Column

کچے کے ڈاکوئوں پر پکا ہاتھ

تحریر : صفدر علی حیدری
کچے کے ڈاکو سندھ اور پنجاب کی دریائی پٹی میں سرگرم ایک مجرم گروہ ہے۔ وہ اغوا، بھتہ خوری اور قتل سمیت اپنی پرتشدد سرگرمیوں کے لیے مشہور ہیں ۔
ڈاکو اپنے وحشیانہ ہتھکنڈوں کے لیے بدنام کی حد تک مشہور ہیں۔ وہ شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں کو اغوا کرتے ہیں، جسمانی تشدد کی ویڈیوز بناتے ہیں اور لاکھوں روپے تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تاوان نہ ملنے کی صورت میں، یرغمالیوں کو بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی کارروائیوں کو مختلف غیر قانونی سرگرمیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہ بہت سے شہریوں کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ ان کے خلاف کئی بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے باوجود ، وہ جنوبی اضلاع میں کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکوئوں کو سالانہ ایک ارب روپے تاوان ملتا ہے۔ 2022ء کے دوران ، ڈاکوئوں نے تاوان کے لیے 300افراد کو اغوا کیا ۔ ڈاکو مبینہ طور پر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں جن میں مارٹر، راکٹ سے چلنے والے دستی بم ( آر پی جی) اور طیارہ شکن بندوقیں شامل ہیں۔ ان کے ہتھیار مقامی پولیس سے بہتر ہیں ، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک اہم چیلنج ہیں نومبر 2022ء میں ڈاکوئوں کے حملے میں ڈی ایس پی عبد الملک بھوٹو، ایس ایچ او عبد الملک کامانگر ، ایس ایچ اے دین محمد لاگھری اور دو پولیس کانسٹیبل سمیت پانچ پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ مئی 2023ء میں، گھوٹکی میں ان ڈاکوئوں نے دو افراد کو اغوا کر لیا تھا ۔ مارچ 2024ء میں، ایک پرائمری ٹیچر ، اللہ راکھیو نندوانی ، جس نے صوبہ سندھ کے ضلع کشمور کنڈکوٹ میں کچے ڈاکوئوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی، کو مبینہ طور پر کچے ڈاکوئوں نے قتل کر دیا تھا۔
ڈاکو مقامی حکام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں، ان کے خلاف کئی کریک ڈائون کے باوجود ، ان کی سرگرمیوں نے مقامی آبادی میں خوف پیدا کیا ہے اور ان کا اثر و رسوخ بڑھتا نظر آتا ہے۔ خطرے سے موثر طریقے سے نمٹنے میں ناکامی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
حکومت سندھ ان ڈاکوئوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے فعال طور پر کام کر رہی ہے ۔ تاہم اپریل 2024ء میں سندھ کے سابق وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ جب تک کچھ میں زمینداروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی، ڈاکوئوں کا خاتمہ نہیں ہو گا ۔
کچے کے علاقے کے ڈاکوئوں کی وارداتیں آج سے نہیں عرصہ چار عشروں سے جاری و ساری ہیں۔ کتاب ’’ ڈاکوئوں کی دہائی‘‘ کے مطابق اس علاقے کے ڈاکوئوں نے 1984سے 1994تک یعنی دس برسوں میں 11436افراد کو تاوان کے لئے اغوا کیا۔ 1337افراد کو قتل کیا گیا اور دو ارب روپے کا تاوان وصول کیا گیا۔ پچھلے ماہ مارچ میں جاری سندھ پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے ڈاکوئوں نے ایک سال میں 400افراد کو اغوا کیا۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود پنجاب یا سندھ حکومت ان ڈاکوئوں کا مکمل خاتمہ کیوں نہیں کر سکی؟ گھنائونی وارداتیں کرنے والے قابو میں کیوں نہیں آ رہے؟۔
کچے کے علاقے میں پنجاب اور سندھ دونوں صوبوں کا وسیع علاقہ شامل ہے اور اس کی سرحد بھارت سے بھی ملتی ہے ۔ جب دریائے سندھ مون سون کی بارشوں کے دوران پوری طرح سے پھیلتا ہے تو پانی دریا کے دائیں اور بائیں طرف پھیل کر حفاظتی بندوں تک پہنچ جاتا ہے۔ برطانوی دور حکومت میں جب نہری نظام بنایا گیا تھا تو حفاظتی بندوں کے اندرونی علاقے کو کچا اور بیرونی علاقے کو پکا قرار دیا گیا۔کچے کے علاقے میں شر، تیغانی، جاگیرانی، جتوئی سمیت مختلف بلوچ اور چاچڑ، مہر، میرانی و سندرانی سمیت دیگر سندھی قبائل آباد ہیں جو یہاں کی زرخیز زمین پر کاشتکاری کرتے اور مال مویشی پالتے ہیں۔ کچے کے علاقے کی زمین محکمہ جنگلات اور محکمہ ریونیو کی ملکیت ہے جو کسی کو باضابطہ طور پر الاٹ نہیں کی گئی ہے۔
