ColumnNasir Naqvi

حسین ؓ میرا، حسینؓ تیرا، حسینؓ سب کا

ناصر نقوی

اسلامی کیلنڈر کی ابتداء محرم الحرام سے ہوتی ہے اور چاند کے افق پر نمودار ہوتے ہی فضاء سوگوار ہو جاتی ہے کہ اس مہینے کے پہلے عشرے میں 14سو سال پہلے امت نے آل نبیؐ اور اولاد علی ؓ پر ایسے ظلم ڈھائے کہ وہ غم آج بھی روزِ اوّل کی طرح نمایاں ہے، اس غم کو پوری امت مسلمہ اپنے اپنے مسلکی اعتبار سے مناتی ہے۔ پھر بھی اس غم کو منانے پر کسی حد تک اعتراض ہے، کچھ کا دعویٰ ہے کہ انہیں طریقہ کار پر اختلاف ورنہ غم حسینؓ سے کسی کو چھٹکارا حاصل نہیں۔ تاریخ اسلام کا یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ایک سوچ اور بھی ہے کہ یہ دو شہزادوں کی جنگ تھی، حق و باطل کی نہیں لیکن کسی بھی فقہ اور فرقے سے سند نہیں ملی، نواسہ رسولؓ اور جنت کے نوجوانوں کے سردار کو حقیقت حال سے مکمل واقفیت تھی، جب ہی تو انہوں نے اپنے ارد گرد کے ماحول کو سمجھتے اور جانتے ہوئے حج کو عمرے میں تبدیل کر کے ’’ خانہ خدا‘‘ سے دور جانے کا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ امام بیت اللہ شریف کی عظمت کے حوالے سے وہاں خون خرابہ ہرگز نہیں چاہتے تھے۔ دین حق اسلام اور علم اور عمل کا مذہب ہے لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہماری اکثریت دنیا داری اور اس کی رنگینیوں میں یوں گم ہوئی کہ اپنی روایات اور اسلاف کو بھول گئی اور یوں امت علم اور عمل سے بہت پیچھے رہ گئی جبکہ غیر مسلموں نے ’’ علم اور عمل‘‘ کی بنیاد پر ہی ترقی اور خوشحالی کے راستے ڈھونڈے بلکہ زمین سے نکل کر خلائوں کا سفر کر کے چاند تک پہنچ گئے۔ حالانکہ اسلامی تاریخ کے سنہرے اوراق چیخ چیخ کر اہل ایمان کو دنیا کی تسخیر کی دعوت دے رہے ہیں لیکن علم و عمل کی دوری نے ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ مسجد و محراب و منبر ہمارے اتحاد و اتفاق کی بنیاد تھے، لہٰذا دشمنوں نے اسی کو نشانہ بنایا اور ہم گمراہ ہو گئے، حالانکہ پیغام حق نسخہ کیمیا میں کہہ رہا ہے کہ ’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو‘‘، ایک دوسرے میں تفرقہ نہ ڈالو، ورنہ برباد ہو جائو گے۔ حضور اکرمؐ نے ایک لازوال سنہری اصول بھی سکھایا کہ تم کسی کے جھوٹے خدا کو بُرا بھلا بھی نہ کہو ورنہ وہ تمہارے سچے لاشریک، خدا پر بہتان تراشی کرے گا۔ اسی لیے ایک ’’ سکہ بند‘‘ فارمولا ہے کہ اپنا مذہب و مسلک چھوڑو نہ اور دوسرے کو چھیڑو ۔۔۔ ان تمام باتوں کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ذمہ دار انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے ’’ فساد‘‘ برپا کر دیتے ہیں، ہم سب سارا سال اکٹھے رہتے، اٹھتے بیٹھتے ہیں لیکن جوں ہی محرم کا چاند دکھائی دیتا ہے چند عاقبت نہ اندیش کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا کر دیتے ہیں اور ہم کم عقل ان کی باتوں میں آ کر برسوں کے تعلقات بھی خراب کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اسی فسادی فضا میں ’’ حسینؓ ابن علیؓ‘‘ کی لازوال اور منفرد شخصیت کے حوالے سے برسوں پہلے ممتاز شاعر مشیر کاظمی یہ کہہ گئے تھے ۔۔۔
حسینؓ میرا، حسینؓ تیرا
حسینؓ سب کا، حسینؓ رب کا
