سنبھل جائیں ورنہ۔۔۔

تحریر : روہیل اکبر
عالمی موسمیاتی رپورٹ جب سے پڑھی ہے تب سے پریشانی سی لاحق ہو گئی ہے کہ کہ آنے والے دنوں میں ہمارا کیا بنے گا کیا خاص کر ان علاقوں کے باسیوں کا جہاں اس سال گرمی نے کڑاکے نکال دئیے ہیں ہمارے سندھ کے رہائشی لوگوں نے تو ان گرمیوں میں بجلی کے بغیر جو گرمیوں کے مزے لیے ہیں پنجاب والے بھی ان سے پیچھے نہیں رہے اور رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے پوری کردی ہے ایسے لگتا ہے کہ حکمران غریب عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنا چاہتی ہے جن کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے ہیں انہیں ہی رگڑا لگایا جارہا ہے ایک غریب محنت کش کو جون کا بل بجلی 35ہزار آیا ہوا ہے اور اس کے پورے مہینے کی آمدن 30ہزار بھی نہیں ہے اس نے کرایہ مکان بھی دینا ہے اور تین بچوں کو کھلانا پلانا بھی ہے اب وہ کیا کریگا اپنے بچوں کو فاقے کروائے گا یا حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لے گا یا پھر ڈاکو بن کر لوٹ مار کرے گا خیر وہ جو بھی کرے اسکا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں حکومت نے بس اس سے بل وصول کرنا ہے ہر صورت میں ورنہ ہمارے ووٹوں سے ہم پر مسلط ہونے والے حکمران اپنی عیاشیاں کیسے کرینگے یہ تو بیچارے اتنے غریب ہیں کہ سرکاری گاڑی پر اپنی جیب سے پیٹرول تک نہیں ڈلوا سکتے اپنے دفتر میں آنے والوں کو اپنی جیب سے ایک کپ چائے کا نہیں پلوا سکتے اور تو اور اپنے گھروں کے بل بھی ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے جو خرچہ کرنا تھا وہ الیکشن میں کردیا اب یہ عوام کے پیسوں پر موج مستیاں کرینگے بہرحال ایک بات تو اب سب ہی مان رہے ہیں کہ بجلی بلوں کے ستائے ہوئے لوگوں صرف موقعہ کی تلاش میں ہیں اور اندر و اندر سلگ رہے ہیں جس دن کسی نے بھی ان جابرانہ بلوں کے خلاف احتجاج کی کال دیکر ایک ہلکی سی چنگاری بھی پھینک دی تہ پھر ان سلگتے ہوئے بے جان جسموں میں ایسے ایسے دھماکے ہونگے کہ کسی کو بھاگنے کا موقعہ نہیں ملے گا اب بھی وقت ہے کہ حکومت فوری طور پر بلوں میں 50فیصد تک رعایت دے تاکہ عام آدمی کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہو ورنہ پھر واقعی انقلاب کی تیاری کریں اور پھر نہ کہنا کہ ہمیں خبر نہ ہوئی اس کے علاوہ جس خبر نے پریشان کررکھا ہے کہ پاکستان کے گرم ترین علاقے آئندہ 7سالوں کے بعد رہنے کے قابل نہیں رہے گے کیونکہ ہم نے اپنی زرعی زمینوں پر بڑی بڑی ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا لی ہیں درختوں کی کٹائی کرکر کے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھیکنا ہے جس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں ابھی سے بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے عالمی موسمیاتی جریدے نے پاکستان کے گرم ترین علاقے بلوچستان پنجاب اور سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر خبردار کر دیاہے کہ سندھ اور بلوچستان میں معمول سے زیادہ پھل دار مقامی درخت نا لگایا گیا تو یہ علاقے آئندہ 7سال بعد رہنے کے قابل نہیں رہے گے اور پارہ 57تک جانے کا قوی امکان ہے اس لیے ہمیں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے سندھ پنجاب اور بلوچستان میں آبادی کے لحاظ سے ہر ایک فرد کو ایک ایک پھلدار درخت لازمی لگانا چاہیے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم ہو اور ان علاقوں میں ٹمپریچر شدید گرمیوں کے موسم میں 40۔42 تک رہے بدقسمتی سے ہم نے نئے درخت لگانے کی بجائے پرانے درختوں کو ہی ختم ک ردیا اور زرعی زمینوں پر جگہ جگہ ہاسنگ کالونیاں بنا لیں ہم نے لاہور شہر کو 70سے 100کلو میٹر تک پھیلا دیا ہے ہم نے ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹائون کے نام سے ہزاروں ایکڑ پر موجود دنیا کی بہترین زرعی زرخیز اراضی اور شہر کے قریب نایاب الیچی، امرود اور آم کے باغ اجاڑ دیئے ہیں اب یہ وبا تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تیزی سے پھیل گئی ہے اگر ہمارے حکمران سوچ سمجھ کر ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے تو اور لوگوں کے ساتھ بھلائی یا نیکی کرنا چاہتے تو قاہرہ جیسے شہر کی طرح فلیٹ سسٹم کو رواج دیتے رہی سہی کسر روڈا نے پوری کردی ہے لاہور شہر کی بغل میں بلکہ شہر سے متصل داروغہ والہ چوک سے لے کر بند روڈ کے ساتھ ساتھ پاکستان بلکہ دنیا کا بہترین زرعی زرخیز رقبہ ہے جہاں سے لاہور شہر اپنی سبزیوں اور جانوروں کے لیے چارہ جیسی ضروریات پوری کرتا ہے اشرافیہ کی نظر اب اس پر ہے راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے میلوں میں کئی صد مربع زرخیز رقبہ کالونستان کے نام پر ختم کر دیا گیا ہے برکی روڈ،بیدیاں روڈ،جی ٹی روڈ واہگہ بارڈر تک، لاہور شرقپور روڈ اور لاہور قصور روڈ کو دیکھ لیں ہم نے حکومتی اداروں سے ملکر فارم ہائوسز اور سوساٹیز کے نام سے ایک مرلہ زمین بھی نہیں چھوڑی جس کی وجہ سے دودھ، تازہ سبزیوں اور تازہ پھلوں کی شدید کمی پیدا ہو گئی ہے جبکہ ہم نے دریا، ہر نہر، ہر کھالے، ہر بنے اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ کیکر، نیم، شیشم، پیپل، بوہڑ اور سکھ چین کے نایاب اور قیمتی درخت جڑوں سے اکھاڑ کر بیچ دئیے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور دو چار سال میں درجہ حرارت 55تک پہنچ جائے گا جہاں انسانی حیوانی اور فصلوں درختوں کی زندگی ناممکن ہو جائے گی اس لیے درخت لگائیں اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسل کیلئے اس سے پہلے کے دیر ہوجائے خشک سالی غالب ہونے سے پہلے پہلے آئیں زمین کو درختوں اور ہریالی کی سرسبز چادر اوڑھا دیں تاکہ ہماری زمین بنجر ہونے سے بچ جائے اور زیر زمین پانی کو کڑوا اور نایاب ہونے سے بھی بچایا جا سکے اس کا واحد حل جنگلات کی بحالی اور گھنی شجرکاری ہے ہماری اور ماحول کی بقا اسی میں ہے اور آنے والی نسلوں کا صحتمند مستقبل بھی اسی سے وابستہ ہے آئیں، سب مل کر درخت لگائیں اور ماحول کو خوبصورت بنائیں اس لیے ابھی سے سنبھل جائیں ورنہ پریشانیاں ہی پریشانیاں ہونگی کہیں گرمی کی تو کہیں بلوں کی ۔





