Column

اکانومسٹ کی رپورٹ، ہمارا جمہوری اور تعلیمی نظام

روہیل اکبر

ہم تعلیم، انصاف اور صحت کے معاملہ میں دنیا سے پیچھے تو تھے ہی اب جمہوریت میں بھی ہماری تنزلی ہوگئی ہے اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ ( ای آئی یو) کی رپورٹ لکھنے سے پہلے چند باتیں اور بھی پڑھ لیں کہ اس وقت ہمارے اکثر تعلیمی ادارے سربراہان کے بغیر ہی چل رہے ہیں جس کی وجہ سے اداروں میں کام کرنے والوں میں بھی بد دلی پائی جارہی ہے بلخصوص اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایسے افراد اہم عہدوں پر براجمان ہیں جن کے بارے میں محتسب نے لکھ کر دیا ہوا ہے کہ انہیں فوری طور پر ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے لیکن مستقل وائس چانسلر نہ ہونے کی وجہ سے کنٹرولر امتحانات سمیت اور بہت سے افراد اہم سیٹوں پر براجمان ہیں حالانکہ پنجاب حکومت تعلیم کے حوالے سے بہت کچھ کرنا چاہ رہی ہے اور گورنر پنجاب/چانسلر سردار سلیم حیدر خان نے پہلی مرتبہ وائس چانسلرز کانفرنس بھی کرائی جس میں ان کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل ملک کا مستقبل ہیں انہیں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ پر امن اور ساز گار ماحول فراہم کرنا ادارے کی ذمہ داری ہے تعلیمی معیار اور ماحول پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں ہراسگی اور ڈرگز کے خلاف زیرو ٹالرنس ہونی چاہیے انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ویمن یونیورسٹیوں میں مرد ملازمین کم سے کم کرنے کے لیے میکنیزم بنایا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیی اپنی اپنی ضد چھوڑ کر میرٹ پر وائس چانسلر لگا دینے چاہئیں ویسے پنجاب حکومت نے اچھا کام کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر زیب النساء حسین کو ہوم اکنامکس یونیورسٹی لاہور میں 4سال
کیلیے مستقل وائس چانسلر تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا پروفیسر ڈاکٹر زیب النساء حسین پنجاب یونیورسٹی سکول آف کیمسٹری کی پروفیسر ہیں پروفیسر ڈاکٹر زیب النساء حسین نے برطانیہ کی برونل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے اور عالمی شہرت یافتہ بین الاقوامی جریدوں میں 150سے زائد مقالہ جات شائع ہوچکے ہیں وہ پنجاب یونیورسٹی میں سینٹر فار اپلائیڈ کیمسٹری کی ڈائریکٹر بھی رہ چکی ہیں پروفیسر ڈاکٹر زیب النساء حسین کا 25سال سے زائد تعلیمی تجربہ ہے انہیں برطانیہ سے بہترین محقق ہونے کی بنا پر تین ایوارڈ مل چکے ہیں جبکہ وہ رائل سوسائٹی آف کیمسٹری برطانیہ، امریکن کیمسٹری سوسائٹی کی ممبر ہیں۔ وہ برونل سائنس پارک لندن میں اینوائرنمنٹل کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔ پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات اور چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان بھی نئے تعلیمی سال میں بچوں کے داخلہ پر فکر مند ہیں وہ بھی چاہتے ہیں کہ اس سال 20لاکھ بچوں کو انرول کیا جائے میں سمجھتا ہوں کہ یہ پنجاب حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وزیر تعلیم اور چیف سیکرٹری سے گزارش ہے کہ اساتذہ کی ترقیوں پر بھی غور کیا جائے عرصہ 15سال سے زائد ایک ہی سکیل میں پڑھاتے پڑھاتے استاد خود احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے کہ ان سے پڑھنے والے بچے چند سال میں گریڈ22میں پہنچ کر چیف سیکرٹری لگ جاتے ہیں اور وہ بیچارے جس سکیل میں آتے ہیں اسی میں گھر چلے جاتے ہیں جہاں اساتذہ کی عزت نہیں ہوگی تو وہاں نظام تعلیم کیا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں کرپٹ، بددیانت اور منافقت کرنے والوں کو فوری طور پر عہدوں سے فارغ کیا جائے ساتھ میں ان یونیورسٹیوں میں کئی کئی سال سے عارضی ملازمین کو بھی کنفرم کر دیا جائے تاکہ بے یقینی کی فضا ختم ہوسکے ورنہ بے روزگاری تو پہلے ہی اتنی زیادہ ہے کہ لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اس حوالہ سے مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ خیبر پختونخوا مزمل اسلم نے ادارہ شماریات کی جو رپورٹ شیئر کی ہے وہ پریشان کر دینے والی ہے کہ جنوری 2025میں صرف 63000لوگ نوکری