نواسہ رسولؐ اور ان کے رفقاء کے ساتھ دشت کربلا میں جو کچھ ہوا، امام مظلوم، امام صاحبزادوں اور ان کے ساتھیوں پر جس قدر ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے اس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ اس قافلہ حق نے اپنے صبر و استقامت سے جو داستان کربلا کی تپتی ریت پر لکھ دی وہ تاقیامت کسی زندہ معجزے سے کم نہیں، چودہ سو سال گزر گئے نہ اسے بھلایا جا سکا نہ ہی رہتی دنیا تک کوئی بھلا سکے گا۔ حالانکہ مورخین نے اپنی وہ ذمہ داری ادا نہیں کی جو انہیں نبھانی تھیں، یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مختلف واقعات مختلف انداز میں پائے جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ دور حاضر کی طرح زمانہ قدیم میں بھی ’’ ڈیوٹی فل‘‘ لکھاری اور تاریخ دان موجود تھے، جو اس دور کے حکمرانوں کی مرضی و منشا کے خلاف کچھ نہیں لکھتے تھے۔ داستان کربلا بقائے دین اور کلمہ حق کی ایسی کہانی ہے جس کو جس انداز سے بھی پرکھنے کی کوشش کریں آپ کو یزید اور اس کے پیروکاروں کے ظلم و جور دکھائی دیں گے، قرآن و سنت کے خلاف فتوئوں اور دعوئوں کا بازار گرم تھا اسی لیے بقائے اسلام کی خاطر نواسہ رسولؐ شہید کربلا نے ایک مختصر سے قافلے کے ساتھ کربلا میں پڑائو ڈالا، ان کا مقصد جنگ ہرگز نہیں تھا لیکن ’’ پیغام حق ‘‘ اور اسلامی تعلیمات کی سر بلندی ضرور تھا۔ انہوں نے ’’ یزید‘‘ کو للکارا بھی اور خدا کا پیغام بھی دیا پھر جب وہ اپنی فرعونیت اور سرمستی سے باز نہیں آیا تو اپنے کڑیل جوانوں، ساتھیوں سمیت چھ ماہ کے معصوم علی اصغر کو بھی راہ حق میں قربان کر کے خدا اور رسولؐ کا پسندیدہ دین بچا لیا۔ آقائے کائناتؐ کی حدیث ہے کہ ’’ حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں‘‘، اس کا حقیقی مطلب ہی یہی تھا کہ جب دین اسلام پر بُرا وقت آئے گا تو اس کی بقاء گارنٹی صرف اور صرف امام حسینؓ اور ان کے پیارے ہوں گے اسی لیے خواجہ معین الدین چشتیؒ نے فرمایا:
شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دین است حسین، دین پناہ است حسین
سر داد، نہ داد، دردست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ ۔۔۔ است حسین
میں سمجھتا ہوں کہ آج کے جدید سوشل میڈیا کے دور میں ہمیں حقائق کی تلاش سے اس مذہبی منافرت سے نجات کے لیے اپنی تحقیق کرنی چاہیے، مسجد کے ملاں اور مجلس کے ذاکر سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ آج پوری دنیا انٹرنیٹ، فیس بک اور گوگل کے ذریعے ہر بڑے چھوٹے کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے کسی بھی طور یک طرفہ ٹریفک نہیں چلنی چاہیے۔ ’’ سنو سب کی، کرو اپنے من کی‘‘ لیکن ذمہ داری کا احساس ضرور رکھا جائے کہ انسانی اقدار اور خلق خدا کی نفی نہ ہو۔ قسم ہے اس رب کی جس نے زندگی دی اور موت بھی دینی ہے، اس نے دین میں کسی قسم کا جبر نہیں رکھا اور نہ ہی کسی کو من مانی کی اجازت دی ہے۔ کلمہ حق پڑھنے والے تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کے شر سے نہ صرف دوسرے بھائی محفوظ رہیں بلکہ شرط ہے کہ وہ جو اپنے لیے پسند کریں وہی دوسرے بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔ پھر سوال ہے کہ ناراضگی، لڑائی، اختلافات کیوں؟ ملت کے استحکام میں ہی اسلامی شعائر کی بقا ہے لیکن میں، آپ اور کوئی بھی اس بات کا احساس ہی نہیں کرتے؟ مورخین نے آقائے دو جہاںؐ کی رحلت کے بعد صرف چند صحابہ اکرامؓ کے علاوہ سب کو نظرانداز کر دیا، بس یہی وجہ نفاق بنا اور آنے والوں نے اپنی تحقیق کی ہی نہیں۔ اللہ کے آخری نبی ؐ نے فرمایا’’ حضرت ابو ذرؓ زمین پر سب سے سچا انسان، سلمان فارسیؓ کے لیے کہا علم ثریا ستارے پر بھی ہو تو اہل فارس وہاں بھی پہنچ جائیں‘‘، حضرت مقدادؓ کے لیے فرمایا ’’ جنت‘‘ ان کی مشتاق ہے۔ حضرت ایوب انصاریؓ مدینہ میں نبی کریمؐ کے میزبان تھے، حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ جو حضورؐ سے لے کر پانچ نسلوں تک حیات رہے، حضرت عمار بن یاسرؓ کی شان میں آیات نازل ہوئیں۔ حضرت بلال حبشیؓ موذن رسولؐ بھی منفرد تھے لیکن بعد از نبی کریمؐ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کے سب جیسے دنیا سے غائب ہو گئے، کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ مورخین نے حضورؐ کی آل اور قرب دار اصحاب کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی کریمؐ کی دنیا سے رخصتی کے بعد اولاد نبیؐ اور آل نبیؐ کسی کی موت طبعی طور پر نہیں ہوئی، تمام قتل ہوئے اور قاتل بھی وہ جو کلمہ گو تھے۔ خلیفہ راشد صرف چار اور ان میں سے بھی تین قتل کئے گئے، حضور اکرمؐ کا ارشاد گرامی کے حسنؓ و حسینؓ۔۔۔ جنت کے سردار ہیں اور جنت کے طلب گاروں نے ہی انتہائی اذیت کے ساتھ ایک کو زہر پلا کر اور دوسرے کو کربلا میں بھوکا پیاسا شہید کر دیا۔ امت نے نہ بچوں کا خیال کیا نہ ہی آل رسولؐ کی خواتین کا احترام کیا، اس حوالے سے امت مسلمہ کا یہ دکھ سانجھا ہے کیونکہ محبت اہلبیت، مودت حسنین کسی ایک مکتب فکر کی میراث نہیں، شیعہ، سنی ، بریلوی، نہ اہل حدیثوں کی چیز ہے یہ مسلمانوں کی ہے۔ سب اسلام کی امت مسلمہ کی میراث ہے یہ ایمان ہے قرآن کا حکم ہے امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے تھے کہ انہیں اہل بیت سے اس قدر شدید محبت تھی کہ ان پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا گیا اگر وہ شیعہ ہوگئے تو بھی حنفی سنی کہاں جائیں گے۔ اسی طرح محبت اہل بیت پر امام شافعی اور امام مالک پر بھی بے جا تنقید کی گئی لیکن اجتماعی جائزہ لیں تو بات صرف ایک ہی سمجھ آئے گی کہ ’’ نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملاں خطرہ ایمان‘‘ ۔۔۔۔۔ حقیقت یہی ہے کہ
حسینؓ میرا، حسینؓ تیرا
حسینؓ سب کا، حسینظ رب کا
نواسہ رسولؐ سردار جنت اور اہل بیت نے اسلام کی سربلندی کے لیے ناقابل فراموش قربانیاں دیں جس کی بدولت اسلام ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوا، امام حسینؐ نے صبر و استقامت کی ایسی مثال قائم کی کہ اب باطل قوتیں قیامت تک برسر پیکار نہیں ہو سکیں گی۔ شہید کربلا اور ان کے رفقاء نے دلیری، بہادری اور منفرد انداز میں طاقت، حکومت اور بھاری بھرکم لشکر کو بتا دیا کہ اللہ اور اس کے خاص بندے کیسے ہوتے ہیں، یزید کا جاہ و جلال اور ظلم و ستم خاک میں مل گیا اور اس حق باطل کی معرکہ آرائی کا نتیجہ صرف ایک ہی نکلا کہ ’’ یزید تھا اور حسینؓ ہے‘‘ ۔۔۔۔۔ اردو کے ممتاز اور معروف شاعر جوش ملیح آبادی نے درست کہا تھا:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے کی ہمارے ہیں حسینؓ
آج کربلا استعارہ ہے بے خوف و خطر ظلم اور طاقت کے خلاف حق و انصاف کی جنگ کا، جس پر عالم اسلام جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ فروعی اختلافات کو بھول کر ’’ امت مسلمہ‘‘ کی یکجہتی کی کوشش کی جائے ایسے میں مجھے امام خمینی کا یہ فرمان یاد آ رہا ہے کہ ہم مسلمان ہاتھ کھولنے اور باندھنے کی لاحاصل بحث میں پڑے ہوئے ہیں جبکہ دشمن ہاتھ اور گلا کاٹنے کی فکر میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button