Column

چین ایک نئے وائرس کی زد میں

تحریر : رفیع صحرائی
خبر یہ ہے کہ چین میں کرونا کے بعد اب پانچ سال بعد ایک نیا جان لیوا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں۔ اس وائرس سے متاثر ہونے والوں کو کرونا اور نزلہ جیسی شکایات ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ اس وائرس کے شکار افراد کی ایک بڑی تعداد موت کے منہ میں جا چکی ہے جو ہزاروں میں بیان کی جا رہی ہے۔ چین کا سرکاری میڈیا اس سلسلے میں ابھی تک خاموش ہے تاہم انٹرنیٹ پر خبروں کی بھرمار ہے۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چین میں تیزی سے پھیلنے والے اس وائرس کو ہیومن میٹا پینو وائرس (HMPV) کا نام دیا گیا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پوسٹوں کے مطابق یہ وائرس بہت تیزی سے پھیلا ہے۔ ہسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں جبکہ مرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ دوسری طرف چین میں صحت سے متعلقہ حکام وائرس کے پھیلنے کے ساتھ ہی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ چین میں سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں ہسپتالوں میں رش دکھایا گیا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین کے مطابق انفلوئنزا ایچ ایم پی وی، نمونیا اور کرونا وائرس پھیل رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر یہ دعوے بھی سامنے آ رہے ہیں کہ چین نے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ پانچ سال قبل 2019 میں کرونا وائرس کی ابتدا بھی چین ہی سے ہوئی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل گیا تھا اور اس نے لاکھوں زندگیاں نگل لی تھیں۔ غالباً ایک مرتبہ پھر چین ایک نئے وائرس کا کیریئر بننے جارہا ہے۔ اس وائرس کے پھیلائو کی رفتار سے اندازہ ہورہا ہے کہ اگر اس پر قابو پانے کے انتظامات نہ کئے گئے تو دنیا بھر میں انسانی زندگیاں ایک مرتبہ پھر بڑے خطرے سے دوچار ہوسکتی ہیں۔ اگر سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں درست ہیں تو چین کو صورت حال واضح کرنی چاہئے تاکہ دنیا کے دیگر ممالک اپنے لوگوں کی جانیں بچانے کیلئے حفاظتی اقدامات کر سکیں۔ دنیا ابھی کرونا کی تباہی سے پوری طرح نہیں سنبھل سکی ہے۔ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی مہنگائی کرونا ہی کی پیدا کی ہوئی ہے جب دنیا بھر میں کاروبار زندگی معطل ہوگیا تھا۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے تھے۔ بازار سنسان اور گلیاں ویران ہوگئی تھیں۔ ہسپتال آباد اور گرائونڈ اجڑ گئے تھے۔ تب طلب کے مقابلے میں رسد کی مقدار انتہائی کم ہوگئی تھی جس نے ایک بہت بڑے بحران کو جنم دیا تھا۔ اس بحران نے مہنگائی کی ایسی لہر کو جنم دیا تھا جس نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دوسری طرف مزدور اور دیہاڑی دار لوگوں کے گھرانے کام نہ ہونے کے سبب فاقہ کشی کا شکار ہوگئے تھے۔
کرونا کے بارے میں یہ خبر بھی پھیلی تھی کہ یہ قدرتی وائرس نہیں تھا بلکہ لیبارٹری میں پیدا کردہ تھا جسے چین کی بڑھتی پھیلتی اور عالمی منڈیوں پر قبضہ کرتی ہوئی معیشت کی راہ روکنے کیلئے استعمال کیا گیا تھا۔ تب یہ خبر بھی پھیلی تھی کہ اس وائرس کو چین کی کسی فیکٹری میں چھوڑا گیا تھا اور اس کا مقصد صرف چینی آبادی کو متاثر کرنا تھا لیکن وہاں سے یہ دنیا بھر میں پھیل گیا تھا۔ اس پہلو پر عالمی سطح پر تحقیقات بھی شروع کی گئی تھیں لیکن تحقیقاتی رپورٹ سے دنیا کو بے خبر رکھا گیا۔
اب پانچ سال بعد چین ہی میں نئے وائرس کی آمد یقیناً چونکا دینے والی خبر ہے جس نے اس سوال کو بھی جنم دیا ہے کہ آخر چین ہی میں ایسے وائرس کیوں پیدا ہوتے ہیں جو بجلی کی رفتار سے پھیلتے ہیں۔ یہ وائرس صرف انسانی زندگی کیلئے خطرہ ہیں۔ باقی جاندار اس سے محفوظ ہیں۔ موجودہ وائرس HMPVکی پیدائش اور پھیلائو کے سلسلے میں مکمل تحقیق ہونی چاہئے۔ اس وائرس کے انسانی زندگی کو لاحق خطرات سے دنیا بھر کو بروقت آگاہی دینا بھی ضروری ہے تاکہ اگر کرونا کی طرح یہ وائرس بھی چین سے باہر پھیلنے لگے تو دیگر ممالک پیشگی حفاظتی انتظامات کر سکیں۔ کرونا نے ایک طرح سے شب خون مارا تھا۔ دنیا کو اس کی خطرناکی سے آگاہی اس وقت ہوئی جب یہ قابو سے باہر ہوچکا تھا۔ دنیا کو HMPVکے سلسلے میں ابھی سے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ اس کی آواز کو سو کر نظرانداز کرنے کے بجائے بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button