ColumnQasim Asif

قرآن کی حقیقی توہین، یقینی تحفظ اور ہم

قرآن کی حقیقی توہین، یقینی تحفظ اور ہم

محمد قاسم آصف جامی
عید الاضحی کے روز جب سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد میں نمازِ عید ادا کی جارہی تھی عین اسی وقت 37سالہ ’’ سلوان مومیکا‘‘ نامی عراقی شخص نے 2ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا اور مقدس کتاب قرآن حکیم کو نذرِ آتش کرنے کا مرتکب ٹھہرا۔ جس پر مسلم دنیا نے روایتی انداز میں احتجاج کیا جبکہ کچھ ممالک نے سفارتی تعلقات کا مقاطعہ بھی کیا۔ قبل ازیں مقامی پولیس سے اجازت نہ ملنے پر اس نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے آزادی اظہار رائے کے دستور کے تحت نہ صرف اجازت دی بلکہ پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے اس شخص کی حفاظت کے احکامات بھی صادر کئے۔ کچھ ذرائع کے مطابق یہ ’’ نفسیاتی مریض‘‘ پیدائشی طور پر مسلمان تھا، پھر داعش کے ہاتھوں اس کے بہت سے عزیز دہشگردی کا نشانہ بنے۔ کیونکہ اس جہادی تنظیم کے لوگ سورۃ توبہ کی کچھ آیات کی ’ خود ساختہ‘ تعبیر کے مطابق تمام غیر مسلموں کو واجب القتل سمجھتے ہیں اور ان مسلمانوں کو بھی زیرِ عتاب لاتے ہیں جو اس نظریے کا ساتھ نہیں دیتے یا اختلاف کی جسارت کرتے ہیں، یوں یہ شخص بتدریج اسلام سے متنفر اور باغی ٹھہرا۔ آپ بتلائیے اگر اسی تعبیر کو حقیقت سمجھا جائے تو کون اس مذہب کو پُرامن سمجھے گا۔ امریکہ اور بعض یورپی ممالک بالخصوص ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، فرانس، آسٹریا، ڈنمارک اور سویڈن وغیرہ میں اس طرح کے توہین آمیز واقعات ’’ نائن الیون‘‘ کے بعد کثرت کے ساتھ اور واضح طور پر رونما ہونا شروع ہوئے۔ بے لگام آزادی اظہارِ رائے کے نام پر دینی مقدسات کی تضحیک و تحقیر وہاں کے بعض لوگوں کا مشغلہ بن گئی، وہ اسلام یا مسلمانوں پر ہر طرح سے غم و غصّے کا اظہار کرنے کے لئے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں ہی مغرب میں اسلامو فوبیا کے تقریباً ایک ہزار واقعات ہوچکے ہیں۔ اگر ہم اس کی وجوہات اور محرکات کا جائزہ لیتے ہوئے درجہ بندی کریں تو درج ذیل اسباب واضح نظر آتے ہیں۔ ایک تو مغربی نفسیات میں صلیبی جنگوں کے نتیجے میں انکی شکست اور مسلمانوں کی فتح کے نقوش اور اثرات اسی طرح موجود ہیں اور وہ اب بھی اس سے خائف ہیں کہ دوبارہ کہیں ہمیں ہماری آزادی سمیت مغلوب نہ کر دیا جائے۔ ایسا چونکہ بعض اسلامی ممالک اور مذہبی رہنمائوں کی طرف سے علی الاعلان خطاب و بیان کیا جاتا ہے کہ اسلام غالب آکر رہے گا، کوئی جنگ بھی ہوگی اور کفر مٹ جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ تو ایسے واقعات اسی صورتحال کے پیش نظر ’’ حفظِ ماتقدم‘‘ کا پہلو بھی ہوسکتے ہیں۔ دوسری وجہ جو سامنے آتی ہے وہ انکے بقول ہی کہ ہم نے صدیوں کی محنت اور قربانیوں کے بعد آزادی اظہار رائے کو ایک بنیادی قدر اور اصول کی حیثیت دی ہے اب ہم اس پر کسی طرح کا بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ وہ الگ بات ہے اپنے کچھ معاملات ( ہولوکاسٹ، برطانیہ کے شاہی خاندان کے خلاف جانے) کو وہ قانون سازی کے عمل سے گزار کر اس سے مستثنیٰ قرار دے چکے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دین کا حقیقی اور عمومی تعارف و پیغام ابھی مغرب میں پہنچ ہی نہیں پایا اس لیے وہ اسلام سے قدرے بدظن اور خوفزدہ ہیں لیکن کوئی انہیں یہ بتائے کہ مسلمان ہر معاملے پر مکالمے، افہام و تفہیم کے انداز سے بات کرنے اور دلائل کی رُو سے اپنا مقدمہ ثابت کرنے کے اہل ہیں۔ وہ آپ کے تمام عقلی و منطقی سوالات اور اشکالات کے جواب دینے کے لئے تیار ہیں جو اسلام کے متعلق آپ کے ذہنوں میں اُبھرتے ہیں۔ اور آپ ہیں کہ چند انتہاء پسند مسلمانوں کے بیانات اور عوامل سے ردِ عمل میں آجاتے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ دین کا تعارف جب بھی کروایا جائے گا وہ اس کی اصل ’’ کتاب اور صاحبِ کتاب صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے ذریعے سے ہوگا، نہ کہ کوئی بھی مذہبی شخص بزعمِ خود یہ کہے کہ میں نے چونکہ دین کو یوں سمجھا ہے لہذاٰ یہی دین کا حقیقی و عمومی تعارف اور شناخت ہے، ایسا علم و تحقیق کے کسی اصول کے مطابق رَوا نہیں۔ دیگر وجوہات میں چند یہ چیزیں بھی نمایاں ہوتی ہیں کہ قرآن آج کی دنیا کے جدید سائنسی اسرار و انکشافات کے واضح اشارے آج سے 14صدیاں قبل دے چکا ہے، لہذا سائنسی و تکنیکی زاویے سے قرآن کی اس صداقت اور بالادستی کو وہ اپنے لیے ایک چیلنج سمجھتے ہیں۔ ( اس کی تازہ مثال آبدوز والے واقعہ کی وجوہات و اسباب اور سورۃ نور کی آیت نمبر 40میں واضح مماثلت ہے) نیز قرآن اپنے معانی اور مقاصد کے اعتبار سے بالکل واضح اور محفوظ کتاب ہے جبکہ دنیا کی کوئی دوسری کتاب حتیٰ کہ مذہبی صحائف بھی تبدیلی و ترمیم سے محفوظ نہ رہے اور عمر کے اعتبار سے یہ روشن اور زندہ کتاب، دنیا کی سب سے زیادہ مدت اور عرصہ رکھنے والی سچی اور کھری کتاب ہے جبکہ فلسفے، تاریخ، مذہب، شاعری اور سائنس کی دیگر کتب اپنی عمر کے اعتبار سے چند سال پر محیط ہوتی ہیں اور یوں اُن میں کسی بھی دور میں آ کے کسی نہ کسی طرح نقص و نقد کی گنجائش نکل ہی آتی ہے۔ اسی لیے دنیا کے سیکڑوں مذاہب اس کا متبادل یا رَد کرنے کے اعتبار سے ہمیشہ ناکام ہوتے آئے ہیں، اس لیے اپنی شکست اور ہار کا اظہار ایسے واقعات کی صورت میں کرتے ہیں۔ ایسے ہی اس جاوید کتاب کی تعلیمات ہر طرح کی آفاقی اور ابدی تہذیب کی نقیب ہیں جس سے دوسری اقوام بالخصوص مغرب کو اپنی تہذیب اور روایات کے ختم ہونے کا خدشہ ہے اس لیے وہ شدت سے ردِ عمل میں آتے ہوئے یوں بوکھلا جاتے ہیں۔ ایسے عوامل اور نفسیات پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ عجیب لوگ ہیں جو ایٹم بموں، تلواروں، ہتھیاروں اور لوگوں سے ڈرنے کے بجائے ایک کتاب سے ڈرتے ہیں۔ انہی کے ایک امریکی فلاسفر نے یہ کہا تھا کہ ’’ کتابیں انتہاء پسندوں کی دشمن ہوا کرتی ہیں‘‘ ۔ وہ کم از کم اس آئینے میں ہی خود کو دیکھ لیں اور باز آجائیں۔
ان تمام باتوں کے برعکس ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم نے اپنی زندگی اور معاشرے میں اس کتابِ لاریب کو کیا مقام دیا۔ اس کے احکامات اور تعلیمات کو روزمرہ معمولات میں شامل کرنے کے بجائے اس سے دیگر ’’ لایعنی‘‘ کام نکلوانا شروع کر دئیے، کتابِ ہدایت کو فقط قرآن خوانی، حسنِ قرآت کے مقابلوں اور ایصالِ ثواب کی محافل تک جا پہنچایا۔ اس کے اسرار و رموز و انکشافات سے دنیا کو سَر کرنے کے بجائے اِسے غلاف میں لپیٹ کر اونچے شیلف پر سجانے کو ہی باعثِ حصولِ برکت جانا اور بوقت رخصتی دلہن کو اس کی تعلیمات سے روشناس کروانے کے برعکس اس کے سائے تلے بھیجنا ہی مقصود ٹھہرا۔ جائے حیرت تو یہ بھی ہے کہ فقط ’’ الفاظ‘‘ کو رَٹنا، رٹانا ہی اس کی فضیلت قرار پایا اور اس پہ عمل کے بجائے اس سے عقیدت اور فقط تلاوت کو ہی ذریعہ بخشش جانا۔ بالکل اسی طرح جب کوئی استاد اپنے شاگرد یا مالک اپنے ملازم سے یہ کہے کہ پانی لائو، کتاب کھولو، مارکیٹ جائو، فلاں کام کرو اور فلاں سے بچو، تو ملازم اور شاگرد تعمیلِ احکام کے بجائے فقط بوس وکنار، مناقب اور اظہارِ عقیدت و محبت پہ ہی اَٹکا رہے تو بتلائیے وہ ملازم اور شاگرد، مالک اور استاد کے سامنے کن کاغذوں میں ہوں گے۔ ضرورت تو یہ تھی کہ ان معاملات کو عالمی عدالت میں مسلمانوں کا مقدمہ بنا کر پیش کیا جاتا اور آئینی دساتیر و قوانین سازی سے اس کا سدِ باب کیا جاتا۔ جبکہ اس سے بھی بڑھ کر اپنے معاشرے کا المیہ جانیے کہ ہم نے اپنے ملک میں دیگر مذاہب کو کس قدر آزادی اور سہولت سے نوازا ہے جو ہم مغرب سے یہ توقع رکھتے پھریں۔ دنیا کو سافٹ پاور، تالیفِ قلب، استدلال اور داعی اور مدعو کے تعلق کی غرض سی دل جوئی اور نرم خوئی سے تلقین کرنے اور غلط فہمیاں مٹانے کے بجائے ماورائے عدالت قتل و غارتگری اور عبادت گاہوں کو توڑنے کی مثالیں اُن تک بھی پہنچتی ہیں اور وہ صاحبان اس سے بھی اپنے رویے و نظریے تشکیل دیتے ہیں، تو ایسے میں اہلِ مغرب یہ کیوں نہ کہیں کہ ہم نے تو فقط اوراق جلائے ہیں آپ تو زندہ انسانوں کو نہیں چھوڑتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button