سیلاب خوشیاں بہا لے گیا

سیلاب خوشیاں بہا لے گیا!
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
جنوبی پنجاب کے بیشتر دیہات اور بستیاں آن کی آن پانی کی نذر ہوگئیں۔ سیلاب یہاں کے مکینوں کی متاع حیات، ان کے مال و اسباب اور مستقبل کے خواب سب بہا لے گیا۔ آہ اچانک مکان سے جھونپڑی میں منتقل ہوجانا، کھیتی کا تباہ ہوجانا، روز گار کا چھن جانا، پر آسائش زندگی سے بے سرو ساماں ہو جانا بہت ہی کربناک ہوتا ہے، باری تعالیٰ کسی کو ایسی سخت آزمائش میں مبتلا نہ کرے۔ ہمیں سیلاب اور طوفانی بارشوں سے متاثرہ افراد کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے ان کی ہر ممکن مدد کرنا چاہیے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب یہ سیلاب صرف قدرتی آفات نہیں رہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ناقص منصوبہ بندی نے ان کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے ۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں پاکستان کو ایسی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو انسانی زندگیوں اور ملکی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ہوں گی۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ملک بھر میں سیلاب اور تباہی کی موجودہ صورتحال پر جانی و مالی نقصانات کی جو تفصیلات جاری کی ہیں، اس کے مطابق تاحال بارشوں اور سیلاب کے باعث جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد 992 ہے جبکہ ایک ہزار 64زخمی ہوئے۔8ہزار 441مکانات متاثر، 2ہزار 216مکمل تباہ، 6ہزار 265کو جزوی نقصان پہنچا، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کے باعث 239پل اور 674کلومیٹر کی سڑکیں تباہ ہو گئیں، بارشوں اور سیلاب میں ملک بھر میں اب تک 6ہزار 500سے زائد جانور بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ متعدد علاقوں میں سڑکیں بہہ جانے کی وجہ سے آمدورفت ممکن نہیں رہی، جس کی وجہ سے درجنوں دیہات میں لوگ محصور ہو چکے ہیں اور خوراک کی قلت کا شکار ہیں۔ جبکہ سیلاب سے مالی نقصان کا تخمینہ تاحال نہیں لگایا جاسکتا، کیونکہ سیلاب کی تباہ کاریاں ابھی جاری ہیں۔
ان حالات میں فوری ضرورت یہ ہے کہ سیلاب زدگان کی ہر طرح سے مدد کی جائے۔ طوفانی بارشوں اور ناگہانی سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی ہے پاک فوج خود اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ہنگامی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں کو نہ پہنچتی تو جتنے نقصانات ہو چکے اور ہوتے جا رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ آفت ٹوٹتی۔ قوم مصیبت کے ان لمحات میں فوج کے تعاون اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ سیلاب کی سنگین صورتحال میں مخیر افراد کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے متاثرین کی مدد کرنی چاہیے، بلاشبہ انسانوں کی بے لوث خدمت کے لئے مسلمانوں کی قربانی انسان دوستی کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور انہیں دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسی مشکلات آئندہ زیادہ سنگین صورت میں ظاہر ہونے والی ہیں جس کے سدباب کیلئے حکومت کو ابھی سے دور اندیشانہ فیصلے اور اقدامات کرنا چاہیے، اس حوالے سے تاخیر یا کوتاہی کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں ۔ گلوبل وارمنگ کی بنا پر ایک طرف گلیشیر پگھل رہے ہیں تو دوسری جانب درجہ حرارت کے بڑھنے سے غیر متوقع بارشیں ہو رہی ہیں، جس نے ملک میں سیلابی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔
پاکستان کے شمال مغربی حصوں میں رونما ہونے والے کلائوڈ برسٹ کے واقعات ہمیں اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ ہم نہ صرف پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے اقدامات عمل میں لائیں بلکہ اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کی بھی کوئی تدبیر اختیار کریں۔ پاکستان کو سمندر میں گرکر ضائع ہونے والے پانی ذخیرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خاص طور پر سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے پانی ذخیرہ کرنے کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے ۔ ہمیں بڑے بڑے ڈیموں کی ضرورت ہے ، دیا میر بھاشا ڈیم، ساڑھے 6ملین ایکڑ فٹ پانی جبکہ کالا باغ کے مقام پر بھی 6ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کیا جا سکتا ہے، کالا باغ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں دریائے کابل کا سیلابی پانی بھی روکا جا سکتا ہے۔ گلوبل وارمنگ اور مون سون کی شدت اور درجہ حرارت کے بڑھنے سے کلائوڈ برسٹنگ کی وجہ سے آئندہ بھی ایسے سیلابوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دستیاب مقامات پر آبی ذخیرے تعمیر کئے جائیں تاکہ نہ صرف سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے بلکہ مستقبل میں جانی و مالی نقصانات سے بچا جا سکے ۔





