CM RizwanColumn

برادری اور دھڑے کی سیاست .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں میں حالیہ ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کافی حد تک غیر متوقع اور حیران کن تھے۔ دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ ان نتائج کی پیش گوئی کرتے ہوئے برادری ازم اور دھڑے بندیوں جیسے عوامل کو بھی مدنظر رکھا گیا لیکن حاصل شدہ نتائج نے ان میں سے اکثر اندازوں کو یکسر غلط ثابت کردیااورقریباً تمام حلقوں کے اُمیدواروں اور حلقوں کی سابقہ اور موجودہ صورتحال کو مدِنظر رکھ کر کئے گئے تجزیوں اور تبصروں کے مطابق چونکہ زیادہ تر اُمیدوار ایسے تھے جن کو الیکٹیبلزتصور کیا جاتا ہے،مزید برآں مذکورہ امیدواروں کے حلقوں کی ساخت میں کیونکہ برادری، دھڑا بندی اور شخصی طرزِ سیاست کو ہی بنیادی جزو ٹھہرایا جاتا ہے،اس لیے عام طور پران حلقوں کے نتائج دھڑوں اور برادریوں کے گٹھ جوڑ سے ترتیب پاتے چلے آ رہے تھے مگر حالیہ ضمنی انتخاب کے نتائج نے اب حیران کن طور پر یہ سوال اُٹھا دیا ہے کہ کیا پاکستان میں برادری اور دھڑے کی سیاست کمزور پڑ رہی ہے؟ پنجاب کے اس ضمنی انتخاب میں شامل چند ایک حلقوں کے جائزے سے اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ ملکی انتخابی تاریخ میں برادری ازم اور دھڑے بندی کی سیاست کو بالعموم 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے شروع کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔

درحقیقت برادری ازم، دھڑے بندی اور گٹھ جوڑ کی سیاست کا آغاز 1937 کے انتخابات سے ہو گیا تھا۔ برادری اور دھڑے کا گٹھ جوڑ کی طرزِ سیاست کا اظہار 2018 کے عام انتخابات میں بھی دیکھا گیا، اگرچہ اُس وقت دھڑے بندی اور گٹھ جوڑ میں زمیندار طبقے سے زیادہ پیر خاندانوں کو دسترس حاصل تھی جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پیر خاندان خود بڑے زمیندار ہونے کے ساتھ دیہی ووٹرز کو دو طرح سے متاثر کرتے تھے، اوّل زمیندار کی حیثیت سے، دوم پیر (عقیدت) کی وجہ سے۔ واقعہ یہ ہے کہ دیہی سیاسی ڈھانچے میں مزارات کو سجادہ نشینوں نے مرکزی سیاست کے ساتھ جوڑ کر ان کی اہمیت میں اضافہ کیا ہوتا ہے۔ تاریخی طور پر مغلوں کے سقوط کے بعد بہت سے سجادہ نشینوں نے یہاں اپنے آپ کو طاقتور مقامی سیاسی شخصیات کے طور پر مستحکم کر لیا تھا۔1937 کے انتخابات میں دیہی ووٹروں کی بڑی تعداد یونینسٹ اُمیدواروں کی طرف کھنچی چلی آئی تھی۔ پھر 1937 کے بعد گٹھ جوڑ کی سیاست کا اظہار 1946 کے انتخابات کی صورت میں سامنے آیا۔ 1937 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی کی کامیابی سرکردہ زمینداروں اور پیروں کی مشترکہ حمایت پر مبنی تھی لیکن 1946 تک یہ حمایت صوبے کے بہت سے مغربی اضلاع میں ختم ہو چکی تھی۔مسلم لیگ نے صوبائی انتخابات 1945 سے قبل دیہی ووٹ بینک رکھنے والے افراد کی فہرست تیار کی جس کو مشائخ کمیٹی کا نام دیا گیا اور اس کے ووٹ بینک کو حاصل کرنے کیلئے کوشش کی۔ 1944 میں مسلم لیگ اور یونینسٹ کے مابین قطع تعلقی کے بعد ضلع جہلم، جلال پور کے پیر فضل حسین شاہ کے ماموں راجہ غضنفر علی خان کے ہمراہ مقامی دھڑا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔ اس طرح 1946 کے انتخابات میں الیکٹیبلز کا سہارا لیا گیا۔ 1985 میں جب غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تو شخصیت، برادری اور دھڑے بندی کی سیاست کو پنپنے کا موقع مل گیا۔

اس طرح پاکستان کے اگلے تمام انتخابات میں 1985 کے انتخابات کے اثرات کافی حد تک واضح رہے۔ اب اگر عام انتخابات 2018 کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو بہت سارے حلقوں میں اندازوں کے خلاف نتائج آئے اور بعض ایسے لوگ بھی جیت نہ سکے جن کو الیکٹیبلز تصور کر کے سیاسی جماعتوں نے ٹکٹ جاری کیے تھے۔ ان اُمیدواروں کا شخصی ووٹ بینک بھی تھا اور بڑی برادریوں پر مشتمل دھڑوں کی سپورٹ بھی انہیں میسر تھی مگر نتائج مختلف آئے تھے، حتیٰ کہ الیکٹیبلز کے نام پر ٹکٹ لینے والوں میں سے کچھ نے تو صرف آخری الیکشن 2002 کا جیتا تھا۔ اس کے بعد ان کو کم ہی کامیابی نصیب ہوئی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان کے ایک حلقہ این اے 191 سے مضبوط دھڑا اور شخصی ووٹ رکھنے والے اویس احمد خان لغاری ہار گئے جبکہ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کی زرتاج گل وہاں سے جیت گئیں۔

