سے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023کالعدم قرار دینے کے بعد آئین کی آرٹیکل 184(3)کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی دائر کرنے کا باب وقتی طور پر بند ہو گیا ہے۔ اب یہ نئی منتخب ہونے والی حکومت پر منحصر ہے وہ اس معاملے پر کیا پیش رفت کرتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے اصولی طور پر آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت پٹیشن پر فیصلے کے خلاف نظرثانی کا حق تو ہونا چاہیے جیسا کہ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں اپیل کے بعد متاثرہ فریق کو نظر ثانی دائر کرنے کا حق دیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button