کے لئے ملک سے باہر چلے گئے اس تناسب سے سالانہ 750000لوگ نوکری کے حصول کے لئے ملک سے ہجرت کر رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم اور شہباز شریف حکومت کے اقتدار میں ملک سے 20لاکھ لوگ ہجرت کر چکے ہیں وزیر اعظم اور وزراء شرمندہ ہونے کی بجائے ملک میں بیروزگاری اور کاروبار ختم ہونے کی مبارکباد دیتے تھکتے نہیں ہیں جبکہ ملک کے 20لاکھ پڑھے لکھے ٹرینڈ لوگ ملک چھوڑ چکے ہیں اور بہت سے کشتیوں میں جاتے ہوئے سمندر میں ڈوب گئے اب آتے ہیں اس رپورٹ کی طرف جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ جمہوریت کی درجہ بندی 2024میں پاکستان کی 6درجے تنزلی ہو گئی اور یہ 10بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں آگیا رپورٹ میں دنیا بھر کی 165آزاد ریاستوں اور 2خودمختار خطوں کا جائزہ لیا گیا ہے انڈیکس پانچ بنیادوں پر ممالک کا جائزہ لیتا ہے جس میں انتخابی عمل، حکومت کی فعالیت، سیاسی شرکت، سیاسی ثقافت، اور شہری آزادی شامل ہیں ہر ملک کی 4میں سے ایک کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے جس میں مکمل جمہوریت، ناقص جمہوریت، ہائبرڈ نظام اور آمرانہ نظام شامل ہے پاکستان عالمی درجہ بندی میں 2.84 کے مجموعی اسکور کے ساتھ 124ویں نمبر پر رہا جس کی درجہ بندی آمرانہ حکومت کے طور پر کی گئی عالمی انڈیکس میں گراوٹ کے نتیجے میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ آمرانہ حکومتیں وقت کے ساتھ ساتھ مزید آمرانہ ہو جاتی ہیں اور دنیا کی ایک تہائی سے زائد آبادی (39.2)فیصد آمرانہ حکومتوں میں رہائش پذیر ہے جسکا تناسب حالیہ برسوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے جبکہ اب 60ممالک کی درجہ بندی آمرانہ حکومتوں کے طور پر کی گئی ہےEIU کی رپورٹ نے خطے کے تجزیے میں بتایا ہے کہ ایشیا اور آسٹریلیا میں اوسط انڈیکس اسکور 2024میں لگاتار چھٹی بار 5.41 سے گر کر 5.31پر آگیا جن میں بنگلہ دیش، جنوبی کوریا اور پاکستان بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک ہیں جن کی عالمی درجہ بندی میں بالترتیب 25، 10اور 6درجے تنزلی ہوئی دنیا کی نصف سے زائد آبادی پر مشتمل 70سے زائد ممالک بشمول پاکستان میں
گزشتہ سال انتخابات منعقد ہوئے جہاں دھاندلی جیسے مسائل کو اجاگر کیا گیا یہ صورتحال خاص طور پر آمریتوں میں ہوتی ہے بہت سے ممالک بشمول آذربائیجان، بنگلہ دیش، بیلاروس، ایران، موزمبیق، پاکستان، روس اور وینزویلا میں آمرانہ حکومتوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے ہر طرح کا طریقہ استعمال کیا گیا بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک کو جمہوری عمل جیسا کہ انتخابی جوڑ توڑ، تقسیم کی سیاست اور سیاسی بدامنی کے لیے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے جنوبی ایشیا میں 2024کے انتخابات دھوکا دہی اور تشدد سے متاثر ہوئے پاکستان میں 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں حکام کی جانب سے سیاسی جبر اور مداخلت کے الزامات بھی لگائے گئے جنوبی ایشیا میں جمہوریت کے امکانات غیر یقینی ہیں ڈیموکریسی انڈیکس کے ڈائریکٹر جان ہوئی کا کہنا تھا کہ 2006سے انڈیکس کے رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آمریت مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور دنیا کی جمہوریتوں کو مشکلات درپیش ہیں یہ تو تھی رپورٹ اب حکومت کے اتحادی جناب مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے لاہور کے صدر نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی محمد افضل خان کا کہنا ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کو حکمرانوں نے بھکاری بنا دیا پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر ملک میں اشیائے خوردونوش کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں جھوٹے حکومتی دعوں سے عوام بہل نہیں سکتے غریب پاکستانیوں کو عملی ریلیف کی اشد ضرورت ہے حکمرانوں کی مفاداتی سیاست نے عوام کو فاقوں اور خودکشیوں پر مجبور کر رکھا ہے حکمرانوں کی نااہلی نے ملک کو معاشی بدحالی کا شکار بنایا عوام سے غلط بیانی کرکے حکمران خود کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button