Column

حریت فکر کا نقیب، پروفیسر وارث میر

حریت فکر کا نقیب، پروفیسر وارث میر

بشیر ریاض

جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ اور رجعت پسندانہ دور میں جب سچ لکھنا اور بولنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا، تب معروف دانشور اور لکھاری پروفیسر وارث میر نے حق گوئی کا کا علم بغاوت بلند کیا اور اپنے قلم کو ایک شمشیر بے نیام کی صورت استبداد کے سینے میں پیوست کر دیا۔
پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے شعبہ صحافت کے ممتاز استاد، وارث میر ان معدودے چند اہلِ قلم میں شامل تھے جنہوں نے پاکستانی تاریخ کے ایک سیاہ ترین دور میں صدائے حق بلند کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ وہ جانتے تھے کہ لکھنے والا صرف اپنے عہد کے لیے نہیں لکھتا، بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے تاریخ کی شمع بھی روشن کرتا ہے۔ لیکن جب حالات اس قدر مسموم ہوں کہ سچ بولنا گناہ قرار پائے، تو ایک لکھاری کے لیے سب سے بڑا امتحان یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑا رہے۔ وارث میر نے ایسا ہی کیا۔
جنرل ضیاء کی آمریت نے ریاستی بیانیے کو مذہب کا لبادہ پہنا کر عوام کے اذہان پر قبضہ جمانے کی جو کوشش کی، وارث میر نے اُس کا پردہ چاک کہا۔ وہ اس ’’ مقدس سچ‘‘ کے خلاف صف آرا تھے جسے سرکاری منبر سے قوم پر مسلط کیا جا رہا تھا۔ تب ضیا جنتا یہ چورن بیچ رہی تھی کہ محمد علی جناحؒ پاکستان کو ایک بنیاد پرست اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے، اور یہ کہ 1977ء کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰ درحقیقت ایک عوامی استصواب تھا۔ وارث میر نے اس سرکاری جھوٹ کو اپنی علمیت، تحقیق، اور تاریخی حوالوں سے چیلنج کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ضیاء حکومت کے مسلط کردہ امتیازی قوانین نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کیخلاف ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے روحِ سے بھی میل نہیں کھاتے۔ انہوں نے اسلام کی غلط تشریح کرنے والوں کو بے نقاب کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ اسلام ایک ترقی پسند اور ارتقائی دین ہے، جو ضیائی آمریت کی تنگ نظری کا قائل نہیں اور جس میں اجتہاد کی گنجائش بھی موجود ہے۔وارث میر کی تحریریں ایک وسیع تر فکری جدوجہد کا حصہ تھیں، جس میں آزادیٔ اظہار، جمہوریت، سیکولرازم، آمریت، غیر جماعتی انتخابات، آئینی ترامیم اور انسانی حقوق جیسے موضوعات شامل تھے۔ 9جولائی 1987ء کو صرف 48 برس کی عمر میں اپنی اچانک موت تک، پروفیسر وارث میر اپنے قلم کے ذریعے روشن خیالی اور ترقی پسندی کی ایک نئی روایت رقم کرتے رہے۔ اُن کی تحریریں نہ صرف فکری بلندی کی آئینہ دار تھیں بلکہ ان میں مغرب کی فکری روایت، انسانی حقوق، اور شہری آزادیوں پر مدلل بحث کے ساتھ یہ پہلو بھی موجود تھا کہ ان اصولوں کو پاکستانی سیاق میں کیسے ڈھالا جا سکتا ہے۔ یہ تحریریں سیکولر فکری زاویے کی حامل تھیں، جو تب کی ریاستی سوچ کے برعکس تھیں اور اسی لیے حکمران کے لیے باعثِ اضطراب بھی تھیں۔ چنانچہ انہیں جنرل ضیا کے حواریوں کی جانب سے غدار اور ملک دشمن قرار دیا جانے لگا۔
وارث میر کو ضیا جنتا کے خلاف بغاوت کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ انہیں نہ صرف پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کی چیئرمین شپ سے ہٹا دیا گیا، بلکہ اُنہیں فوجداری کیسوں میں بھی الجھا دیا گیا۔ لیکن ان مشکل ترین حالات میں بھی انہوں نے بڑی جرات مندی کے ساتھ نام نہاد اسلامائزیشن کے عمل کی مخالفت کی اور اسلام کے نام پر اپنے آمرانہ اقتدار کو طول دینے کی ضیائہ کوششوں کو بے نقاب کیا، وارث میر چاہتے تھے کہ مسلمان، بالخصوص پاکستانی، جدید سائنسی علوم حاصل کریں اور سائنسی اور عقلی انداز فکر اپنائیں۔ ان کی جنگ دراصل جہل، ظلمت، تنگ نظری، انتہا پسندی اور آمریت کے خلاف تھی، وہ زندگی بھر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے حریت فکر کے چراغ جلاتے رہے، اپنے نظریات کا پرچار ان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا تھا۔
وارث میر کو ہم سے بچھڑے کئی عشرے بیت گے مگر آج بھی ان کی پر مغز اور فکر انگیز تحریوں کا مطالعہ کریں تو ان میں ہمیشگی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ انہوں نے جن بھی موضوعات پر لکھا وہ آج بھی تازہ ہی لگتے ہیں حالانکہ انکے دور میں ذرائع ابلاغ محدود تھے، کیبل تھی، نہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا، فیس بک تھی نہ یو ٹیوب، موبائل فون تھا نہ گوگل کا نام و نشان، بس چند ایک اخبارات تھے یا پھر ہر وقت حکومتی مدح سرائی کرتے ہوئے سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو۔ اس دور میں اخبارات پر سخت ترین سنسر شپ عائد تھی۔
پاکستان میں ایسے دانشور کم ہی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے نظریات کے لئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی ہو۔ وارث میر کا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کی آخری سانس بھی اپنے نظریات کے پرچار کی نظر کردی۔ اپنی ایک تحریر میں انہوں نے یونانی دیوتا پرومی تھیئس کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ: ’’ اگر سینے میں دل ہو گا، تو اسے نوچنے کے لیے گدھ بھی آئیں گے‘‘۔ بلاشبہ، پروفیسر وارث میر کے سینے میں بھی ایک بہادر دل تھا، لہذا اسے نوچنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ لہذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وارث میر آخری دم تک لڑتے ہوئے وہیں اپنے مورچے میں مارا گیا۔

جواب دیں

Back to top button