ColumnZia Ul Haq Sarhadi

بارٹرٹریڈ میکانزم

ضیاء الحق سرحدی

وفاقی حکومت نے یکم جون کو ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر (SRO)جاری کیا، جس کے تحت 4ممالک پاکستان، افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ B2Bبارٹر ٹریڈ کے تحت سامان کی درآمد اور برآمد کی اجازت دی گئی ہے۔ پاکستان کو ڈالر کی لیکویڈیٹی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو امریکہ سمیت بڑی معیشتیں قبول نہیں کر رہی ہیں۔ ایران کو اپنے جوہری عزائم پر امریکی پابندیوں کا سامنا ہے اور یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے روس کو بھی G7ممالک کی پابندیوں اور ضوابط کا سامنا ہے۔ بارٹر سسٹم پر پاکستان نے کئی برسوں سے کام شروع کر رکھا ہے۔2021ء میں افغانستان میں طالبان کے ا قتدارمیں آنے کے بعد پاکستان کے ساتھ اس کی تجارت میں اضافہ دیکھا گیا تھا تاہم رواں برس دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم میں کمی آئی جبکہ ڈالرز کی کمی دونوں ملکوں میں دیکھی گئی اور وفاقی حکومت نے پاکستان کی بزنس کمیونٹی سے بارٹر سسٹم کے بارے میں مذاکرات شروع کئے ۔ان مذاکرات میں دیگر پاکستان بھر کے پرائم چیمبرز کے علاوہ پاکستان افغانستان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری (PAJCCI)نے ایک کلیدی کردار ادا کیا چونکہ یہ چیمبرز ایک انٹر نیشنل چیمبر ہے اور اس کے پاکستان افغانستان کے دونوں جانب سے ایگزیکٹو ممبران کی تعداد برابر ہے اور اس بارٹر ٹریڈ میکانزم کو بنانے میں دونوں ملکوں کے کاروباری افراد نے حصہ لیا جس میں پاکستان کی طرف سے چیئرمین محمد زبیر موتی والا ، جنید مکڈا، قاضی زاہد، جاوید بلوانی، خالد شہزاد، انجینئر منظور الٰہی، شاہد حسین، عمران کاکڑ، نیاز محمد، محمد ادریس اور راقم ضیاء الحق سرحدی کے علاوہ افغانستان کی طرف سے کو چیئرمین خان جان الکوزئی،ڈاکٹر مخلص، یونس مہمند، احمد شاہ، اجمل صافی،نجیب اللہ صافی، سلطان صافی ودیگر شامل تھے۔ دنیا کے وہ ممالک جنہیں قرضوں کی ادائیگی میں دقت کا سامنا ہو یا جن کے پاس ڈالر میں زرمبادلہ کے ذخائر نا کافی ہو جائیں وہ دیوالیہ ہونے سے پہلے بارٹرسسٹم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اس سے پہلے دسمبر2021میں پاک ایران تجارت کو بارٹر سسٹم پر منتقل کرنے کا معاہدہ ہوا تھا تاکہ مال کے بدلے مال کے تازہ میکانزم کی تفصیلات کا جائزہ لیا جائے جس سے روس ، ایران اور افغانستان سے پاکستان جو اشیا ء حاصل کر سکے گا ان میں تیل ، گیس ، خشک میوہ جات ، کھاد، مشینری وغیرہ شامل ہے۔ دوسری طرف پاکستان سے دودھ ، کریم ، انڈے سیریل ایکسپورٹ کئے جا سکیں گے۔ وزارت تجارت حکام کے مطابق گوشت، مچھلی کی مصنوعات، پھل، سبزیاں، چاول، بیکری آئٹمز، نمک ،آئل،پرفیوم اور کاسمیٹکس،کیمیکلز، پلاسٹک، ربڑ، چمڑا، لکڑی کی مصنوعات ، پیپر، فٹ ویئر، لوہا، سٹیل، تانبا، ایلومینئم،کٹلری بھی ایکسپورٹ کی جا سکیں گی۔