Column

جماعت اسلامی کے دھرنے کے نتائج آنا شروع ہو گئے

تحریر : رفیع صحرائی
جماعت اسلامی کا دھرنا حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں اسلام آباد میں جاری ہے۔ دھرنے کے شرکاء بڑے پرامن طریقے سے بیٹھے ہیں جبکہ حافظ نعیم الرحمان اپنے ولولہ انگیز خطاب سے شرکاء کے دلوں کو گرمائے ہوئے ہیں۔ ایک بڑے مقبول صحافی نے اس دھرنے کے بارے میں اپنے یوٹیوب وی لاگ میں کہا ہے کہ اس دھرنے سے جماعت اسلامی کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ممکن ہے بہت معمولی حد تک جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہو جائے مگر مجموعی طور پر جماعت اسلامی کو کچھ ملنے والا نہیں ہے۔
مجھے اس جید صحافی کا یہ وی لاگ تعصب پر مبنی لگا ہے۔ انہوں نے اپنی باتوں سے ایسا تاثر دیا ہے جیسے جماعت اسلامی اپنے کسی سیاسی مقصد کے لیے دھرنا دیئے بیٹھی ہے اور حکومت اس کا کوئی مطالبہ بھی تسلیم نہیں کرے گی۔
دوسری طرف حکومتی رویّے کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ حکومت اس دھرنے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے۔ وزیرِ داخلہ جناب محسن نقوی نے جماعت اسلامی کے راہنما جناب لیاقت بلوچ سے خود ٹیلیفونک رابطہ کر کے مذاکرات کی پیشکش کی۔ جس کے جواب میں جماعت اسلامی کی طرف سے دس مطالبات کی فہرست پیش کر کے کہا گیا ہے کہ مذاکرات ان مطالبات کی بنیاد پر ہوں گے۔
جماعت اسلامی نے اپنے مطالبات میں کہا ہے کہ حکومت 500یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو 50فیصد رعایت دے اور پیٹرولیم لیوی ختم اور قیمتوں میں حالیہ اضافہ فوری واپس لے۔ جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 20فیصد کمی لائی جائے، اسٹیشنری آئٹمز پر لگائے گئے ٹیکسز فوری ختم کیے جائیں۔ جماعت اسلامی کا مزید مطالبہ ہے کہ حکومتی اخراجات کم کرکے غیرترقیاتی اخراجات پر 35فیصد کٹ لگایا جائے، کیپسٹی چارجز اور آئی پی پیز کو ڈالروں میں ادائیگی کا معاہدہ ختم کیا جائے اور آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔ جماعت اسلامی نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ زراعت اورصنعت پر ناجائز ٹیکس ختم اور 50فیصد بوجھ کم کیا جائے، صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری کویقینی بنایا جائے تاکہ نوجوانوں کو روزگار ملے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ختم اور مراعات یافتہ طبقیکو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
دیکھا جائے تو ان مطالبات میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے جماعت اسلامی اپنے لیے کوئی رعایت یا سپیس چاہتی ہو۔ یہ تمام مطالبات عوام کے دل کی آواز ہیں۔ صرف اپوزیشن کی جماعتیں ہی جماعت اسلامی کے اس دھرنے کی حمایت نہیں کر رہیں بلکہ حکومتی اتحاد پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے سیاسی ہمدردی رکھنے والے بھی جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کیونکہ یہ مطالبات ان کے بھی دل کی آواز ہیں۔
عوام حکومتی بے حسی اور مہنگائی کے طوفان کے ہاتھوں پریشان ہے۔ عوام کا خون چوس کر اشرافیہ کو دی جانے والی شہنشاہی مراعات نے عوام کو غضب ناک کر رکھا ہے۔ ایسے میں حافظ نعیم الرحمان انہیں مسیحا کے روپ میں نظر آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے خاص طور پر آئی پی پیز کی لوٹ مار، آئی پی پیز کے ساتھ حکومتوں کے عوام کُش معاہدوں اور مراعات یافتہ طبقے پر حکومتی نوازشوں سے عوام میں بیداری کی لہر پیدا کر دی ہے۔ عوام اپنے حقوق لینے کی خاطر سڑکوں پر نکلنے کو بالکل تیار ہو چکی ہے۔ حکومت کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ اگر دھرنے کے شرکاء پر سختی کی گئی یا زور زبردستی کر کے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی گئی تو اس دھرنے کا دائرہ پورے ملک میں پھیل سکتا ہے۔ اس وقت حافظ نعیم الرحمان کی بجائے کوئی دوسرا لیڈر بھی میدان میں ہوتا تو عوام اس کے پیچھے چل پڑتی۔ مہنگائی اور حکومتی لوٹ مار، اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقی پر نوازشات کی موسلا دھار بارش صرف حافظ نعیم الرحمان اور جماعت اسلامی کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کی نوے فیصد عوام کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ اب عوام میں نازک موڑ سے گزرنے اور خالی خزانے کو بھرنے کے نام پر مزید لٹنے کی سکت نہیں رہی۔
حکومت کو بھی معاملے کی سنگینی کا ادراک ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وزارتِ توانائی نے بیوروکریٹس، ججز اور پارلیمنٹیرینز سمیت سب کی مفت بجلی بند کرنے کی تجویز پر غور شروع کر دیا ہے۔ یہ ایمر جنسی پلان انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز ( آئی پی پیز) کے خلاف ملک گیر آگاہی مہم کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دوسرے مرحلے میں مفت پٹرول کی سہولت ختم کی جائے گی۔
جماعت اسلامی کی نائب امیر لیاقت بلوچ، امیرالعظیم، سید فراست شاہ اور نصراللہ رندھاوا پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی اور امیر مقام، عطا تارڑ، طارق فضل چودھری، تاجر رہنما کاشف چودھری پر مشتمل حکومتی مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات کا ایک دور ہو چکا ہے، جس میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی بھی موجود تھے۔ مذاکرات کا پہلا دور حوصلہ افزا رہا ہے۔ کمشنر آفس راولپنڈی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد جناب لیاقت بلوچ نے میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئی کہا کہ غیر ملکی آئی پی پیز میں صرف چین شامل ہے۔ باقی سب مقامی ہیں۔ چین کی آڑ میں حکومت کو مقامی آئی پی پیز کا تحفظ نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے ہمارے مطالبات پر غور کے لیے ایک بڑی کمیٹی بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے ہمارا دھرنا جاری رہے گا۔ اور یہ پورے ملک میں بھی پھیل سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کی مذاکراتی ٹیم مکمل ہوم ورک کے بعد میدان میں اتری ہے۔ حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ جب تک نتیجہ خیز مذاکرات کے بعد ہمارے مطالبات تسلیم کرنے کا تحریری معاہدہ نہیں ہو گا تب تک دھرنا جاری رہے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک دو ماہ تک بھی دھرنا جاری رکھنا پڑا تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔
امید تو یہی ہے کہ حافظ نعیم الرحمان حکومت سے اپنے مطالبات منوا کر ہی دھرنے سے اٹھیں گے۔

جواب دیں

Back to top button