ColumnNasir Naqvi

الٹی گنتی شروع

الٹی گنتی شروع

ناصر نقوی
حالات اس بات کی چغلی کھا رہے ہیںکہ سیاسی ، معاشی اور آئینی بحران کے خاتمے کے بغیر الٹی گنتی شروع ہو گئی۔ حکومتی مدت ختم ہونے سے پہلے وزیراعظم اور سپہ سالار نے باہمی اشتراک سے معیشت کی بہتری کا فارمولا تلاش کرلیا ہے۔ جس پر زور و شور سے عمل درآمد کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔ اب خوشخبری یہی ہے کہ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا اور آنے والے دنوں میں’’ ستے خیراں‘‘ ہی کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ سیاسی اور مقتدر قوتوں کے درمیان یہ بات طے پا گئی ہے کہ اتحادی حکومت وقت مقررہ پر گھر چلی جائے گی۔ نگران حکومت آئین اور قانون کے مطابق انتخابات کرائے گی جس کے لیے بھی بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ ہو گیا ہے کہ نگران حکومت میں مسلم لیگ ن کو زیادہ حصّہ ملے گا جبکہ باقی سیاسی پارٹیوں کو حصّہ بقدر جثہ ملے گا۔ نگران وزیراعظم بھی دونوں بڑی پارٹیوں اور پارلیمنٹ کے اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کی مشاورت سے ہی نہیں، ایمپائر کی مرضی سے بنایا جائے گا، تاہم الیکشن شیڈول اور تاریخ دینا خالصتاً الیکشن کمیشن کا صوابدیدی اختیار ہو گا جس میں اسے ردوبدل کا بھی اختیار ہو گا، ایسا پارلیمنٹ نے نئے ایکٹ کی منظور ی سے الیکشن کمیشن کو آزاد اور خود مختار بنانے کے لیے کیا ہے۔ اتحادی حکومت کی فلم ’’ اقتدار‘‘ اپنے اختتام کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فلم کی کامیابی اور الیکشن مہم جوئی کے لیے وزیراعظم آئی ایم ایف کی معرکہ آرائی میں کامیاب ہی نہیں ہوئے بلکہ آئی ایم ایف کی ذمہ داروں سے ستائشی سند بھی حاصل کر چکے، لہٰذا وہ اقتدار کے آخری ایام کو ’’ ثمر انگیز‘‘ بنانے کے لیے روایتی اور سیاسی انداز میں روزانہ کی بنیاد پر مختلف اہم منصوبہ جات کی افتتاحی تقریبات کو بھی وقت دے رہے ہیں انہوں نے اپنے قومی خطاب اور مختلف تقریبات میں سپہ سالار کی مثبت کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ تاثر بھی دیا کہ سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں، اس لیے اعتماد کی بحالی سے کامیابیاں ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف اور امریکہ بہادر نے پاکستانی قوم اور سیاسی قیادت کا کڑا امتحان لینے کے بعد اپنی اعصابی شکست تسلیم کرتے ہوئے ’’ پاکستان‘‘ کی اہمیت اور مستقل دوستی کا دم بھرنا شروع کر دیا ہے لیکن آئی ایم ایف کی پہلی قسط چونکہ مشکل شرائط سے مشروط ہے اس لیے حکومتی سخت فیصلوں کا تمام تر بوجھ عوام کے ناتواں کندھوں پر آئے گا ۔ دوست ممالک سعودی عرب، یو اے ای، عوامی جمہوریہ چین اور قطر کی جانب سے ملنے والی رقوم بھی عوام کو ’’ مہنگائی بم‘‘ سے چھٹکارا نہیں دلا سکیں گے تاہم ’’ وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کے اصول پر معصوم عوام مستقبل کے سنہرے خواب دیکھنے میں مگن ہیں۔ کہتے ہیں اگر خواب سہانے اور اچھے دیکھے جائیں تو نتائج بھی خوبصورت نظر نکلتے ہیں۔ لیکن پاکستانی گزشتہ 75سالوں سے صرف ’’ سبز باغ‘‘ کے طلسم میں ہیں انہیں یقین ہے کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی لیکن کوئی نہیں جانتا کب اور کیسے؟ بالکل اسی طرح جیسے حکومت، اتحادی اور اپوزیشن جماعتیں ’’ الٹی گنتی شروع‘‘ ہونے کے باوجود یہ نہیں جانتیں کہ الیکشن کب ہوں گے؟۔
