ہیلمٹ بہت ضروری ہے

تحریر۔۔۔ رفیع صحرائی
ہمارے ہاں قانون کی خلاف ورزی کو قومی رواج کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ گو انسان کی فطرت میں بغاوت کا عنصر موجود ہے مگر ہمارے ہاں اس عنصر نے دیگر عناصر پر غلبہ حاصل کیا ہوا ہے۔ آپ مہذب معاشروں کو دیکھ لیں۔ کسی بھی کام کے لیے جہاں دو لوگ اکٹھے ہوں گے فوراً قطار بنا لیں گے۔ ایسا صرف سرکاری دفاتر کے کاموں میں نہیں ہوتا۔ کسی گروسری شاپ پر بھی وہ لوگ جائیں گے تو ان کا رویہ یہی ہو گا۔ ہوٹل سے کھانا لینے کے لیے بھی وہ لوگ صبر اور سکون سے اپنی باری کا انتظار کریں گے۔ وہاں یہ رواج ہی نہیں ہے کہ باری سے پہلے اپنے کام کے لیے دوسروں کو مجبور کیا جائے۔
ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ بنک میں کام ہو تو کوشش کی جاتی ہے کہ بینک آفیسر یا کیشیئر سے واقفیت نکل آئے۔ ایسا نہ ہو تو اس کے کسی جاننے والے سے فون کروایا جاتا ہے کہ لائن میں لگے بغیر فوری کام ہو جائے۔ جب ایسا ہو جائے تو بینک سے باہر نکل کر سانپ والے کا مجمع دیکھتے گھنٹوں گزار دیئے جائیں گے یا کسی ڈھابے پر بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنے کسی دوست کو فون ملا کر اپنی اہمیت جتانے کے لیے بتایا جائے گا کہ کس طرح بنک میں فوری طور پر کام کروایا گیا۔ یہی صورتِ حال باقی مقامات پر بھی درپیش ہوتی ہے۔ کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں کہ ہم ایک غلط حرکت کے مرتکب ہوئے ہیں یا ہم قانون کی خلاف ورزی پر فخر کا اظہار کر رہے ہیں۔ قانون توڑنا ہمارے ہاں باعثِ افتخار سمجھا جاتا ہے۔
یہی رویّہ ٹریفک قوانین کے سلسلے میں ہم اختیار کرتے ہیں۔ سکون سے سفر کر رہے ہوتے ہیں لیکن جہاں کسی جگہ ٹریفک کی پابندی کی کوئی علامت نظر آئے تو ہماری باغیانہ رگ پھڑک اٹھتی ہے۔ جب تک اس پابندی کو توڑ نہ لیں تب تک بے سکون رہتے ہیں۔ غلط جگہ سے یوٹرن لینا، غلط سائیڈ سے دوسری گاڑی کو اوور ٹیک کرنا، سکولوں اور ہسپتالوں کے سامنے تیز ہارن بجانا، دورانِ ڈرائیونگ فون کا آزادانہ استعمال، اوور سپیڈنگ، تنگ سڑک پر دوسری گاڑی سے ریس لگانا وغیرہ ہمارے ہاں معمول کی باتیں ہیں۔
ایک اور بری پریکٹس ہمارے ہاں موٹر سائیکل سواروں کا ہیلمٹ استعمال نہ کرنا ہی۔ کئی بار لوگوں کو ہیلمٹ کی افادیت سے آگاہی کی مہم چلائی گئی۔ چند ماہ پہلے بھی اس پر سختی سے عمل کرانے کی کوشش کی گئی کہ بغیر ہیلمٹ کوئی شخص موٹر سائیکل لے کر نہ نکلے مگر اس چندروزہ مہم کے خاطرخواہ نتائج نہ نکل سکے۔ عوام صرف سختی کی زبان سمجھتے ہیں۔ اگر ان سے یہ امید رکھی جائے کہ رضاکارانہ طور پر قانون کی پابندی کریں گے تو یہ آپ کو ہمیشہ مایوس کریں گے۔ جس طرح عام سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہوا ڈرائیور جب موٹروے پر گاڑی چڑھاتا ہے تو اچانک قانون پسند اور شریف بندہ جاتا ہے کہ اسے بھاری جرمانے کا ڈر ہوتا ہے۔ اسی طرح موٹرسائیکل سوار تب ہیلمٹ کا استعمال کرتا ہے جب اسے پکڑے جانے اور چالان ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ اگر ٹریفک پولیس چندروزہ مہم کو مستقل اپنا لے تو خاطر خواہ نتائج نکل سکتے ہیں۔ ویسے یہاں بھی ہم بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل سواروں کے عجیب رویّے دیکھتے ہیں۔ پولیس کے رکنے کے اشارے پر ان کی پہلی کوشش تو بھاگ جانے کی ہوتی ہے۔ کچھ نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو فوراً ہی جیب سے موبائل فون نکال کر کسی واقف کار پولیس والے کا نمبر ملا کر بات کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ منچلے تو حلقہ کے ایم پی اے یا ایم این اے سے بات کروا دیتے ہیں۔ کئی نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو روکے جانے پر ہاتھ جوڑتے اور اپنی غربت کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔
یاد رکھئے! دنیا میں جتنے بندے موٹر سائیکل نے نگلے ہیں اور کسی چیز نے اتنے بندے نہیں مارے۔ پاکستان میں روزانہ اوسطاً دس بندے اپنی زندگی موٹر سائیکل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں جبکہ موٹر سائیکل کو بچاتے ہوئے بھی بہت سے حادثات ہوتے ہیں۔ موٹر سائیکل حادثات میں روزانہ زخمی ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن میں سے کئی زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔
تیز رفتار موٹر سائیکل جب کسی چیز سے ٹکراتی ہے تو اس کی ٹکرنے کی رفتار وہی ہوتی ہے جس رفتار سے موٹر ساxیکل چل رہی ہوتی ہے۔ مثلاً اگر موٹر سائیکل 60 کلومیٹر کی رفتار سے جا رہی ہے تو اس کے اوپر بیٹھا بندہ بظاہر تو ساکن ہے لیکن اردگرد کے ماحول کے حساب سے اس بندے کی سپیڈ 60 کلومیٹر ہوتی ہے۔ اچانک رکاوٹ، مزاحمت یا بریک کی وجہ سے وہ بندہ 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے موٹرسائیکل سے آگے نکل جاتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب کوئی بھی چیز اڑتی ہے تو اس کا بھاری حصہ پیچھے رہ جاتا ہے اور ہلکا حصہ آگے کی طرف ہو جاتا ہے۔ انسانی جسم کا بھاری حصہ چھاتی سے نیچے ہے۔ ادھر ہڈی بھی وزنی ہوتی ہے اور گوشت و انتڑیاں بھاری ہوتی ہیں لہٰذا حادثے کی صورت میں سر خود بخود آگے کو ہو جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر سب سے پہلے سر ہی سڑک یا کسی سامنے والی چیز سے ٹکراتا ہے۔ سر پر چوٹ لگنے کا نتیجہ فوری موت یا بیہوشی کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان میں سر کی چوٹ (Head injury)کے ڈاکٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
جو لوگ غریب ہونے کی وجہ سے ہیلمٹ نہیں خرید سکتے وہ ڈیڑھ دو لاکھ کا موٹر سائیکل کیسے خریدتے ہیں؟ اس کی مرمت کہاں سے کرواتے ہیں؟ اور اس میں پٹرول ڈلوانے کے پیسے کس طرح برداشت کرتے ہیں؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم لوگ دو ہزار روپے جرمانہ نہیں دے سکتے، اسے ہم خود پر ظلم سمجھتے ہیں مگر کفن دفن، تنبو قناتوں اور مہمانوں کے کھانے کا انتظام آسانی سے کر لیتے ہیں۔ دو ہزار جرمانہ نہیں دے سکتے مگر سر کی چوٹ کے اصل تعین کے لیے MRI کی فیس دس ہزار روپے آسانی سے دے لیتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ دو ہزار روپے کا ہیلمٹ ہی خرید لیا جائے۔ جان بہت قیمتی چیز ہے۔ ہیلمٹ موٹر سائیکل چلاتے وقت واحد سیفٹی ہے۔ سر بچ جائے، بندہ بچ جاتا ہے۔ ہڈیاں جڑ جاتی ہیں۔ زخم بھر جاتے ہیں۔ سر ٹوٹ جائے تو دوسرا سر نہیں ملتا۔ بہتر ہے کہ اپنا سر توڑنے کی بجائے دو ہزار کا ہیلمٹ توڑ لیں۔





