Column

بلوچستان کی ترقی اور سکردو انٹرنیشنل

روہیل اکبر
یوم آزادی پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نگران وزیر اعظم نے حلف اٹھا لیا تو دوسری طرف اسی روز سکردو کا ایئرپورٹ بھی انٹرنیشنل بن گیا، اب دنیا بھر سے لوگ ہمارے قدرتی حسن سے مالا مال جنت کا نظارہ پیش کرنے والے علاقوں کی سیر کر سکیں گے، اس پر جن جن لوگوں نے محنت کی ہے، انکی تعریف کرنا بھی ضروری ہے، مگر پہلے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے بلوچستان کا ذکر اس لیے اہم ہے کہ بلوچستان میں جہاں قدرتی خزانے دفن ہے تو اسی بلوچستان میں لوگ غربت کے ہاتھوں شدید پریشان ہیں۔ آرمی چیف سید عاصم منیر بھی پاکستان میں سبز انقلاب لانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں اور اس وقت اپنی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان اپنی بنجر زمینوں کو سرسبز و شاداب میدانوں میں تبدیل کرنے کے لیے انتہائی ضروری زرعی انقلاب کا منتظر ہے۔ پائیداری، خود کفالت اور زرعی شان کے حصول کے لیے حکومت کو صوبے کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا وژن تیار کرنے کی ضرورت ہے پاکستان کے 47فیصد رقبے پر محیط بلوچستان میں تقریبا 3.83ملین ہیکٹر زمین کاشت کے لیے دستیاب ہے جس میں 3.22ملین ہیکٹر پہلے ہی زیر کاشت ہے۔ صوبے کی متنوع آب و ہوا اور ٹپوگرافی گندم، چاول، کپاس، دالوں، تیل کے بیجوں اور پھلوں جیسے انگور، چیری، بادام، آڑو، انار، خوبانی، سیب اور کھجور سمیت فصلوں کی وسیع رینج کو آگانے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرتی ہے اسکے ساتھ ساتھ صوبے کی منفرد آب و ہوا سال بھر سبزیوں کی مختلف اقسام کی پیداوار کے قابل بناتی ہے بلوچستان کو زرعی مرکز بنانا مقامی لوگوں کا کئی دہائیوں سے خواب ہے تاہم حالیہ برسوں میں گوادر پورٹ، اقتصادی زونز، سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے اور صوبے کی مجموعی ترقی جیسے منصوبوں نے امیدیں روشن کی ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب صوبہ بھی اپنی آبادی کا پیٹ پالنے کے لیے خود کفیل ہو جائے گا اس سلسلے میں کوئٹہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں ایک ارب روپے کی لاگت سے 100نئے چھوٹے چیک ڈیم بنائے جا رہے ہیں اسی طرح گوادر، خاران، کیچ، آواران، پنجگور اور خضدار کے اضلاع میں ہزاروں ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ڈیم بھی بنائے جا رہے ہیں زراعت کے علاوہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں بے پناہ قدرتی وسائل ہیں جن میں معدنی ذخائر بھی شامل ہیں جن کا تخمینہ ٹریلین ڈالرز ہے ان وسائل کی صلاحیت کو ذہانت سے کھولنا پاکستان کی معیشت میں انقلاب لانے کی طاقت رکھتا ہے بلوچستان میں دیسی لوہے، تانبے ( کچھ سونا، چاندی، مولبڈینم سے منسلک)، سیسہ، زنک، بارائٹ، کرومائیٹ، کوئلہ، جپسم، چونا پتھر ( ماربل)، اوچرے، سلیکا ریت وغیرہ کے بڑے ثابت شدہ ذخائر، اینٹیمونی کے چھوٹے ذخائر، ایسبیسٹوس، سیلسٹائٹ، فلورائٹ، میگنیسائٹ، صابن کا پتھر، سلفر، ورمیکولائٹ وغیرہ بھی موجود ہیں صوبے میں کوئلہ، گندھک، کرومائیٹ، لوہا، بارائٹ، ماربل، کوارٹزائٹ اور چونا پتھر سب وافر مقدار میں موجود ہیں بلوچستان میں تیل کے اہم ذخائربھی ہیں اور دنیا میں تانبے اور سونے کے سب سی زیادہ ذخائر بھی قدرتی گیس 1953میں بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں دریافت ہوئی تھی اور اس کے بعد سے اسے پورے پاکستان میں گیس کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے سینڈک اور ریکوڈک کی کانیں صوبے کے بنیادی تانبے اور سونے کے ذخائر میں سے صرف دو ہیں بلوچستان میں ریکوڈک کان میں تقریباً 