کئی بڑے بڑے زمینداروں کی کچے میں ہزاروں ایکڑ اراضی ہے ۔ ان میں سے کئی بڑے زمیندار سیاست میں بھی متحرک ہیں ۔ یہ علاقہ گنجان یا بے آباد نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں 10لاکھ سے زائد آبادی مقیم ہے ، جو مویشی بانی اور زراعت سے وابستہ ہے۔ جنگلات، جھاڑیوں اور کچی زمین کی وجہ سے یہاں ڈاکوئوں کے لیے چھپ کر اپنی کارروائیاں کرنا اور پناہ لینا آسان ہو جاتا ہے۔ یہاں مختلف قوموں اور برادریوں کی آ پس میں لڑائیاں اور رنجشیں تادیر چلتی رہتی ہیں ۔
شمالی سندھ بالخصوص گھوٹکی، شکار پور اور کشمور کندھ کوٹ میں خواتین کی آواز میں فون کالز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اغوا کی وارداتوں کا نیا رجحان سامنے آیا ہے ، جس میں اب ڈاکو اغوا کی وارداتیں نہیں کرتے بلکہ مغوی خود ڈاکوئوں کے پاس اغوا ہونے کے لیی پہنچ جاتا ہے ۔ انہوں نے خواتین رکھی ہوئی ہیں جو لوگوں کے ساتھ رابطہ کرتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کو یہاں آنے کے لیے آمادہ کر لیتی ہیں۔ زیادہ تر واقعات میں متاثرہ شخص خود موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جاتا ہے کیونکہ مغوی کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ آگے جا کر وہ اغوا ہو جائے گا۔ گویا کچے کے ڈاکوئوں کے پاس لوگوں کو دھوکے سے اپنے پاس بلا کر اغوا کرنے کے کئی طریقے ہیں ۔ زیادہ تر وہ لوگ ان حربوں میں پھنستے ہیں جو سندھ کے باہر سے آتے ہیں۔ مغوی جب رضاکارانہ طور پر خود کچے کے علاقے میں جائیں تو یہ بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے 90فیصد اغوا کی وارداتیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئی ہیں ۔
رواں سال مارچ میں گھوٹکی کی پولیس نے جھنگ کے رہائشی محمد حسن اور ظفر لغاری کو بازیاب کرایا تھا جو کاریں خریدنے کے جھانسے میں آ کر اغوا ہوئے تھے۔ اسی طرح سالار اور مسعود پٹھان پشاور سے سستا ٹرک خریدنے آئے تھے اور وہ اغوا ہو گئے۔ پولیس کے مطابق ڈاکو جن لوگوں کو بلاتے ہیں وہ زیادہ تر سندھی نیوز چینل یا خبریں نہیں سنتے۔ انھیں یہ گاڑیوں کا جھانسا دیتے ہیں، ٹرالر، ٹرک، ٹریکٹر، مال مویشی کی خرید و فروخت کا لالچ دیتے ہیں ۔ گھوٹکی کے ڈاکو فقیر نثار شر باقاعدگی سے سوشل میڈیا پر آ کر پولیس کو دھمکاتے ہیں اور اپنی شر برادری اور ڈاکوئوں کا ساتھ دیتے ہیں ۔ حافظ قرآن نثار شر کو ڈاکوئوں کا ترجمان سمجھا جاتا ہے ( تازہ ترین اطلاع کے مطابق اسے ہلاک کر دیا گیا ہے )مغویوں کے ورثا تک پیغام پہنچانے کے لیے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ ڈاکو بعض اوقات مغویوں پر تشدد کی ویڈیوز بناتے ہیں جس میں وہ لواحقین سے فوری تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ بعض ویڈیوز میں مغویوں کو برہنہ بھی دکھایا جاتا ہے ۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ پولیس نے متعلقہ فورم پر کچے کے علاقے میں موبائل فون سروس معطل کرنے کی درخواست کی تاکہ ڈاکو واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کا استعمال نہ کر سکیں تاہم ان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی ۔ البتہ پی ٹی اے نے 50سے زائد ایسی سمز ضرور بلاک کی ہیں جن کے ذریعے جرائم کیے جا رہے تھے ۔بعض اطلاعات کے مطابق کچے کے ڈاکوئوں کے پاس دیگر اسلحہ کے علاوہ 12.7ایم ایم طیارہ شکن بندوقیں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ آر پی جی ہیں جس سے وہ پولیس آپریشن کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق ڈاکوئوں کے پاس بھاری اسلحہ ہے جس کو بکتر بند گاڑیاں برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ۔ ڈاکوئوں نے اپنے دفاع کے لیے چاروں طرف خندقیں کھود رکھی ہیں اور مٹی کے بڑے بڑے بند باندھے ہوئے ہیں اور یہاں سے باہر جانے کے لیے صرف موٹر سائیکل کے لیے راستہ چھوڑا گیا ہے۔
