ColumnFayyaz Ahmad

باقی جائے سب بھاڑ میں

فیا ض احمد وڑائچ
کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ لفظ پولیس کن الفاظ کا مخفف یا مجموعہ ہے اور اس کا کیا مطلب بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کا زندگی میں پولیس سے واسطہ بھی پڑتا ہے لیکن بہت کم لوگ ہی ایسے ہیں جنہوں نے لفظ پولیس کی تعریف سمجھنے کی کوشش کی ہوگی، اگر ہم ان الفاظ کے الگ الگ معانی لکھیں تو وہ کچھ یوں بنیں گے۔(Polite)خوش اخلاق ،(Obedient)فرمانبردار،(Loyal)فرض شناس(Intelligent)عَقل مند (Courageous)دلیر (Efficient)قابل ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے نرم اور شائستہ رویے سے کام لیا جاتا ہے، کیونکہ ہر وقت کی بلاوجہ سختی سے بچے ضدی اور چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور اسی مثال کو اگر محکمہ پولیس کیلئے لاگو کیا جائے تو یقینا غلط نہیں ہوگی کیونکہ ان کیلئے ہر طرف سے ہر وقت کرپٹ، بے ایمان اور رشوت خور کی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں جس سے پولیس اہلکاروں کے رویے میں سختی اور چڑچڑا پن عام فہم بات بن کر رہ گئی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پولیس اہلکاروں کے رویوں میں کڑواہٹ کی اصل وجہ معاشرے میں ہر طرف سے ملنے والی نفرت ہے جس کی وجہ سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید سنگینی کا باعث بن رہے ہے۔ موجودہ صورتحال میں ہماری پولیس کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ نفسیاتی تربیت ہے۔ سب سے پہلے انہیں یہ باور کروایا جائے کو وہ عوام ہی ہیں اور عوام ہی کیلئے ہیں۔ وہ ایک پل ہیں ریاست اور عوام کے درمیان میل ملاپ اور ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے ہے مگر یہ پہل کریں گا کون؟ یہاں مجھ کو عظیم چینی مفکر کنفیوشس کی کہی ہوئی بات شدت سے یاد آرہی ہے کہ آنکھ والا وہ ہے جو اپنے آپ کو دیکھے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تقریباً ہر شخص اندھا ہے ہم لوگ صرف دوسروں کو ہی برا بھلا کہنا جانتے ہیں، کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ پولیس کو رشوت کی لت لگانے میں معاشرے کے شرفا کا اہم کردار رہا ہے۔ پولیس کو بنانے کا مقصد ایسی ٹیم کا قیام تھا جو نہ صرف قوانین پر عمل درآمد کروا سکے بلکہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو بھی یقینی بنائے، مگر ہمارے معاشرے میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ پولیس کرپٹ نہیں، دراصل پورا معاشرہ کرپٹ ہے، جو اپنے کام نکلوانے کیلئے ہر جائز اور ناجائز راستہ اپناتا ہے۔ پولیس کے کرپٹ کردار کے اصل ذمے دار ہم خود ہیں۔ چلچلاتی دھوپ میں چوراہے پر کھڑا ٹریفک وارڈن جب کسی شہری کو روک کر لائسنس یا ضروری کاغذات طلب کرتا ہے تو حیلے بہانوں سے کام لیا جاتا ہے۔ اکثریت کی کوشش ہوتی ہے کہ منت سماجت سے ہی کام بن جائے، لیکن اگر پھر بھی بات بنتی مشکل دکھائی دے تو بند مٹھی کے سلام کا آخری حربہ اپنایا جاتا ہے۔ کرپشن اور بے ایمانی کا راگ الاپنے والی قوم کی اس حالت پر صرف ترس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہر شخص نجانے کس جلدی میں ہے، پورا معاشرہ اسی دوڑ میں ہے کہ بس جلد سے جلد ان کا کام ہوجائے، باقی جائے سب بھاڑ میں، اس قوم میں انتظار کرنے کی عادت بالکل ختم ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر قانونی کام میں رشوت لینا اور دینا تو عام سی بات بن چکی ہے، ہر روز ہزاروں افراد پولیس سمیت ہر سرکاری محکمے میں اپنا جائز و ناجائز کام کروانے کیلئے پیسوں کی پیشکش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ملک کی پولیس کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں، لیکن بدقسمتی یہ بھی ہے کہ پولیس کے نظام میں سیاسی مداخلت کا زہر مکمل طور پر سرایت کر چکا ہے، ہمارے ملک کی اشرافیہ اپنا ہر جائز و ناجائز کام کروانے کیلئے پولیس کو استعمال کرتی ہے۔ اس ملک میں پولیس کی نوکری سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے، میرے کئی احباب اس شعبہ میں ملازمت کر رہے ہیں۔ جب کبھی بھی ان سے ملاقات ہوئی، شدید پریشانی اور اضطراب میں مبتلا نظر آئے۔ ایک کانسٹیبل کو ہر روز 12سے 16گھٹنے ڈیوٹی کرنا ہوتی ہے۔ اب انسانی فطرت ہے کہ جب انسان کو ذہنی سکون میسر نہ ہو تو وہ بے چینی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور سکون کی عدم دستیابی معمول بن جائے تو اس کا نفسیاتی مریض بننا یقینی ہے۔ گزشتہ دنوں تھانے کی سطح پر پولیس کرپشن کا ذکر چھڑا تو ایک اہلکار گلہ کرنے لگا کہ پولیس اتنی کرپٹ نہیں ہے لیکن اس کی کرپشن دوسروں کو نظر آ جاتی ہے۔ پولیس افسران گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تھانہ کلچر نے پولیس کے محکمے کو بدنام کر رکھا ہے، ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پولیس کے سارے مسائل کی وجہ کرپٹ تھانیدار اور اہلکار ہیں۔ لیکن جب ایک تھانیدار سے پولیس کرپشن پر بات ہوئی تو اس کا تجزیہ تھا کہ اگر ایس پی اور اس سے اوپر والے افسران کو کسی طرح ہدایت مل جائے تو تھانہ کلچر بڑی حد تک تبدیل ہو جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پولیس کے نظام میں کافی اصلاحات کا ہونا باقی ہیں جوکہ محض اس لیے نہیں کی جا رہیں کیونکہ اس سے اشرافیہ اور ان کے حواری دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں، نظام پولیس میں بھی چند اہم اصلاحات کا نفاذ بہت ضروری ہے۔ پولیس اہلکاروں کے کام کے اوقات کو 16گھنٹوں سے کم کیا جانا چاہیے۔ 8گھٹنے کی شفٹ اگر ممکن نہ ہو تو اوور ٹائم سے ملنے والی رقم تمام دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا کر سکتی ہے۔ نظام پولیس میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ نئی بھرتیوں کا قیام بھی انتہائی اہم ہے۔ اس سے کام کا بوجھ نہ صرف کم ہوگا بلکہ جرائم کی بڑھتی شرح پر قابو پانا بھی مزید آسان ہوجائے گا۔ پولیس اور عوام میں دوریوں کو کم کرنا بلکہ مسائل کے پیچھے چھپی اصل وجوہات کو جاننا نہایت ضروری ہے، پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں، جبکہ اخراجات کافی زیادہ ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ادارہ خود ہی پولیس اہلکاروں کو رشوت لینے پر مجبور کرتا ہے۔ کرپشن پر قابو پانے کیلئے حکمران طبقے اور انتظامیہ کیلئے یہ معاملہ انتہائی غور طلب ہے۔ معاشرے میں جاری پولیس کی تذلیل کو بند کیا جانا چاہیے۔ والدین اپنے بچوں میں پولیس کے بارے میں منفی تاثر ختم کرنے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ پولیس اہلکار بھی اتنے ہی احترام کے مستحق ہیں جتنا کہ معاشرے کا کوئی اور فرد۔ حکام کی جانب سے عوام دوست میٹنگز کا انعقاد کیا جائے، جس سے نہ صرف پولیس اور عوام کے درمیان خلا کو پر کرنے میں مدد مل سکے بلکہ پولیس اہلکاروں کی حوصلہ افزائی بھی ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button