حکومتی خزانے پر بوجھ کون؟ پنشنرز یا اشرافیہ

رفیع صحرائی
حکومتی خزانے پر بوجھ کون؟ پنشنرز یا اشرافیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار نے ارشاد فرمایا ہے کہ سرکاری پنشنرز ملکی خزانے پر بڑا بوجھ ہیں۔ ملکی معیشت کی کشتی کو تباہی کے کنارے پر دیکھ کر انہوں نے شاید حبیب ولی محمد کی گائی غزل کا یہ شعر پلے باندھ لیا ہے کہ اب مجھ پہ نزع کا عالم ہے تم اپنی محبت واپس لو، جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں، ملکی معیشت کی کشتی کو اپنی غلط پالیسیوں کے سبب بیچ منجدھار میں لا کر اس میں چھید کرنے کے بعد اس کشتی کا سب سے بے مایہ سامان یعنی پنشنرز کو کشتی سے دھکا دے کر کشتی کو بخیر و عافیت کنارے پر لے جانے کی عقلمندی کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ کشتی کے کاریگر ملاح بخوبی جانتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں بھاری بھرکم بوجھ سے جان چھڑائی جاتی ہے۔ کشتی پر بوجھ کا بھاری پتھر بلکہ پہاڑ وہ مراعات یافتہ طبقہ ہے، جس میں ہماری معیشت کی کشتی کے ناخدا یعنی اسحاق ڈار صاحب خود بھی شامل ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ وزیر موصوف کئی سال خود ساختہ جلاوطن رہے ہیں۔ عمران خان کے پورے دور حکومت میں برطانیہ میں سکونت پذیر رہنے کے بعد جب وطن واپس تشریف لائے تو بطور سینیٹر حلف اٹھایا۔ یہ تو سبھی سمجھتے ہیں کہ جائننگ کے دن سے ہی کسی کی سروسز کا شمار ہوتا ہے۔ سرکاری ملازمین جب کسی پوسٹ کے لئے منتخب ہونے کے بعد حاضری دیتے ہیں تو ان کی ملازمت کا وہ پہلا دن ہوتا ہے چاہے اپائنٹمنٹ آرڈرز دس دن پہلے جاری ہوئے ہوں۔ اسی حساب سے جناب اسحاق ڈار نے جب سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھایا تو وہ بطور سینیٹر ان کا پہلا دن تھا۔ اخبارات میں رپورٹ ہوا تھا کہ انہوں نے اپنی غیر حاضری اور جلاوطنی کے دور کی مراعات بھی بقایا جات کی مد میں حاصل کیں جو یقیناً ایک بڑی رقم بنتی ہے۔ دیکھا جائے تو ان پر اللّٰہ کی خیر ہے۔ وہ بغیر تنخواہ بھی کام کر سکتے ہیں، مگر انہوں نے مبینہ طور پر وہ رقم بھی وصول کر لی، جس کے وہ اخلاقی طور پر حقدار نہ تھے۔ پاکستان میں ایک قانون یہ بھی ہے کہ کوئی شخص چاہے ایک دن کے لئے بھی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ رہا ہو تو وہ ساری زندگی کے لئے پنشن اور مراعات کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ ان مراعات میں نقد پنشن کے علاوہ سکیورٹی گارڈ اور دیگر بہت سی مراعات بھی شامل ہیں۔ نگران وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم کیلئے بھی یہی پیکیج ہے۔ چونکہ یہ مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا انہیں چھیڑتے ہوئے جناب اسحاق ڈار کے پر جلتے ہیں، مگر سرکاری ملازمین جنہوں نے اپنی زندگی کے پینتیس سے چالیس سال حکومت کو دیئے ہوتے ہیں وہ شودر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے جناب وزیرخزانہ کو بوجھ لگ رہے ہیں۔ آپ عوام کے خادم، نہ بکنے والے نہ جھکنے والے غیّور نمائندوں یعنی ایم پی ایز ، ایم این ایز اور سینیٹرز کی مراعات دیکھیں تو لگتا ہے ہم آئی ایم ایف سے بھیک کی طرح قرض مانگنے والا ملک نہیں ہیں بلکہ آئی ایم ایف ہمارا مقروض ہے۔ ماہانہ مشاہرہ، لاکھوں کا ماہانہ ٹی اے، ڈی اے بل، مفت ہوائی جہاز اور ریل کی ٹکٹیں، جنہیں استعمال نہ کرنے پر نقدی کی صورت میں معاوضہ، مفت پٹرول، بجلی، ٹیلیفون اور گیس کی دستیابی۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کے سکیورٹی گارڈز، ان کے منشیوں تک سب کو درج بالا سہولیات مفت حاصل ہیں۔ اس کے علاوہ پروٹوکول کے نام پر وزرا کے لئے سیکڑوں گاڑیاں، کچن کے نام پر ماہانہ کروڑوں کے اخراجات، بیرونِ ملک درجنوں افراد ساتھ لے کر سیر سپاٹے، درجنوں افراد کو ساتھ لے جا کر سرکاری حج، وہ بھاری پتھر ہیں جو معیشت کی ناتواں کشتی پر پہاڑ بن کر لدے ہوئے ہیں۔ اس پہاڑ کے مقابلے میں سرکاری پنشنرز کی حیثیت محض اس شاپر جیسی ہے جس میں دو کلو سامان ڈال لیا جائے۔ اس شاپر کا حجم جناب وزیرِ خزانہ کو نظر آ رہا ہے مگر اس کے وزن کا انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں۔ کرنے کا کام یہ نہیں کہ قلیل تنخواہ کے بدلے ساری زندگی حکومت کو دینے والے ملازمین کو بڑھاپے میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے بلکہ اصل کام ان جونکوں سے جان چھڑانا ہے جو ملکی خزانے کو دن رات چوس رہی ہیں۔ آپ پی سی بی کو دیکھ لیں۔ لاکھوں روپے ماہانہ معاوضے پر فارغ رہنے کے لئے لوگوں کو کنٹریکٹ دیئے گئے ہیں۔ یہ سیاسی رشوت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ پی سی بی کے ہوش ربا اخراجات دیکھیں اور ناقص کارکردگی دیکھیں۔ سوئی ناردرن اور سدرن گیس کے سربراہان، چیئرمین واپڈا اور اس جیسے دیگر کئی محکموں کے سربراہان ماہانہ ایک کروڑ روپے فی کس سے زیادہ میں پڑ رہے ہیں۔ مگر جناب وزیر خزانہ چند ہزار روپے فی کس ساری زندگی کی خدمات کا صلہ پانے والوں کو بوجھ قرار دے رہے ہیں۔ آپ وفاقی کابینہ ہی کو دیکھ لیجئے۔ نوے کے قریب وزیر مشیر اور اس سے زیادہ سٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین۔ ہر ایک کا دفتر، پروٹوکول، گاڑیوں اور دیگر سہولیات پر ماہانہ خرچہ ایک کروڑ سے بھی زیادہ۔ اللّٰہ جانے اتنی بڑی کابینہ ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے کے لئے بنائی گئی ہے یا اس کا کوئی مصرف بھی ہے۔ ہمارے ہاں تو بے محکمہ وزیر بنائے جانے کا بھی رواج ہے۔ ملکی خزانے کو امانت سمجھ کر نہیں لوٹ کا مال سمجھ کر مراعات یافتہ طبقے پر لٹایا جاتا ہے مگر بوجھ معمولی پنشن لینے والوں کو سمجھا جا رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق بجلی کی پیداوار کا 33فیصد لائن لاسز اور مفت بانٹنے میں خرچ ہو جاتا ہے۔ مگر کوئی بھی حکومت اتنے بڑے نقصان پر قابو پانے کے لئے کبھی سنجیدہ نہیں ہوئی۔ ہر ماہ لاکھوں لٹر تیل حکومتی خزانے پر جانے کیوں بوجھ نہیں لگتا۔ مالِ مفت کو بے رحمی سے لوٹا جا رہا ہے مگر اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاتی۔
گزشتہ دنوں یہ انہونی بھی ہو چکی ہے کہ رمضان بازاروں میں شاندار کارکردگی دکھانے والوں اور بجٹ 2024۔ 2023 کے موقع پر کام کرنے والے ملازمین کو اضافی تنخواہوں سے نواز کر ملکی خزانے کا بوجھ ہلکا کیا گیا۔ جون میں 4 ،تنخواہیں وصول کرنے والوں میں سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری خوراک، سیکرٹری ایمپلی منٹیشن اینڈ کوارڈنیشن شامل ہیں۔ رمضان پیکیج کے دوران 352افراد نے تین، تین تنخواہیں وصول کیں جن میں چیف سیکرٹری پنجاب، آئی جی پنجاب ، نو ڈوثرنز کے کمشنر، سی سی پی او، آر پی او اور 36اضلاع کے ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شامل ہیں۔ یاد رکھیئے! پنشن صرف چند ہزار روپے نہیں ہوتے۔ یہ پنشنر کی عزتِ نفس کو محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ ساٹھ سال سے اسی سال کی عمر تک کے یہ بزرگ عمر کے اس حصے میں کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ عمرِ عزیز کا سنہرا دَور یہ حکومت کی نذر کر چکے ہوتے ہیں۔ بال بچوں کی شادیاں ہو چکی ہوتی ہیں۔ نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں جب اپنے والدین کے ساتھ ان کے پاس رہنے کے لئے آتے ہیں تو اخراجات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ بیٹیوں کو خالی ہاتھ رخصت بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ لوگ برادری کی سربراہ بن چکے ہوتے ہیں۔ رشتے داروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے جو اخراجات کا متقاضی ہے۔ برادری میں بیاہ شادی، خوشی و غمی کے موقع پر بھی انہیں جانا پڑتا ہے جو اضافی اخراجات کا موجب ہے۔ بڑھاپا بذاتِ خود ایک مرض ہے اور اپنے ساتھ کئی بیماریاں لے کر آتا ہے۔ ادویات کی قیمتیں آسمانوں پر اور ڈاکٹروں کی فیسیں آسمانوں سے بھی اوپر جا چکی ہیں۔ پنشنرز کو بوجھ نہ کہیں۔ ان کے حالات کو سمجھیں۔ ملکی معیشت پر پنشنرز بوجھ نہیں ہیں۔ قابض اشرافیہ معیشت کے لئے بھاری بوجھ بنی ہوئی ہے۔ اصل بوجھ معیشت کی کشتی میں پڑا ہوا بھاری پتھر ہی۔ آپ معمولی سے شاپر کو بوجھ سمجھ رہے ہیں۔