پاکستان الیکٹرک فین ، ہوم ایمپلائنسز، موٹر سائیکلز،سرجیکل آلات اور کھیلوں کا سامان بھی ایکسپورٹ کیا جائے گا جبکہ روس سے بارٹر سسٹم کے تحت گندم دالیں، پٹرولیم مصنوعات ،کھاد اور ٹیکسٹائل مشینری بھی درآمد کی جائے گی اوراسی طرح ہمسایہ ملکوں سے آئل سیڈز، منرل ، کاٹن بھی امپورٹ کی جاسکے گی۔اس وقت پاکستان کی درآمدات کا حجم 40ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے جبکہ برآمدات20 ارب ڈالر سے بڑھ نہیں پارہی ہیں۔ پچھلے 15سال سے برآمدی ہدف30اور35ارب ڈالر رکھا جاتا رہا لیکن سال کے آخر پر نا کا می کھڑی ہوتی ہے۔ بارٹر سسٹم کے کئی فائدے ہیں، یہ نظام سادہ ہے اور بارٹر ایک ایسی معیشت ہے جو صدیوں سے مال کے بدلے مال اور خدمات کے تبادلے کے طور پر رائج ہے جبکہ پاکستان اور اس کے مغربی پڑوس کے درمیان، خاص طور پر وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارتی صلاحیت اربوں ڈالر کی ہے۔ ایران کے مقابلے میں پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے مختصر ترین زمینی راستہ فراہم کرتا ہے اور ترکی ایک بندرگاہ سے جڑ سکتا ہے۔ تاہم پاکستان اور وسط ایشیائی ملکوں کے در میان دو طرفہ تجارت پچھلے کئی برسوں سے1 ارب ڈالر رہی ہے جو صلاحیت سے بہت کم ہے۔ پاکستان نے سی پیک اور دیگر معاہدوں کی صورت میں دنیا بھر میں اپنے تجارتی اور ٹرانزٹ روٹس کو وسعت دی ہے۔ آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان میں موجود زرمبادلہ کی رکاوٹوں کے پیش نظر ان ممالک کے تاجر اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پاکستان سے خریدے گئے سامان کی مالیت متبادل نقدی میں طے کر سکیں۔ لیکن وہ مال کے بدلے ملکی سپلائی کی شکل میں وہی ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ روس اور ایران سے بارٹر تجارت سے ہمیں مشکل وقت میں کچھ آسانی کی امید ضرور ہے لیکن ادارہ جاتی نظام میں بہتری اور ان ممالک کی ضرورت کی اشیاء کی پیداوار میں اضافہ کئے بنابارٹر میکانزم سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ پاکستان میں ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے تحت سالانہ 1.153بلین ڈالر کی اشیا برآمد کرنے اور 2.032بلین ڈالر کی اشیا درآمد کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ بارٹر ٹریڈ میں کوئی مالیاتی لین دین شامل نہیں ہے کیونکہ یہ صرف دو یا دو سے زیادہ فریقوں کے درمیان سامان یا خدمات کی تجارت ہے۔ پاکستان کو مستقبل قریب میں ایران اور روس پر پابندیوں میں کوئی نرمی نظر نہیں آتی۔ بارٹر ابتدائی طور پر ایران کے معاملے میں 45سے 50فیصد، افغانستان کے معاملے میں 20فیصد اور روس کے معاملے میں تقریباً 15-20فیصد لے گا اور باقی تجارت جوں کی توں جاری رہے گی تاہم بارٹر تجارت کو اگلے چند سال میں بتدریج بڑھایا جائے گا اور ہم مزید ممالک اور مصنوعات شامل کریں گے۔ افغانستان کو 716.98ملین امریکی ڈالر کی بارٹر برآمدات کا امکان ہے، جو ہماری کل برآمدات کا 2.3فیصد ہے، اور اسی طرح افغانستان سے 801.26ملین ڈالر کی درآمدات کا امکان ہے۔ جو کل درآمدات کا 1.8فیصد بنتا ہے۔ ایران کے لیے 311.7ملین ڈالر کی برآمدات کا امکان ہے جو کل برآمدات کا 0.9فیصد ہے اور ایران سے درآمدات 737.7ملین ڈالر کی ہوں گی جو کل درآمدات کا 0.98فیصد ہے۔ روس کے لیے بارٹر برآمدات کے لیے 124.37ملین ڈالر کا امکان تیار کیا گیا ہے، جو کل برآمدات کا 0.4فیصد حصہ ہے۔ روس سے درآمدات 457.58ملین ڈالر ہوں گی جو کل درآمدات کے 0.58فیصد حصے کے برابر ہے اور اس طرح ایران، افغانستان اور روس کو بارٹر برآمدات کی کل صلاحیت 1.535بلین ڈالر میں تبدیل ہو جاتی ہے، جو کل برآمدات اور درآمدات کا 3.63فیصد ہے جو کہ 2.032بلین ڈالر ہے، جو کل درآمدات کا 2.58فیصد حصہ ہے۔ وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ درست سمت میں قدم قرار دیا جا سکتا ہے البتہ دیکھنا یہ ہے کہ
پاکستان کو بار ٹر ٹریڈ میں کس قسم کی طلب و رسد کا سامنا پڑے گا اور جس مال کو بارٹر کرنا ہے ، اس کی قیمت کا تعین کس میکنزم کے تحت کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر پاکستان روس سے پٹرولیم مصنوعات خریدتا ہے ، اب روس اس کے بدلے میں پاکستان سے کیا خریدے گا۔ اگلا مرحلہ یہ ہو گا کہ دونوں ملک اپنی اپنی پراڈکٹ کا پیرٹی ریٹ کس فارمولے کے تحت مقرر کریں گے۔ اس سلسلے میں پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے کو آرڈینیٹرو ڈائریکٹر ضیاء الحق سرحدی کے ساتھ نئے متعارف کرائے گئے تجارتی طریقہ کار پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہی۔ ایف بی آر حکام نے متعلقہ افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ تاجر برادری سے چند ماہ تک رابطے میں رہیں اور خطے میں تجارت کے اس نئے نظام پر ان کی رائے لی جائے مکرم جاہ انصاری نے ڈائریکٹر پی اے جے سی سی آئی کو بتایا کہ بزنس ٹو بزنس بارٹر ٹریڈ نظام کی چند ماہ تک نگرانی کے بعد اس کا جائزہ لیں گے اور اگر تاجر اس میں بہتری لانے کے لیے کچھ تجاویز دیں تو نئے نظام میں ترامیم لائی جا سکتی ہیں۔ ایف بی آر کے عہدیدار نے بتایا کہ بزنس ٹو بزنس بارٹر ٹریڈ میکنزم افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ اشیاء کے تبادلے کے ذریعے تجارت کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے تاکہ ملک کے سرحدی علاقوں میں کاروبار کرنے والے تاجروں کو سہولت اور آسانی فراہم کی جا سکے جبکہ بزنس ٹو بزنس تجارتی معاہدہ رسمی طریقہ کار کے طور پر کام کرے گا اور سرحدی علاقوں میں ہونے والی لین دین کا احاطہ کرے گا جہاں ’’ انہینسڈ انٹی گریٹڈ فریم ورک‘‘ Enhanced Anti Grated Framework کی کمی کے باوجود تاجروں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی طرح بارٹر ٹریڈ سسٹم میں کاروباری برادری کی سہولت اولین ترجیح ہوگی اور اگر ضرورت محسوس کی گئی تو میکانزم کے کسی بھی حصے میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ اس وقت تجارتی برادری میں بارٹر ٹریڈ میکنزم کے کام میں کچھ الجھنیں پائی جاتی ہیں لیکن امید ہے کہ وقت گزرنے کے بعد مسائل حل ہو جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button