جشن عید میلاد النبیؐ کے تقاضے

ضیاء الحق سرحدی
محسن انسانیت حضور اکرمؐ کے ظہور قدسی کا مبارک دن پورے پاکستان میں منایا جاتا ہے۔ امت مسلمہ کے ارکان نے عقیدت و محبت کے ساتھ اپنی مسجدوں، اپنے گھروں اور اپنی گلیوں بازاروں کو رنگ برنگی روشنیوں اور قمقموں سے سجا دیا ہے۔ مساجد کے بلند و بالا میناروں سے درود و سلام کی ایمان افروز اور دل خوش کن صدائیں گونج رہی ہیں اور پیغمبر اعظم و آخرؐ کے حضور عقیدت کے نذرانے پیش کئے جارہے ہیں۔ حضور اکرمؐ سارے جہانوں اور جہان والوں کیلئے رحمت بناکر بھیجے گئے تھے۔ آپؐ کی اتباع میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ حضور اکرمؐ پر جو قرآن پاک لیلۃ القدر کو اتارا گیا، اللہ تعالیٰ نے اسے تاقیامت انسانوں کیلئے نجات کا ذریعہ بنا دیا، قرآنی تعلیمات میں دارین کی فلاح ہے۔ اس دنیا کی بھی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی آخرت کی بھی، جس نے قرآن پاک کی تعلیمات اور حضور پاکؐ کے ارشادات کو حرز جاں بنا لیا اس نے دنیا جہان اور اخروی سعادت پالی۔ ربیع الاوّل شریف اسلامی سال کا تیسرا ماہ مقدس ہے۔ یہ مہینہ بڑی برکتوں اور عظمتوں والا ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جب شروع میں اس مہینے کا نام ربیع رکھا گیا تو اس وقت موسم بہار تھا۔ یہ مہینہ بڑی سعادتوں، خیرات و برکات کا حامل ہے۔ اللہ کے محبوب کریم رحمت دوعالمؐ کی ولادت باسعادت اسی ماہ کی بارہ تاریخ پیر کے روز ہوئی۔ آپؐ کی ولادت باسعادت نے اس ماہ کی عزت و عظمت کو مزید بلند کر دیا اور علماء کے نزدیک حضور نبی کریمؐ کی ولادت باسعادت کا وقت شب قدر سے افضل ہے کیونکہ شب قدر میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ولادت کے وقت خود نبی کریمؐ تشریف لائے جو تمام فرشتوں اور انسانوں، انبیاء کرامؑ کے بھی سردار ہیں اور عاشقان رسول کے بھی۔ اسی لئے اپنے نبی کریمؐ کی ولادت باسعادت کے اس عظیم موقع پر اس ماہ منور میں محافل ذکر و میلاد، جلسے جلوس جن میں درود و سلام کی کثرت ہوتی ہے، کا اہتمام کرنا سعادت سمجھتے ہیں۔ اسی ماہ سرکار دوعالمؐ مدینہ منورہ تشریف لائے اور اسی ماہ کی دسویں تاریخ کو سرور کونینؐ کا نکاح سیدہ خدیجہؓ سے ہوا تھا اور اب تو عاشقان رسول کریم اس ماہ کو اپنی حقیقی عید کی صورت میں مناتے ہیں جس کے صدقے میں سب عیدیں اللہ نے ہمیں عطا فرمائیں۔ اہل اسلام اس ماہ کو بڑی عقیدت و محبت سے دیکھتے ہیں اور اس ماہ میں خاص طور پر عبادت کا اہتمام کرتے ہیں۔ حضور اکرمؐ نے حکم خداوندی پر عمل کرتے ہوئے دین کی دعوت کا آغاز تن تنہا کیا۔ جو لوگ آپؐ کی زندگی میں ایمان لائے اور آپؐ کے ساتھی بنے وہ صحابہ کرامؓ کہلائے۔ یہ وہ سعادت ہے جو ان کے بعد آنے والے کسی انسان کو نصیب نہیں ہوئی نہ ہوسکتی ہے۔ جس طرح حضور اکرمؐ کی ذات کے ساتھ ہی نبوت کا دروازہ بند ہوگیا۔ اسی طرح شرف صحابیت سے مشرف ہونے کا سلسلہ بھی اس وقت ختم ہوگیا جب آپؐ دین کی دعوت کا مشن مکمل کرکے اپنے خالق حقیقی کے منشا کے مطابق دنیا سے رخصت ہوگئے۔ حضور اکرمؐ نے اپنے صحابہؓ کو ستاروں سے تشبیہ دی تھی جنہوں نے آپؐ کی حیات مبارکہ میں حق رفاقت ادا کیا تو آپ کی رحلت کے بعد دین محمدی کو دنیا بھر میں پھیلانے کا فریضہ بھی انجام دیا۔ ہم پاکستان کے کلمہ گو مسلمانوں تک اسلام کی تعلیمات انہی ہستیوں کے وسیلے سے پہنچیں۔ جہاں ان کا پیغام نہیں پہنچ سکا یا جن سرزمینوں کو اس پیغام کو وصول کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی وہ اسلام کے نور ہدایت کی روشنی سے اپنی زندگیوں کو منور کرنے سے محروم رہ گئے، کوئی محرومی سی محرومی ہے! اسلام اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور دنیا کے کونے کونے میں توحید کا پرچم سربلند کرنے والے موجود ہیں۔ غیر مسلم معاشروں میں بھی اگر چہ تھوڑی تعداد میں سہی مسلمانوں کا وجود ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا ’’میں اپنی امت کے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، ایک اللہ کا پیغام قرآن حکیم اور دوسری اپنی سنت، جب تک میری امت کے لوگ ان تعلیمات پر عمل کرتے رہیں گے گمراہ نہیں ہوں گے۔‘‘ لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ حضور اکرمؐ کی چھوڑی ہوئی ابدی ہدایت کی تعلیمات ہر لحاظ سے محفوظ و مامون ہونے کے باوجود ہمارے معاشرے اور ہماری زندگیوں میں اس طرح رچ بس نہیں سکیں جس طرح ان کا حق تھا۔ آج ہم اپنے ملک کے اندر جس طرح کی معاشرتی برائیاں دیکھتے ہیں۔