5.9ملین ٹن تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں یہی صوبہ دنیا میں کرومائٹ کے سب سے بڑے پروڈیوسر میں سے بھی ایک ہے اور ملک کی کل پیداوار کا 90فیصد سے زیادہ پیدا کرتا ہے سٹینلیس سٹیل کی تیاری کے لیے معدنی کرومائٹ کی ضرورت ہوتی ہے جس کی بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت زیادہ مانگ ہے ایک اندازے کے مطابق 200ملین ٹن کے ذخائر کے ساتھ، بلوچستان میں خام لوہے کے اہم وسائل بھی موجود ہیں یہ صوبہ لوہے اور سٹیل کے بڑے شعبے کی ترقی کے لیے بہترین صلاحیت پیش کرتا ہے جو کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور مقامی معیشت کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے جبکہ کوئلہ، جو بنیادی طور پر بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ایک اور قابل ذکر وسیلہ ہے جو بلوچستان میں پایا جا سکتا ہے 185بلین ٹن کوئلے کے ذخائر ملک کی توانائی کی ضروریات کو بہتر بنا سکتے ہیں امید ہے کہ نگران وزیر اعظم پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی طرح زراعت کی ترقی پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے ملک کو سرسبز و خوشحال بنانے میں آرمی چیف کے دست وبازو بنیں گے اب کچھ باتیں سکردو انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی جہاں پی آئی اے کی پہلی بین الاقوامی پرواز پی کے 234دبئی سے لینڈ کرگئی پرواز کے اترنے کے بعد سکردو کو بین الاقوامی ایئر پورٹ کا درجہ مل گیا بین الاقوامی پرواز پر سیاح جنت نظیر گلگت بلتستان کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہو سکیں گے دوران پرواز سیاحوں کو ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں بشمول کے ٹو اور نانگہ پربت کے خوبصورت نظارے بھی دیکھنے کو ملیں گے سیاح اب دبئی سے براہ راست ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز سے سکردو پہنچ سکیں گے سکردو کو انٹرنیشنل ائر پورٹ کا درجہ دلانے میں پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایئر وائس مارشل عامر حیات، چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی اور سول ایوی ایشن کا بہت بڑا کردار ہے چیف سیکریٹری جی بی وانی نے اپنے علاقے میں لوگوں کی خوشحالی،فلاح وبہبود اور سیاحت کی پرموشن کے حوالہ سے جو کام کر دیے ہیں وہ تاریخ میں نہیں ملیں گے انہی کی کاوشوں سے سکردو میں بین الاقوامی فلائٹ آپریشن شروع ہوا جس سے گلگت بلتستان میں سیاحت کا شعبہ فروغ پائے گا سکردو بین الاقوامی ہوائی اڈے نے 13مئی کو جرمنی کے شہر میونخ سے اپنی پہلی بین الاقوامی پرواز کا خیرمقدم بھی کیا اور پھریہ پرواز 16مئی 2022کو بشکیک کرغزستان کے لیے روانہ ہوئی تھی سکردو ہوائی اڈے کے دو اسفالٹ رن وے ہیں پی سی این 40کے ساتھ فعال رن وے 12000فٹ لمبے ہیں اسے پاکستان کا سب سے طویل رن وے سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، دوسرا رن وے تقریباً 8740فٹ لمبا ہے انٹرنیشنل ایئرپورٹ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (IATA)شفاف اور محفوظ پرواز کے شیڈول کے لیے ہر ہوائی اڈے کو ایک منفرد کوڈ تفویض کرتی ہے سکردو ہوائی اڈے کا IATAکوڈ KDU ہے اس کے علاوہ ایک اور کوڈ سول ایوی ایشن آرگنائزیشن ICAO) نے محفوظ آپریشنل وجوہات کی بنا پر تفویض کیا ہے اس طرح سکردو ایئرپورٹ کا ICAOکا تفویض کردہ کوڈ OPSDہے سکردو ایئرپورٹ اب پاکستان کے شمالی علاقے میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بن چکا ہے سابق وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کی معاشی ترقی میں اضافے کے لیے بین الاقوامی پروازوں کے لیے اس کا افتتاح تھا۔

جواب دیں

Back to top button