ColumnNasir Naqvi

راشد محمودایک نگینہ

ناصر نقوی

دنیائے اداکاری و صدا کاری میں راشد محمود ایک نگینہ نہیں، منفرد اور قیمتی نگینہ ہے۔ چار دہائیوںسے زیادہ جہد مسلسل سے اس نے اپنا نام نہیں کمایا بلکہ ریڈیو اور پاکستان ٹی وی کی پہچان بنا۔ حقیقت میں یہی اس کے روحانی مسکن ہیں گھر تو وہ صرف چند لمحے سکون کی نیند کی خاطر جاتا ہے لیکن صبح ہوتے ہی غم روزگار میں ایک ’’ مہم جو‘‘ کی طرح پْرعزم انداز میں نکلتا ہے۔ لوگ اس سے آٹو گراف لیتے ہیں اس کے ساتھ سیلفی بنواتے ہیں۔ صلاحیتوں کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں اور وہ ’’ تھینک یو‘‘ کہہ کر آگے اس لیے بڑھ جاتا ہے کہ وہ صرف اپنے ’’ من مندر‘‘ کا پجاری ہے کسی کے باپ کا ملازم نہیں، بات بہادری کی ہے لیکن کام جان جوکھوں کا ہے کیونکہ اس شعبہ فنون لطیفہ کا سب سے بڑا ’’ لطیفہ‘‘ یہ ہے کہ یہاں ہر روز پانی پینے کے لیے نیا کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ یعنی معاشرہ عزت، شہرت، ادب و احترام تو دیتا ہے لیکن جینے کے لیے سکھ سے دو وقت روٹی دینے کے لیے تیار نہیں اور ہم مقابلہ ہالی وڈ اور بالی وڈ سے کرتے ہیں۔ معاشرے کی تضاد بیانی اس قدر عروج پر ہے کہ اپنے ’’ لیونگ لیجنڈ‘‘ کے سو نخرے اٹھانے، خاطر تواضح کرنے اور فیملی کے ساتھ فوٹو سیشن کروانے کے بعد بھی انہیں اچھے ناموں سے یاد نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ’’ سپر سٹارز‘‘ سے پیار کرنے والے بھی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان حالات میں بھلا آرٹ اور آرٹسٹ کی پذیرائی کیسے ممکن ہے؟ بالی وڈ اور ہالی وڈ میں فلم، تھیٹر اور میڈیا سے وابستہ آرٹسٹ، ڈائریکٹر اور لکھاری کو خصوصی مقام دیا جاتا ہے۔ میں نے اسلامی جمہوریہ ایران میں انقلاب ایران کے بعد سابق صدر ہاشمی رفسنجانی کو یہ کہتے خود سنا کہ آرٹ ، ادب اور ثقافت سے جڑے لوگ قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہ ایسے ڈاکٹرز اور سرجن ہوتے ہیں جو زبان و کلام سے ہی نہیں حرکات و سکنات سے بیمار معاشرے کے مریضوں کا نہ صرف علاج کرتے ہیں بلکہ ایسے رہبر ہوتے ہیں جو اپنی خداداد صلاحیتوں سے فلاحی، معاشروں کے استحکام کا باعث بنتے ہیں وہ دنیا بھر سے آئے ہوئے فجر ایوارڈز فیسٹیول کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے آرٹسٹوں اور لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور میں اس تقریب میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی انقلاب کی ریاست کا سربراہ آرٹ اور آرٹسٹوں کے بارے کیا کچھ کہہ رہا ہے اور ہمارے پاکستان میں جو نہ اسلامی ہے نہ جمہوری وہاں ’’ آرٹ اور آرٹسٹوں‘‘ کو عجیب و غریب نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے جیسے کوئی مجرم ہو؟ یہی نہیں ہمارے وہ ادارے جن کا قیام ہی’’ آرٹ اور آرٹسٹوں‘‘ کی پذیرائی کرنا ہے وہ بھی فنڈز اور مراعات کی موجودگی میں آرٹسٹ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں حالانکہ آرٹ کونسلوں اور نیشنل کونسل آف دی آرٹس اسلام آباد کی اولین ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے ان اداروں میں بھی ’’ آرٹ لوورز‘‘ کی بجائے اکثر اوقات انتظامی امور کے سفارشی ٹھیکیدار تعینات کر دئیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی ایمرجنسی یعنی مشکل حالات میں پھنسے آرٹ سے وابستہ لوگوں کی فوری مدد ممکن نہیں ہوتی، ضرورت مند، غریب اور سفید پوش لوگ چکر لگاتے لگاتے تھک جاتے ہیں لیکن سسٹم انہیں ریسکیو نہیں کرنے دیتا۔ تاہم کبھی کبھار کوئی خداترس، فن و فنکار دوست ذمہ دار تعینات ہو جائے تو یہی ادارے قدرت کا تحفہ بن جاتے ہیں۔
راشد محمود ایک نگینہ بڑے باپ کا بڑا فنکار بیٹا ہے۔ اسے خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ سرکاری ایوارڈ کے علاوہ اَن گنت نجی تنظیموں کے ایوارڈ بھی اسے دئیے گئے اس نے برسوں فن و ثقافت کے تمام شعبوں میں یکساں خدمات انجام دیں۔ بہترین کرداروں کی ادائیگی سے اس کا چہرہ کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن اس کی منفرد آواز صداکاری میں بھی ایسی یکتا کہ ہر کوئی اسے پہچان لیتا ہے۔ ایسا ہو بھی کیوں نا؟ ٹی وی، ریڈیو، تھیٹر اور فلم پر اس نے فتوحات ہی ایسے کی ہیں کہ اسے کوئی فراموش نہیں کر سکتا۔ لیکن ممتاز شاعر نازش کاشمیری کا یہ نگینہ برسوں کی محنت اور جدوجہد میں ان دنوں صاحب فراش ہے۔ پْرعزم جواں جذبوں کا مالک راشد محمود 2015ء سے 2023ء تک چار مرتبہ فالج کا شکار ہوا۔ ہر بار بڑی جواں مردی سے بیماری کا سامنا کیا لیکن اس مرتبہ کچھ مایوسی کا شکار لگتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو ’’ چھپے دشمن‘‘ فالج کے بار بار حملوں نے اس کی جسمانی کمزوری سے نقصان پہنچایا، دوسرا چند سال پہلے قدرت نے جواں سال بیٹا واپس لے لیا تھا۔ یہ ایسا دلخراش واقعہ تھا کہ بیٹے والا بھی پریشان ہو جائے۔ دونوں باپ بیٹے آمنے سامنے بیٹھے مستقبل کے سنہرے خواب دیکھ رہے تھے کہ اچانک بیٹے نے درد محسوس کیا، باپ کو بتایا، باپ نے فوراً اسے سنبھالنے کی کوشش کی لیکن وہ ہاتھوں میں ہی اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اس نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ، کہ مالک کی رضا کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔ اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے ’’ مال و جان کا مالک اپنا مال واپس لے گیا اس کی امانت تھی ‘‘۔ پھر اس نے اپنی زندگی کی گاڑی کھینچی، کبھی پسنجر کی طرح، کبھی تیزگام کی طرح، لیکن کرونا ہی نہیں، ریڈیو ، ٹی وی کی پروڈکشن میں کمی اور فلم ڈراموں کی کراچی منتقلی نے بھی دوسرے فنکاروں کی طرح اسے بھی نقصان پہنچایا۔ فیصل قریشی، وسیم عباس، اورنگ زیب لغاری، فردوس جمال، آغا علی، سہیل اصغر اور بہت سے دوسرے کراچی ہجرت کر گئے لیکن ڈرامہ سیریل ’’ شاہین‘‘ کی کامیابی کے بعد راشد محمود لاہور آئے تو پھر کراچی جانے کے لیے رضا مند نہ ہوئے اور فالج کے تابڑ تور حملوں نے اسے پریشان کر دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اللہ کے حکم اور اپنے پرستاروں کی دعائوں سے میں ایک مرتبہ پھر صحت یاب ہو کر اپنی معمول کی زندگی میں لوٹ آئوں گا لیکن موجودہ حالات میں پہلی بار اداس اس لیے ہوں کہ گزشتہ تین حملوں میں تو میرے بچوں کی ہمت اور اپنی جمع پونجی سے بات بن گئی تھی اس مرتبہ شو بز صحافیوں نے اپنی دوستی نبھاتے ہوئے مجھے ایسے خبروں کا عنوان بنایا کہ نگران وزیراطلاعات عامر میر نے فون کر کے میری خیریت دریافت کی اور پھر حکومت پنجاب کی جانب سے دو لاکھ کا چیک بھی بھجوا دیا۔ ان کی اس محبت کا شکر گزار ہوں لیکن تکلیف یہ ہوئی کہ میری چالیس سالہ خدمات کی قدر صرف دو لاکھ نکلی ، اس مہنگائی اور بیماری کے حالات میں یہ تو اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں، مہنگی ادویات کے ساتھ مجھے فزیکل ایکسر سائز کے لیے فزیو تھراپی کے مسائل درپیش ہیں وہ کہتے ہیں میری ساری زندگی اسی دشت کی سیاہی میں گزری، میں کبھی بھی کسی ادارے سے امداد کا طلبگار نہیں رہا۔ عامر میر صاحب کی نوازش ہے کہ انہوں نے میرے علاج معالجہ کی یقین دہانی کرائی لیکن دو لاکھ کا چیک مجھے ڈس رہا ہے۔ یہ ان کی امانت ہے اسے خرچ نہیں کروں گا بلکہ اسے واپس کر دوں گا میں اسے عزت افزائی نہیں سمجھتا۔
راشد محمود کا گلہ یقینا خود داری کے زمرے میں آتا ہے، ’’ لیونگ لیجنڈ‘‘ کے لیے دو لاکھ روپے کی رقم کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ میں جب آرٹسٹ فنڈز کمیٹی کا رکن تھا تو ہم نے لاہور آرٹس کونسل کی جانب سے پانچ سے دس لاکھ تک کے چیک ایسے فنکاروں کے علاج کے لیے بھی دئیے تھے جنہیں شائد ان کے محلے دار بھی نہ جانتے ہوں۔ لاہور آرٹس کونسل اور نیشنل کونسل آر ٹس ہی نہیں، ریڈیو ٹی وی کے پاس بھی آرٹسٹوں کی فلاح اور مشکل حالات کے لیے فنڈز موجود ہوتے ہیں۔ دراصل کمی سسٹم اور طریقہ کار کی ہے۔ راشد محمود کے لاکھوں نہیں کروڑوں پرستار ہیں ان کی جاندار اور حقیقی اداکاری کو ہمیشہ سراہا گیا۔ ان کے ڈراموں سے کروڑوں کی آمدنی بھی ہوئی لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ برسوں کی خدمات کے بعد بھی اپنے فنکاروں کی مصیبت کے لمحات میں کوئی سرپرستی کرنے کے لیے تیار نہیں، ذرا سوچیں ’’ اگر آرٹ اور آرٹسٹ‘‘ کی پذیرائی کے لیے بنائے جانے والے ادارے ان ہنر مندوں کو اپنا ’’ پارٹ اینڈ پارسل ‘‘ سمجھتے تو کبھی ایسا ہوتا، ہرگز نہیں۔ راشد محمود کی بیماری پر اگر ریڈیو، ٹی وی، آرٹس کونسل اور نیشنل کونسل آف دی آرٹس اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرتے تو وہ وزارت اطلاعات کا دو لاکھ کا چیک بھی اپنی اہمیت کا حامل بن جاتا۔ دعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس خوبصورت نگینے کو صحت کاملہ دے اور وہ اپنے پرستاروں کی دعائوں سے جلد صحت یاب ہو کر دوبارہ پہلے کی طرح اداکاری اور صدا کاری میں چمکتا دکھائی دے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button