، بیٹا ماں باپ کو قتل کر رہا ہے اور باپ بیک وقت اپنے سارے بچوں کو موت کی نیند سلانے سے گریز نہیں کرتا، معمولی باتوں پر اولاد کو ہلاک کیا جارہا ہے، کہیں باپ گول روٹی نہ پکانے پر بیٹی کو قتل کر دیتا ہے، کہیں بھائی کھانا پکانے میں تاخیر کرنے پر جوان بہن کو زندگی سے محروم کر دیتا ہے، جائیداد کے لالچ میں حقیقی بہن بھائیوں کو متاع زیست سے محروم کیا جارہا ہے۔ تصور فرمائیں اسلام سے پہلے ایام جہالت کی کون سی ایسی برائی ہے جو ہم مسلمانوں کے معاشروں میں موجود نہیں جو اللہ پر ایمان لاتے اور حضور اکرمؐ کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔ آج کے دن جب ہم عید میلاد النبیؐ کا جشن منا رہے ہیں، ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان اسلامی تعلیمات کو حرز جاں کیوں نہیں بنا سکے؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں رسم اذاں تو موجود ہے روح بلالی نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات کو تو مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرنی چاہئے تھی لیکن بعض اوقات تو مسلمانوں کی حرکتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ زبان سے انہوں نے کلمہ تو پڑھ لیا لیکن اسے اپنی زندگیوں میں وارد نہیں کیا۔ زبان سے لا اِلٰہ کہنے سے اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہوتا جب تک دل و نگاہ مسلمان نہ ہوں۔ رمضان المبارک کا مہینہ ہر سال ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے۔ اس مہینے میں لوگ نیکیوں کی جانب دوڑتے ہیں، مساجد کو آباد بھی کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات بھی کیا جاتا ہے۔ سحریوں اور افطاریوں میں غربا کیلئے کھانے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ نیکیوں کی طرف رغبت بھی بڑھ جاتی ہے لیکن صد حیف کہ قتل و غارت گری ماہ رمضان میں بھی نہیں رکتی، خواتین کے ساتھ بدسلوکی بھی جاری رہتی ہے، ڈاکے اور چوریاں بھی حسب سابق ہوتے رہتے ہیں۔ دکاندار گاہکوں کو پہلے سے زیادہ لوٹنے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، ذخیرہ اندوزی بڑھ جاتی ہے، افطاری کے وقت اشیائے خوردنی کے نرخ مصنوعی طور پر کئی گنا بڑھا دیئے جاتے ہیں، رمضان شروع ہونے سے کئی ماہ پہلے ہی ایسی منصوبہ بندی کرلی جاتی ہے کہ اس ماہ مقدس میں اشیا کس طرح مہنگی کی جاسکتی ہیں اور لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ کیسے ڈالنا ہے۔ جن مسلمانوں کا رمضان اس طرح گزرتا ہے وہ باقی مہینوں میں کیا کچھ نہیں کرتے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے مواقع پر بھی اشیا مہنگی کرنے کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عیسائی دنیا کے لاکھوں بڑے بڑے چین سٹور اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ اشیائے صرف کو غریبوں کی پہنچ کے اندر رکھا جائے، مسلمانوں کی عیدین اور عیسائیوں کے کرسمس کے مواقع پر دونوں مذاہب کے تاجروں کے رویئے کا موازنہ کرلیا جائے تو افسوس مسلمانوں کا طرز عمل کسی صورت قابل تقلید نہیں ٹھہرتا۔ آج کے روز حضور اکرمؐ کی ولادت باسعادت کا دن مناتے ہوئے ہمیں اس بات پر غور ضرور کرنا چاہئے کہ کیا ہم نے اپنے ملک کو اس معاشرے کا نمونہ بنا دیا ہے جو اسلام کا مطلوب و مقصود ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو ہم روز قیامت کس منہ سے شافع محشرؐ کا سامنا کریں گے؟ محبت کے خالی خولی دعوے دربار رسالتؐ میں بازیاب نہیں ہوسکتے۔ علامہ اقبالؒ کے ارشاد پر غور فرمائیے:
چو میگوئم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا اِلٰہ را