اسی طرح گزشتہ انتخابات میں یہ روش واضح طور پر محسوس ہوئی کہ پنجاب میں متعدد انتخابی حلقوں میں روایتی سیاست دم توڑ رہی ہے، حتیٰ کہ ایسے حلقے جہاں سرائیکی اور پنجابی زبان بولنے والے اُمیدواروں کا پینل تشکیل پاتا تھا، اس وجہ سے کہ دونوں زبانوں کے حامل ووٹرز کے ووٹ ایک پلڑے میں آئیں، وہاں یہ روایتی طرز بھی دم توڑتا پایا گیا۔ اس کی ایک مثال لیّہ کے ایک حلقہ این اے 187 کی دی جا سکتی ہے جہاں مسلم لیگ نون کے اُمیدوار صاحبزادہ فیض الحسن نے مقامی سرائیکی وسیب کے نمائندے احمد علی اولکھ کے ساتھ پینل بنانے کی بجائے پنجابی اُمیدوار کو ترجیح دی مگر دونوں ہار گئے اور احمد علی اولکھ آزاد حیثیت ہونے کے باوجود جیت گئے۔ جہاں تک پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات والے 20 حلقوں کی بات ہے تو ان میں فیصل آباد، خوشاب، بھکر، جھنگ، مظفرگڑھ، لودھراں، لیّہ، ڈیرہ غازی خان اور بہاولنگر کے حلقے مکمل طور پر دیہی تھے جبکہ بعض حلقے قصباتی حیثیت کے حامل تھے۔

اِن حلقوں میں عام طور پر شخصیت، دھڑا اور برادری ہی کسی اُمیدوار کی جیت کے بنیادی عوامل قرار دیئے جاتے ہیں۔ ان حلقوں میں 2018 کے انتخابات میں زیادہ تر اُمیدواروں نے آزاد حیثیت سے اپنی جیت کو ممکن بنایا تھا اس لیے اِن اُمیدواروں کی ضمنی الیکشن میں مضبوط حیثیت تصور کی جا رہی تھی۔ پھر یہ کہ مذکورہ حلقوں میں 2018 کے انتخابات میں زیادہ تر اُمیدواروں نے آزاد حیثیت سے فتح حاصل کی تھی۔ اس لیے اِن اُمیدواروں کی ضمنی الیکشن میں بھی مضبوط حیثیت تصور کی جا رہی تھی۔ مذکورہ بالا خالص دیہی پس منظر کے حامل چار حلقے جو روایتی انداز کی سیاست کیلئے شہرت رکھتے ہیں جبکہ ایک حلقہ خالص شہری ہے۔ بھکر کے حلقہ پی پی 90 جہاں سعید اکبر نوانی اور عرفان اللہ نیازی مدِمقابل تھے لیکن اس حلقے میں مذکورہ انتخابات میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ یہاں چونکہ بے زمین کاشتکاروں کا ووٹ بینک بھی ہے جو ہمیشہ سادات کے کہنے پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس بار اس برادری کے لوگ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ہم سلام نوانی خاندان کو کریں گے لیکن اب کی بار ووٹ اپنی مرضی سے کریں گے۔

حلقہ پی پی 202 ساہیوال سارے کا سارا دیہی ثقافت کا حامل ہے۔ یہاں مسلم لیگ نون کی سیٹ پر نعمان لنگڑیال اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر میجر ریٹائرڈ غلام سرور تھے۔ اس حلقے سے بڑی برادریوں اور مضبوط دھڑے کی بنیاد پر اُمیدوار کامیاب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے نعمان لنگڑیال کی جیت کے اندازے باندھے جا رہے تھے مگر نتیجہ مختلف آیا۔ اس حلقہ کے دو چکوک کے ضمنی انتخابات کے نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب میں برادری اور دھڑے کی سیاست کسی حد تک کمزور ہوئی ہے۔ سعید اکبر نوانی کے حلقے کی مثال اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہاں نعمان لنگڑیال اور سعید اکبر نوانی کو اہم برادریوں اور دھڑوں کی حمایت تھی، اِن کے مقابل پی ٹی آئی کے اُمیدوار بھی نسبتاً کمزور تھے، مگر دونوں اُمیدوار جیت نہ سکے۔ اس کے باوجود بعض حلقے ایسے بھی ہیں جہاں برادری کا اثر گہرا تھا اور وہاں پر فرق نہیں پڑا جیسے بہاولنگر کا حلقہ۔ یہاں برادری اور دھڑے کا فیکٹر کارفرما رہا۔ تاہم ان بیس حلقوں کے نتائج مجموعی طور پر یہ تاثر قائم کررہے ہیں کہ پنجاب میں قیام پاکستان سے قبل یہاں جو برادری اور دھڑوں کی بنیاد پر روایات قائم تھیں وہ اب آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں اور مرکز اور پارٹی بیانیے کی سیاست کو فروغ مل رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button