Columnمحمد مبشر انوار

تجربہ

محمد مبشر انوار( ریاض)
مثل مشہور ہے ضرورت ایجاد کی ماں ہے البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ بسا اوقات انسان، معاشرہ مسلمہ رائج اصولوں کے ہوتے ہوئے بھی نت نئے تجربات سے گریز نہیں کرتا اور ایسے ہی تجربات میں کوئی نہ کوئی نئی ایجاد ایسی سامنے آ جاتی ہے جو بنی نوع انسان کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ یوں معاشرے مسلسل ترقی کی منازل طے کرتے رہتے ہیں لیکن ان تجربات میں عموما نقصانات کے خدشات زیادہ رہتے اور انسان ان نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی اپنے تجربات کرتا رہتا ہے۔ لیبارٹری میں کئے جانے والے تجربات کا نقصان البتہ نسبتا کم ہوتا ہے جبکہ ایسا کوئی بھی تجربہ جس کے نقصانات کا اندازہ نہ ہو یا جس کا ادراک پہلے سے نہ ہو، ایسے تجربات میں نقصان کا خدشہ بہرطور کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح معاشرتی ترقی میں بھی انسان صدیوں سے نت نئے تجربات کرتا چلا آیا ہے اور بالآخر ایک مہذب معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکا ہے، جہاں انسان تو انسان جانوروں، درندوں پرندوں تک کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن یہ ان مہذب معاشروں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ جہاں قوانین کا اطلاق بلاامتیاز سیاسی و سماجی حیثیت کے ہوتا ہے، جہاں انسانی حقوق کی ترجیح کسی بھی شخصی انا یا ضد سے زیادہ ہے۔ ایسے مہذب معاشروں میں عدل و انصاف و انسانی حقوق کی ضمانت وہاں کا آئین اور قوانین فراہم کرتے ہیں، جن پر عملدرآمد کے لئے ریاستی مشینری بلاامتیاز و سیاسی اثر و رسوخ بروئے کار آتی ہے، ظالم کے ہاتھ روکے جاتے ہیں جبکہ مظلوم کی داد رسی ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ ہنوز ایسی تہذیب سے کوسوں دور ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ سابقہ دور حکومت میں تشکیل پانے والے قوانین نے عالمی برادری میں ہمارا سر شرم سے جھکا دیا ہے کہ ان قوانین کو بناتے ہوئے، معاشرے کی بجائے چند جرائم پیشہ افراد و خاندانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی گئی اور اس کی آڑ میں حکمران خاندان کے خلاف زیر تفتیش مقدمات میں بریت ممکن ہوئی۔ یہ تعصب، جانبداری تو ایک طرف رہا اس سے بھی کہیں بڑھ کر جو باعث ندامت امر ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری اقدار میں رہتے ہوئے، برسراقتدار حکومت اور ریاستی مشینری مقررہ وقت پر انتخابات کا ڈول ڈالتی ہیں، فریقین سیاسی عمل اور ریاستی مشینری پر اعتماد کرتے ہیں، انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہیں اور اگلی مدت تک کے لئے عوامی ایشوز پر، حکومت و اپوزیشن، اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں، تاوقتیکہ نئے انتخابات میں عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے نئے حکمرانوں کا انتخاب نہ کر لیں۔ جمہوریت میں یہی سکہ رائج الوقت ہے اور دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن پاکستانی معاشرہ بلکہ ارباب اختیار میں ہوس اقتدار اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ وطن عزیز میں ہونے والے کسی ایک انتخاب کو بھی سیاسی فریقین نے تسلیم نہیں اور ہمیشہ فریق مخالف پر دھاندلی، زور زبردستی کا الزام دھرا ہے اور دوسری طرف اقتدار منتقل کرنے والوں نے بھی اکثریتی جماعت کا حق حکمرانی تسلیم نہ کرتے ہوئے، پس پردہ کھیل رچاتے ہوئے، ملک کو دولخت کرنا گوارا کر لیا مگر اپنی ہوس اقتدار کے سامنے سرنگوں نہیں کیا۔
اس پس منظر میں پاکستان میں انتخابی عمل کے لئے نگرانوں کا حل نکالا جو تاحال جاری ہے لیکن بدقسمتی سے نگرانوں کی کارکردگی بھی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہے اور نگرانوں کے کروائے گئے انتخابات میں بھی فریقین تعصب اور جانبداری کا الزام عائد کرتے ہیں۔ اس کے باوجود مزے کی بات یہ ہے کہ سیاسی فریقین انتخابی نتائج پر اپنے شدید تحفظات کے باوجود، اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں لیکن روتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں، ایسی صورت خال ہی کہیں اور دکھائی دیتی ہے۔ نگران حکومتوں کا خیال ایک لحاظ سے ٹھیک تھا کہ کسی بھی فریق کو اعتراض کا موقع نہ ملے لیکن ہمارے سیاسی قائدین ھل من مزید سمجھیں یا اس کو دبائو کا طریقہ کار کہ مسلسل شکوے شکائتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں البتہ یہاں اس حقیقت سے بھی قطعی انکار نہیں کہ اس عرصہ میں سیاسی جماعتوں نے ریاستی مشینری کے اندر اپنے وفاداروں کی ایک فوج ظفر موج تیار کر لی ہے اور یوں ایک غیر اعلانیہ گٹھ جوڑ موجود ہے، جو ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ ساتھ پشت پناہی بھی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس گٹھ جوڑ کا نتیجہ یہ ہے کہ ریاست داخلی سیاسی محاذ پر ایک جگہ ہی رکی نظر آتی ہے جبکہ دیگر معاملات کہ جہاں ریاست کو اقوام عالم سے بات چیت کرنا ہے، ریاستی مفادات کے حوالے سے معاملات طے کرنے ہیں، وہاں ایک غیر سیاسی مگر مستقل قوت ان معاملات کو طے کرتی نظر آتی ہے، اقوام عالم بھی اسی طاقت سے مذاکرات کرتی دکھائی دیتی ہیں اور اسی کی پالیسی میں تسلسل نظر آتا ہے۔ پس پردہ بغور دیکھیں تو یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والی حالیہ تبدیلیاں اور دوست ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے پیچھے اسی طاقت کا کردار نظر آتا ہے، جو پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے باعث چین کے سر سجا ہے۔ خارجہ تعلقات کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ معاشی معاملات میں کسی قدر بہتری یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ دیوالیہ سے بچنے میں بھی اسی طاقت کا کردار رہا ہے لیکن بہرطور یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ یہ طاقت تمام تر طاقت کے باوجود بھی ریاست سے کرپٹ عناصر کی سرکوبی میں کامیاب نظر نہیں آتی بلکہ بدقسمتی سے اس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ بیرون ملک سے حاصل ہونے والے قرضہ جات ہوں یا امداد ہو، اس کا مصرف قطعا پیداواری منصوبوں میں نہیں بلکہ ایسے منصوبے تشکیل دئیے جاتے ہیں جو سطح زمین پر تو نمایاں ہوں لیکن ان سے نہ عوامی مشکلات دور ہوں اور نہ ہی ان سے ذرائع آمدن میں اضافہ ممکن ہو البتہ ایسے منصوبے تشکیل دینے والوں کی ذاتی معیشت ضرور ترقی کرے۔
اس پس منظر میں پاکستان آئینی ریاست سے کوسوں دور کھڑا نظر آتا ہے کہ کئی ایک مواقع پر آئینی ضرورت کو دھتکارتے ہوئے، معذرت کے ساتھ کہ حقیقت اس سے بھی کہیں زیادہ ہے، من مرضی کی گئی ہے حتی کہ عدالت عظمی کے احکامات کو بھی پرکاہ کی حیثیت نہیں دی گئی۔ یوں واضح طور پر اظہار کر دیا گیا ہے کہ پاکستان میں آئین کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ حکم وہی ہے جو ارباب اختیار کی منشا ہو گی، عدالت عظمیٰ کی توہین عدالت پر خاموشی اور بعد ازاں باقاعدہ درخواست پر شنوائی سے گریز تاوقتیکہ حکومت مدت پوری نہ کر لے، کس امر کی نشاندہی کر رہی ہے، اس کے اظہار کا مجھ میں حوصلہ نہیں کہ کمزور پر کارروائی آسانی سے ہو جاتی ہے اور طاقتوروں کے خلاف قانون کی حرکت بہت سست ہے۔ بہرکیف شنید ہے کہ توہین عدالت پر کارروائی شروع ہونے جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں کون کون سی شخصیات قصوروار ٹھہرائی جاتی ہیں اور ان کو کیا سزا ملتی ہے، اس کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی لیکن کیا جو قصوروار ٹھہرائے جائیں گے، سزاوار ٹھہرائیں جائیں گے، وہ سزا انہیں ملے گی بھی یا نہیں؟یہ ملین ڈالر سوال اپنی جگہ رہے گا کہ اس کی زد میں واضح طور پر جو شخصیات آتی ہیں، ان میں سابق وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور الیکشن کمیشن سکندر سلطان راجہ ہوں گے، کیا انہیں سلاخوں کے پیچھے یا نااہل کیا جا سکے گا؟ اہم ترین بات تو یہ ہے کہ یہ وزارتیں اور الیکشن کمیشن ایک بار عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑا کر مثال تو بنا چکے ہیں، مستقبل قریب میں اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ممکن ہے کہ آئین کے مطابق نئے انتخابات میں، کسی بھی شخصیت کی انا و ضد و منشا کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے تاخیر کر کے آئین کی خلاف ورزی و آئین شکنی کی جا سکے؟ بدقسمتی سے شنید یہی ہے کہ نگران حکومت کے قیام کے ساتھ ہی یہ محسوس کروایا جا رہا ہے کہ انتخاب سے پہلے کڑا احتساب کیا جائے، تسلیم کہ یہ کڑا احتساب وقت کی سخت ضرورت ہے لیکن کیا اس احتساب کے لئے آئین شکنی ضروری ہے؟ کیا کوئی منتخب حکومت بلاامتیاز احتساب نہیں کر سکتی؟ کیا ریاستی مشینری فقط ریاست کی وفادار رہتے ہوئے ریاست لوٹنے والوں کے خلاف بروئے کار نہیں آسکتی؟ سوالات تو بہت جنم لیتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ایسی سوالات ہم جیسوں کو محب الوطن نہیں رہنے دیتے تاہم خواہش ہے کہ ارباب اختیار کا یہ تجربہ کہ نگرانوں کو اپنے دائرہ کار سے باہر جاتے ہوئے، آئین کی منشا کے خلاف نئے انتخابات سے پہلے واقعتا؍ حقیقتا کڑا و بلا امتیاز احتساب کرنے میں کامیاب کرے، فقط سیاسی مخالفوں کے لئے نہ ہو اور نہ ہی دکھاوے کے لئے چند حریفوں کو تنگ کرنے والوں کو کسا جائے، پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button