بھارتی سرحدی علاقے سے منسلک کچے کے علاقے میں ان ڈاکوئوں کے پاس جدید ترین بھارتی اسلحہ، راکٹ لانچر سندھ پنجاب پولیس سے چھینی گئی بکتر بند گاڑیاں، وائرلیس سسٹم تک موجود ہیں۔ وہ ایک حکمت عملی کے تحت لوٹ مار کا باقاعدہ نظام چلا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جب پورے ملک میں سکیورٹی خدشات کے نام پر انٹرنیٹ سروس معطل کردی جاتی ہے کچے کے ڈاکو بلاتعطل اس سہولت سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔ کچے کے ڈاکوئوں کو کوئی وفاقی ادارہ پوچھ سکتا ہے نہ دو صوبوں کی پولیس ان پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ کچھ اہلکار ان کے سہولت کار بھی ہیں۔ خدشہ یہی نظر آتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈاکو طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند کالعدم مسلح تنظیموں کی طرح ریاست کے لئے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں ۔
ماضی قریب میں ایسے بہت ٹوپی ڈرامے دیکھے ہیں، نام نہاد پولیس آپریشنز کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر دئیے جاتے ہیں۔ وزرائے اعلیٰ مورچوں کا دورہ کر کے اہلکاروں کو شاباش دیتے ہیں ، کروڑوں کے بجٹ، اسلحہ گولہ بارود، خصوصی الائونسز کے نام پر خرچ کر دئیے جاتے ہیں نتیجہ صفر جمع صفر، جواب صفر۔ ہماری تو عقل یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی جاتی ہے کہ جنہیں ہم کچے کے ڈاکو کہتے ہیں دراصل یہ مستقبل کے دہشت گرد ہیں۔
واضح شواہد موجود ہیں کہ کچے کے ڈاکو جب چاہیں ، جیسے چاہیں ، جس سے چاہیں ، مسافر گاڑیاں روک کر بھتہ وصول کرتے ہیں ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مسافروں کی طرف سے مزاحمت پر انہیں فائرنگ کر کے قتل تک کر دیا جاتا ہے ۔
صاحبان اختیار سے پوچھنا بنتا ہے کہ کچے کا علاقہ پاکستان میں ہے انڈیا میں ہے یا امریکہ میں ہے۔ صرف چند سال میں یہاں کے ڈاکو اتنے مضبوط کیسے ہو گئے ہیں، مٹھی بھر ڈاکو ایک غنڈا ریاست کا وجود پیدا کر رہے ہیں۔ کچے کا علاقہ اتنا بڑا نہیں نہ ہی ڈاکوئوں کی تعداد زیادہ ہے کہ ان کے خلاف موثر کارروائی نہ کی جا سکے ۔ آپ کو یاد ہو گا کہ چھوٹو گینگ کے سربراہ کو فوجی کارروائی کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا تو امید پیدا ہوئی کہ یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو جائے گا مگر ۔۔۔
کچہ ماچھکہ میں گیارہ پولیس اہلکاروں کی ہلاکت نے پھر سے اس موضوع کو زندہ کر دیا ہے ۔ سابقہ تجریہ تو یہی بتاتا ہے کہ چند دن شور مچے گا اور پھر نئے سانحے تک خاموشی چھا جائے گی ۔
کیا کچے کے ڈاکوئوں پر پکا ہاتھ ڈالا جا سکے گا ؟
آخر میں چھوٹو گینگ کے سربراہ کے حوالے سے ایک پیراگراف پیش کیا جاتا ہے جسے پڑھ کر سارا معاملہ صاف ہو جائے گا ۔
بدنام زمانہ کچے کا ڈاکو غلام رسول عرف چھوٹو سینٹرل جیل ملتان سے سزا پوری ہونے پر رہا ہو گیا۔ ملزم پر اغوا برائے تاوان، ایلیٹ فورس کے 12جوان شہید کرنے اور متعدد پولیس جوانوں کو یرغمال بنانے سمیت دیگر سنگین الزامات ہیں ۔ غلام رسول چھوٹو پر 14مختلف سنگین مقدمات درج تھے ۔ بتایا جارہا ہے چھوٹو گینگ کا سرغنہ غلام رسول راجن پور سمیت دیگر کچے کے علاقے میں رہائشی پزیر تھا ، جس نے پولیس آپریشن کے دوران ایلیٹ فورس پر حملہ کیا۔ اس حملے میں بارہ پولیس کے جوان شہید ہوئے جبکہ متعدد جوانوں کو اس نے یرغمال بنایا، غلام رسول عرف چھوٹو نے اپنی گرفتاری کے بعد بیشتر پولیس ملازمین اور وڈیروں کے اپنے ساتھ ملوث ہونے کا بھی انکشاف کیا تھا۔ غلام رسول پر 14مقدمات درج ہیں اور اس کو سزا’’ پوری ‘‘ ہونے پر رہا کیا گیا ۔ غلام رسول عرف چھوٹو کو سال 2017میں ڈی جی خان جیل سے ملتان سینٹرل جیل شفٹ کیا گیا تھا ۔

جواب دیں

Back to top button