Column

نیٹکواور کام چور

نیٹکواور کام چور

روہیل اکبر
گلگت بلتستان جتنا پیارا اور جنت نظیر علاقہ ہے اس سے بڑھ کر وہاں کے لوگ خوبصورت ہیں مگر سرکاری اداروں میں آنے کے بعد گلگت کے لوگ بھی ہمارے دوسرے اداروں کے کام چور افسران سے کم نہیں ہیں خاص کر ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں بھی ویسی ہی لاپرواہی جیسی کسی دور میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ ( جی ٹی ایس) اور اب ریلوے میں ہے بالکل اسی انداز سے گلگت بلتستان میں نیٹکو کے ساتھ بھی ہورہا ہے ہماری سرکاری ٹرانسپورٹ میں لوٹ مار اور کرپشن کی کہانیاں تو ہیں ہی ساتھ میں یہ لوگ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر بیٹھے ہیں اسی لیے گی ٹی ایس کا نام و نشان ختم ہوگیا ریلوے خسارے سے نکلنے کا نام نہیں لے رہا جبکہ انکے بعد آنے والی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنیاں ترقی کے عروج پر پہنچ گئی ملک بھر میں انہوں نے اپنا نیٹ ورک بچھا کر بہترین اور خوبصورت بسیں سڑکوں پر شہزادیوں کی طرح نظر آتی ہیں اسکے مقابلہ میں سرکاری ٹرانسپورٹ ختم ہو کر رہ گئی ہے جو چل رہی ہے وہ خدا کے سہارے ہی ہے پاکستان کا بڑا صنعتی شہر سیالکوٹ ٹرینوں سے محروم ہے صرف ایک ٹرین وہ بھی صبح صبح وہاں سے نکل آتی ہے اسکے بعد پھر کوئی ٹرین وہاں سے نہیں نکلتی لیکن وہاں کے لاری اڈہ سے ہر پرائیوٹ کمپنی کے بس اور ویگن ہر 10منٹ بعد مسافروں سے بھر کر لاہور کے لیے نکلتی ہے ریلوے کا اتنا بڑا سیٹ اپ اور افسران کی بھر ہونے کے باوجود کسی شہر سے کوئی نئی ٹرین نہیں چل رہی پاکستان ریلوے اگر واہگہ بارڈر سے شاہدرہ تک ہی ٹرین شروع کر دے تو ہر 20منٹ بعد مسافروں کی لائن لگ جائیگی لیکن یہ سب کرے کون اسی طرح شمالی علاقہ جات میں ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن ( نیٹکو) کا بھی برا حال ہے بسیں ایسی ہیں کہ بارش میں پانی ٹپکنا شروع ہوجاتا ائر کنڈیشنڈ انکے کام نہیں کرتے سیٹیں انکی خراب ہیں اندر بیٹھیں تو سفر کے اختتام تک الٹیاں شروع ہو جاتی ہیں آدھے راستے میں آکر انکے اے سی جواب دے جاتے ہیں شیشے اور اگلا دروازہ کھول کر سفر کرویا جاتا ہے مسافروں کے لیے انتظار گاہ ناقابل بیان حد تک خراب ہیں دنیا کا خوبصورت ترین علاقہ ہنزہ ہے جہاں نیٹکو کے پاس بیٹھنے کی مناسب جگہ نہیں ہے صوفے پوری طرح اندر کو دھنس چکے ہیں بلکہ نیچے سے پھٹیاں ابھر کر واضح نظر آتی ہیں پورے دن میں ہنزہ سے صرف ایک بس راولپنڈی کو روانہ ہوتی ہے اور18گھنٹے میں اپنا سفر مکمل کرتی ہے اس ادارے کے افسر نہ جانے کس بات کی تنخواہیں لے رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اسکا حشر بھی ہماری جی ٹی ایس کی طرح نہ بن جائے اگر دیکھا جائے تو اس وقت تک تو نیٹکو پورے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان اور شاہراہ قراقرم میں سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے روزانہ راولپنڈی سے کراچی تک اپنی سروس فراہم کرکے پورے پاکستان کو جوڑ رہا ہے یہ کمپنی وزارت امور کشمیر اور گلگت بلتستان کے تحت کام کرتی ہے NATCOاسلام آباد، گلگت اور سوست ( چینی سرحد کے قریب) کے درمیان مسافر روڈ سروس پیش کرتا ہے کاشغر اور گلگت کے درمیان سڑک سروس ( تشکرگان اور سوست کے راستے) 2006کے موسم گرما میں شروع ہوئی تھی جو خنجراب پاس ( دنیا کی بلند ترین سرحد) پر چین اور پاکستان کے درمیان سرحدی گزرگاہ ہے۔ یکم مئی سے 31دسمبر کے درمیان کھلی رہتی ہے اس کے بعد سردیوں میں سڑکیں برف کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں 30نومبر 2006کو نیٹکو نے اسلام آباد سے گلگت تک ایک نان اسٹاپ ایکسپریس بس سروس بھی شروع کر رکھی ہے ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (NATCO)کا قیام 1974ء میں کمپنیز ایکٹ 1913ء کے تحت لاہور میں رجسٹرڈ آفس کے ساتھ عمل میں آیا تھا تاکہ چترال سمیت شمالی علاقہ جات کے لوگوں کو روڈ ٹرانسپورٹ کا نظام فراہم کیا جا سکے 1976ء میں رجسٹرڈ آفس کو لاہور سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا گلگت میں رجسٹرار جوائنٹ سٹاک کمپنیز کے دفتر کے قیام کے بعد حکومت اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے احکامات کے مطابق کمپنیز آرڈیننس 1984کی دفعات کے مطابق NATCOکو رضاکارانہ طور پر تحلیل کر دیا گیا اس کے مطابق اسے کمپنیز آرڈیننس 1984کے
تحت 23فروری 1989کو رجسٹرار جوائنٹ سٹاک کمپنیز گلگت کے ساتھ رجسٹر کیا گیا تب سے نیٹکو چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کے براہ راست کنٹرول میں کام کر رہا ہے اس وقت گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری سیاست میں زیادہ سرگرم ہیں اور جی بی کا پورا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں اس لیے انکی توجہ نیٹکو کی طرف نہیں ہے اگر وہ اپنے کسی کارندے کو ہی اس کی دیکھ بھال پر لگادیں تو بدبو دار بسوں کی حالت بہتر ہوسکتی ہے کیونکہ نیٹکو پوری ریاست کا چہرہ ہے جسے داغدار کردیا گیا جس دور میں سرکاری سطح پر ان بسوں کا آغاز ہو غالبا وہ 60اور 70کی دہائی کے وسط تھا جب پاکستان کے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی گئی اس کے نتیجے میں پورے پاکستان میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروسز (GTS)کے نام سے ایک پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم شروع کیا گیا جن راستوں پر صرف جیپ چلا کرتی تھی ان راستوں کو ہمارے چینی دوستوں نے پاکستان کے تمام حصوں سے ملانے کے لیے خوبصورت سڑک بنائی جسے اب قراقرم ہائی وے (KKH)کہا جاتا ہے اور پھر شمالی علاقہ جات کے عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے شمالی علاقہ جات سے اسلام آباد تک پبلک ٹرانسپورٹ کا آغاز کیا تاکہ عوام کو چینیوں کی تعمیر کردہ سڑک کے ذریعے خطے سے ملک کے باقی حصوں تک پہنچایا جا سکے بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ کارپوریشن نے اپنے کام کو بڑھایا بھی اورنیٹکو نے برانڈ کا وقار بھی حاصل کیا پھر نیٹکو کی انتظامیہ نے مرسڈیز بسیں خریدیں اور ان ماڈلز کو روسی جنگ میں استعمال کیا گیا نیٹکو اب جی بی کی سب سے بڑی کارپوریشن میں سے ایک ہے نیٹکو اب اپنے پیٹرول پمپ، ورکشاپ، پاسکو سے جی بی کورئیر سروس اور یوٹیلٹی سٹورز تک گندم اٹھانے کی گاڑیاں بھی چلا رہا ہے لیکن انکی بسیں اور مسافروں کے بیٹھنے کی جگہ دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے جس طرح ہر گاڑی کی ٹیوننگ ہوتی ہے اسی طرح اس ادارے میں بیٹھے ہوئے افراد کی بھی ٹیوننگ ہونا ضروری ہے اور محی الدین وانی سے اچھی ٹیونگ کوئی کر نہیں سکتا نہیں یقین تو گلگت بلتستان حکومت کی حالیہ تبدیلی ہی دیکھ لیں۔

جواب دیں

Back to top button