Column

ملکی ترقی کے لئے مثبت سیاست کی ضرورت ہے

تحریر : رفیع صحرائی
بدقسمتی سے ملکِ عزیز میں جمہوریت کا حال ماضی سے لے کر حال تک مخدوش اور پتلا رہا ہے۔ مستقبل قریب میں بھی اس میں بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے کہ ہمارے اداروں اور سیاست دانوں نے ماضی کے تجربات اور غلطیوں سے سبق حاصل کرنے اور ذمہ داروں کے انجام سے سیکھنے کی بجائے اسی روش کو اپنا رکھا ہے۔ قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی مائنس پلس کا گندا کھیل شروع ہو گیا تھا جس نے آج تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ سیاست دان جمہوریت کی بقا اور مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے تھے مگر انہوں نے اپنی باری کا انتظار کرنے کے بجائے مہرہ بننے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا عمل شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست دان مہرے بن کر رہ گئے۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور جانے کب تک جاری رہے گا۔
ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف جی بھر کر سازشیں کیں۔ اقتدار کے لالچ میں غیر سیاسی قوتوں سے مصافحہ کے ساتھ ساتھ معانقہ بھی کیا۔ ایک دوسرے کو مائنس کرنے کے لیے دونوں پارٹیاں دوسروں کے ہاتھ میں اپنی ڈوریں تھما کر پتلی کی طرح رقص کرتی رہیں۔ ملکی مفاد پر ذاتی اور پارٹی کے مفاد کو ترجیح دی جاتی رہی۔ نتیجہ کے طور پر ملک اور سیاسی ادارے کمزور ہوتے چلے گئے۔ سیاسی میدان کو ان مذکورہ پارٹیوں نے اس قدر حبس زدہ کر دیا کہ بالآخر ان کا اپنا دم بھی گھٹنے لگا۔ دونوں پارٹیاں نیم مردہ یا نیم جاں ہوگئیں۔
لڑتے لڑتے ہو گئی گُم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم
دم اور چونچ کٹوانے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں تماشا بن کر رہ گئے۔ بھرم بھی ختم ہو گیا اور بے در بھی ہو گئے۔ بہت کچھ لٹانے کے بعد انہیں ہوش آیا کہ اپنی طاقت پر گھمنڈ کرتے ہوئے بیکار میں ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار رہے۔ طاقتور تو کوئی اور ہے۔
پُتلی کی طرح ’’ اُس‘‘ کے اشاروں پہ چلے ہم
اِک بار کہا اُس نے سو بار ہوئے رقصاں
بے گھر اور بے در ہونے کے بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو اپنی غلطیوں کا ادراک ہوا اور 14مئی 2006ء کو پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان لندن میں میثاقِ جمہوریت کے نام سے آٹھ صفحات پر مشتمل معاہدہ ہو گیا۔ اس معاہدے میں مشرف حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترامیم، جمہوریت میں فوج کی حیثیت، نیشنل سیکورٹی کونسل، احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں دونوں جماعتوں کے مشترکہ نکتہ نظر کو بیان کیا گیا۔ جولائی 2007ء میں نواز لیگ کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی پارٹیوں میں صدر کی وردی کے معاملے اور استعفیٰ دینے کی بات پر اختلافات سامنے آئے جس کے بعد پیپلز پارٹی کے بغیر نواز شریف نے اے پی ڈی ایم بنائی اور اس طرح سے دونوں سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کا نتیجہ صفر رہا مگر اس سے دونوں پارٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا ایک موقع ضرور ملا جس نے دونوں طرف نرم گوشہ پیدا کیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا تو آصف زرداری نے ماضی کی روایات کے برعکس بردباری اور تدبر سے کام لیا۔ حالانکہ آصف زرداری بذاتِ خود اندھے سیاسی انتقام کا نشانہ بن کر گیارہ سال جیل میں گزار چکے تھے مگر 2008ء تا 2013ء پیپلز پارٹی کے دَور میں کوئی ایک سیاسی مقدمہ نہیں بنا اور نہ ہی کوئی سیاسی گرفتاری ہوئی۔ اس دور کی سب سے بڑی یادگار اٹھارویں ترمیم تھی جس نے صوبوں کو بہت زیادہ بااختیار بنا دیا۔ مسلم لیگ ن نے اپوزیشن کا کردار نبھایا اور اس پر ’’ فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا ٹھپہ بھی لگایا گیا مگر اس نے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہی تاریخ 2018ء میں برسرِ اقتدار آنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران دہرائی گئی۔ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کا مثبت کردار نبھایا۔
دونوں دلہنوں کے اس اتحاد سے ’’ پِیا‘‘ ناراض ہو چکا تھا لہٰذا ان دونوں کو طلاق دے کر تیسری دلہن بیاہی گئی۔ اب کے مہرہ عمران خان بنے تھے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد واجب اور غیر واجب تمام قرض چکانے شروع کر دیے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ انہوں نے اپوزیشن پارٹیوں کو دیوار سے لگانے کے لیے پورا زور لگا دیا۔ عمران خان نے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی میثاقِ معیشت کی پیشکش کو نہ صرف حقارت سے ٹھکرا دیا بلکہ کسی بھی قسم کے قومی یا سیاسی معاملے پر بات چیت تک کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ چوروں کے ساتھ کبھی نہیں بیٹھیں گی۔ سیاست میں یہ سراسر غیر سیاسی رویہ تھا۔ مگر وہ اپنے آپ کو ’’ سدا سہاگن‘‘ سمجھنے کی غلطی کرتے کرتے اپنے آپ کو سچ مچ کا حکمران بھی سمجھنے لگ گئے۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ان سے وقتی علیحدگی کا فیصلہ کیا گیا تاکہ وہ سکون سے بیٹھ کر غور و فکر کر سکیں مگر وہ نچلے بیٹھنے والے تھے ہی نہیں چنانچہ شدید احتجاج نے انہیں 9مئی تک پہنچا دیا اور نوبت علیحدگی سے طلاق تک پہنچ گئی۔ 2008ء سے 2018ء تک جو سکون رہا تھا اب وہ سکون پھر بے سکونی میں بدل چکا ہے۔ عمران خان کو انہی کے سکوں میں جواب دینے کے لیے مخالفین نے ’’ رجوع‘‘ کر لیا ہے۔
میاں نواز شریف کے خلاف عمران خان نے جو سازش کی تھی آج خود اسی کا شکار ہیں۔ شاید یہ مکافاتِ عمل ہے یا وقت کا جبر کہ آج وہ اڈیالہ جیل کے اسی سیل میں قید ہیں جہاں ان کی حکومت میں نواز شریف قید تھے جبکہ نواز شریف مرکز اور پنجاب میں اپنی حکومت بنا چکے ہیں۔ سیاست دانوں نے بہت کچھ گنوا کر اور بہت کچھ سیکھ کر بھی کچھ نہیں سیکھا۔ کردار بدل گئے ہیں مگر روایات وہی ہیں۔ سیاسی اختلاف، سیاسی مخالفت سے ہوتا ہوا اب سیاسی دشمنی میں بدل چکا ہے۔ یہ صورتِ حال ملک کے لیے کسی طور فائدہ مند نہیں ہے۔ پاکستان کی ترقی، بقا اور خوش حالی اسی میں ہے کہ اپنی ذات سے ہٹ کر اس ملک کا سوچیں۔ ان کی آپس کی لڑائیوں اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں نے ایٹمی طاقت کو عملاً آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا ہے۔ منفی سیاست بہت ہو چکی ہے۔ اب مثبت سیاست بھی کر لی جائے تو یہ ملک اور ان سیاست دانوں کے لئے بھی بہتر ہو گا۔ اس کا دارومدار صرف سیاست دانوں پر ہے۔ اگر وہ عزتِ نفس اور ملکی مفاد کو مقدم جان لیں تو ہم بھی اپنے ہم عمر پڑوسی بھارت کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button