جمہوریت اور جمہوری اقدار کے بقائ، آئین و قانون اور پارلیمنٹ کے استحکام کے لیے انتخابات ہر قیمت پر ضروری ہیں لیکن کچھ حقیقت اور افواہیں ایسی موجود ہیں کہ الیکشن الیکشن کھیلنے کے خواہشمند بھی ابھی تک الیکشن کی حقیقی تاریخ سی واقف نہیں، پہلی بات الیکشن اصلاحات کی ہیں جس کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر عطا تارڑ پریس کانفرنس کر چکے ہیں کہ اس سلسلے میں 95فیصد کام مکمل ہو چکا ہے، اصلاحات کے ایجنڈے سے کسی سیاسی پارٹی پر پابندی کی شق نکال دی گئی جس سے یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر عدالتوں میں دیکھا اور پرکھا جائے گا۔ دوسرا سلسلہ مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کا ہے ابھی تک مردم شماری کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوسکا حالانکہ ’’ مردم شماری‘‘ کے مکمل ہونے کی اطلاعات منظر عام پر آ چکی ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ نوٹیفیکیشن کے بغیر نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکیں گی پھر الیکشن کیسے ہوں گے؟ تیسرا معاملہ موسمی اور بدامنی کے حالات ہیں جب تک ان میں بہتری نہیں آئے گی اس وقت تک الیکشن کمیشن شیڈول نہیں دے گا۔ عالمی موسمی تبدیلی اور پاکستانی حالات نے یہ مخبری پہلے ہی کر دی تھی کہ پچھلے سال سے زیادہ بارشیں اور سیلاب متوقع ہے۔ ملک کے بڑے صوبے پنجاب میں سینکڑوں دیہات بارش اور بھارتی آبی جارحیت سے زیر آب آ چکے ہیں لاکھوں افراد متاثرین میں شامل ہیں جبکہ ابھی یہ سلسلہ ایک سے ڈیڑھ ماہ جاری رہے گا۔ مودی سرکار تو اس قدر ظالم ہے کہ اس نے ڈیم ٹوٹنے کا بہانہ کر کے اپنی راج دہانی’’ دہلی‘‘ کو صرف اس لیے ڈبو دیا کہ وہاں بی جے پی کو عبرتناک شکست ہو گئی۔ بلدیاتی الیکشن میں وزیراعلیٰ دہلی کیچریوال کی عام عوام پارٹی نے حکمران مودی کی پارٹی کو 15سالہ کامیابیوں کے بعد بْری طرح پچھاڑا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آبی ’’ دہشت گردی‘‘ میں دریائے جمنا کا پانی وزیراعلیٰ ہائوس اور پارلیمنٹ میں بھی داخل ہو گیا ہے۔ ایسی صورت حال میں بھارت سے پاکستان کو نہ صرف سبق سیکھنا ہو گا بلکہ مستقبل کے لیے مستقل بنیادوں پر انتظامات کرنے ہوں گے۔ بھارت جب دل چاہتا ہے پاکستان کا پانی روک کر استعمال کرتا ہے اور جب بارشوں کا پانی سنبھال نہیں پاتا تو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر کسی اطلاع پانی چھوڑ کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔ پاکستان کا موقف اب عالمی عدالت میں تسلیم کیا جا چکا ہے جلد اس سلسلے میں شنوائی ہو گی توقع ہے بھارت کو بھاری جرمانہ اور سزا ملے گی۔
بات’’ الٹی گنتی‘‘ سے شروع ہوئی تھی تو حقائق بتا رہے ہیں یہ الٹی گنتی صرف حکمرانوں کے لیے نہیں، اس اپوزیشن لیڈر کے لیے بھی ہے جو پارلیمنٹ سے آئوٹ ہونے کے باوجود اپنی حکمت عملی، اپنوں کے لاڈ پیار اور چاہت سے نہ صرف ’’ اِن‘‘ ہے بلکہ منفرد ہے ۔ وہ سابق وزیراعظم خان عمران خان نیازی ہیں جنہیں سپریم کورٹ کے اعلیٰ عدالت سے لے کر سیشن عدالتوں تک ہمیشہ سہولت کاری ملتی رہیں لیکن ان کے دن بھی لگتا ہے گِنے جا چکے ہیں یعنی ان کے لیے بھی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ پہلا جھٹکا انہیں سیشن جج ہمایوں دلاور نے دیا، روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع کر دی تو دوسری جانب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ گئے تو وہاں ان کی اپیل خارج ہو گئی اور ایک بار پھر عدت کیس میں شدت پیدا ہو گئی حالانکہ اسے پہلے ناقابل سماعت قرار دیا جا چکا تھا، لیکن اس میں مرشد عمران خان کے کارِ خاص عون محمد چودھری اور نکاح خواں مفتی سعید اپنے بیانات پہلے ہی قلمبند کرا چکے ہیں اسی طرح ’’ توشہ خانہ‘‘ کیس میں عمران صاحب نے اپنے کسی نادان دوست کے مشورے پر اپنے سابق ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر وسیم افتخار چیمہ کا نام لے لیا ہے جو اس وقت میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پا چکے ہیں۔ ’’ نیب‘‘ نے بیانات کے ساتھ تفتیش بھی شروع کر دی ہے اور شوکت خانم ہسپتال سمیت تمام دستاویزات بھی طلب کر لی ہیں، یہی وہ خود کہہ رہے ہیں کہ دو سو مقدمات بنائے گئے ہیں جس کا مقصد انہیں الیکشن سے نکال باہر کرنا ہے یہی نہیں 9مئی کے حوالے سے بھی ان کے خلاف دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات مختلف شہروں میں درج ہیں جن سے انہیں بطور چیئرمین تحریک انصاف منصوبہ ساز نامزد کیا گیا جبکہ ان کے تخریبی ساتھی اس سلسلے میں قطار در قطار وعدہ معاف گواہ بن رہے ہیں اور اسلام آباد سے برآمدہ اطلاعات کے مطابق ان میں سے اکثریت نے اشٹام پیپرز پر ’’ بیان حلفی‘‘ بھی دے دئیے ہیں۔ اس طرح یہ سلطانی گواہان خان اعظم کے سامنے پیش ہوں گے تو وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکیں گے:
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اس ’’ الٹی گنتی‘‘ میں شہباز شریف اور عمران خان یکساں الجھے دکھائی دے رہے ہیں شہباز شریف اپنی کامیابیوں ، فتوحات کے گھوڑ ے پر سوار ہو کر آئندہ الیکشن میں کامیابی اور اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کی کوشش میں ایسے مگن ہیں کہ وہ اور ان کے حواری اپنے قائد نواز شریف کے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کی خواہش میں رکاوٹ بنتے محسوس ہو رہے ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں یہ تاثر مضبوطی سے ابھرا ہے کہ معاشی ترقی اور استحکام پاکستان کے خواب میں وہ اور سپہ سالار ایک سوچ کے مالک ہیں لہٰذا الیکشن جب بھی ہوں، اسٹیبلشمنٹ اب شہباز شریف کی طرف دار ہو گی جبکہ چوہا رپورٹ یہ ہے کہ قائد محترم تین مرتبہ وزیراعظم رہنے کے ریکارڈ ہولڈر نواز شریف اپنے مقدمات سے نجات پانے کے بعد چوتھی بار وزیراعظم بن کر اپنا ریکارڈ بہتر کرنا چاہتے ہیں اور پس پردہ یہ بھی وعدہ کر چکے ہیں کہ چوتھی باری میں ایک سال کے بعد وہ دستبردار ہو جائیں گے تاہم مفاہمتی پالیسی اور حکمت عملی کے بادشاہ لاہور میں ایک مرتبہ پھر شہباز شریف سے راز و نیاز کی بات چیت کے بعد نئی سیاسی چالیں اور مستقبل کی کہانی سنا گئے ہیں جبکہ عمران خان مقدمات سے نجات کے لیے عدالتوں کا سامنا کرنے کے لیے کمربستہ ہیں۔ جے آئی ٹی میں بیانات جمع کرانے کے بعد تفتیش کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد ان کے خلاف ’’ چارج شیٹ‘‘ ختم ہو جائے اور نواز شہباز کی طرح ان کے مقدمات بھی سیاسی انتقامی کارروائی ثابت ہو جائیں لیکن اوّل تو ان کے بیانات اور یوٹرن پالیسی آڑے آ رہی ہے اور دوئم 9مئی سانحہ ان کے گلے کا پھندا بنا ہوا ہے انہیں یہ علم ہے کہ ’’ الٹی گنتی‘‘ شروع ہو چکی ہے مشکلات بڑھ رہی ہیں پھر بھی ’’ سیاست‘‘ میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی، وہ اب بھی مقبول لیڈر ہیں سیاسی شطرنج میں ایک چال بھی سیدھی ہو گئی تو سب کچھ بدل جائے گا لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب وہ بہاریں کہاں؟ جنرل ( ر) باجوہ اور جنرل ( ر) فیض حمید کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔ خارجہ محاذ پر بھی اتحادی حکومت معاملات درست کر چکی ہے۔ آئی ایم ایف کی قسط کے بعد دوست ممالک بھی ’’ فرنٹ فٹ‘‘ پر کھیلنے کو تیار ہو گئے ہیں اور ’’ امریکہ بہادر‘‘ بھی مصلحت پسندی میں پاکستان سے دوری اختیار کرنے کو تیار نہیں، لہٰذا ’’ الٹی گنتی‘‘ میں اتحادی حکومت تو ہر صورت جا رہی ہے لیکن عمرانی انقلاب، نیا پاکستان، حقیقی آزادی دور دور تک نظر نہیں آ رہی، اس لیے اب پرانے پاکستان اور نئے حالات میں ہی گزارا کرنا پڑے گا؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button