ColumnKashif Bashir Khan

روسو،انسانی زنجیریں اور انقلاب! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

انقلاب فرانس کے سب سے بڑے محرک اور عظیم فلسفی روسو( Rousseau)کے نظریات میں انسانی برابری کے لیے بہت شدت پائی جاتی ہے۔ اس کے خیال میں معاشرے کا ڈھانچہ انسانی برابری کے لیے غیر موزوں ہے کیونکہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن وہ ہر طرف سے زنجیروں ميں جکڑا ہوا ہے۔ روسو کی زندگی بہت ہی مشکل میں گزری اور انسانی برابری کے عظیم داعی کی حقیقت سمجھنے کے لیے اس حقیقت کو جاننا ہو گا کہ روسو نے اپنے تمام بچوں کو ایک یتیم خانے میں بھیج دیا تاکہ وہ بھی معاشرے میں پسے ہوئے طبقات کا دُکھ سمجھ کر انسانی برابری کا پرچار کر سکیں۔ روسو انسانی مساوات کاعظیم مبلغ تھا اسی لیے اس کی تحریریں فرانس میں انقلاب برپا کرنے کا سبب بنیں۔1762 میں روسو نے کتاب’’معاہدہ عمرانی‘‘ لکھی جس میں حکومت اور معاشرے کے اصولوں پر تبصرہ کیا۔معاہدہ عمرانی آج بھی دنیا میں مختلف ممالک اور نظاموں میں امور ریاست و حکومت کے تناظر میں ایک معتبر نسخہ سمجھا جاتا ہے۔معاہدہ عمرانی بھی انسانی آزادی اور مساوات کے گرد ہی گھومتی ہے۔

روسو کہتا ہے کہ انسان فطری طور پر آزاد اور نیک پیدا ہوا لیکن معاشرہ اسے بدی میں مبتلا کر دیتا ہے۔روسو نے آزاد خیالی اور عام لوگوں کے حقوق کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ اس کے نظریات نے انقلاب فرانس کے رہنماؤں کو بہت متاثر کیا۔روسو کے نظریات میں انسانی برابری کے لیے بہت شدت پائی جاتی ہے۔ معاہدہ عمرانی کا خالق روسو ہی تھا جو ریاست کو عوام کی خواہشات اور مرضی کے ساتھ چلانا چاہتا تھا اور عوام کی آزادی پر کسی قسم کے غیر ضروری قدغن لگانے کے خلاف تھا۔اس نے پرانے نظریات کی بھرپور مخالفت کی جن میں کہا جاتا تھا کہ قانون قدرت کی وجہ سے انسان برائی،بھلائی اور امارات وغربت کا شکار ہوتا ہے۔روسو کے معاہدہ عمرانی کی رو سے ریاست کے مسائل کا حل صرف اور صرف انقلاب میں پنہاں تھا کہ انقلاب کے بغیر بنائے گئے قوانین میں عوام کی منشا 100 فیصد شامل نہیں ہو سکتی اور اس طرح سے عوام کی آزادی کو سلب کرنے والی زنجیروں کو توڑنا ناممکن ہے۔جدید سیاسی علوم میں نمایاں ترین نظریات کے بانی روسو نے عوام کو دراصل شراکت اقتدار  کی ترغیب دی اور انقلاب فرانس کے لیے جو کوششیں روسو نے کیں وہ ناقابل فراموش ہیں لیکن روسو کو اپنی زندگی میں انقلاب فرانس دیکھنا نصیب نہ ہوا اور وہ انقلاب سے چار سال پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔
پاکستان کے موجودہ حالات بھی سنگین ہو چکے اور ریاست عوام کو برابری اور شریک اقتدار کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ریاست پاکستان عوام کی قدرتی آزادیاں بھی سلب کر چکی ہے اور ملک میں مساوات اور انصاف کی فراہمی عملاً ختم ہو چکی ہے۔ ریاست عوام کو ان کا جائز مقام دینے میں ناکام ہو چکی ہے، عوام عدم مساوات اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ریاست کے باشندوں کا زنجیروں میں جکڑا ہونے سے مراد انہی زندان میں قید کرنا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ ان کی خواہشات اور سہولیات کے برعکس قوانین اور ریاستی عمل داری ہوتی ہے جب ہم نئے عمرانی معاہدہ کی بات کرتے ہیں تو یہ دراصل ایسے دستور یا کتابچے کی بات کرتے ہیں جس میں ریاست کے باشندوں کی معاشرتی،معاشی،سماجی اور شخصی آزادی کو نہ صرف  تسلیم کیا جائے بلکہ انہیں سختی سے لاگو بھی کیا جائے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ ایسا عمرانی معاہدہ بنائے گا کون؟آپ ہی سوچیں کہ کیا پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے ایسا کوئی بھی معاہدہ عمرانی(دستور)بنا سکتے ہیں جس میں عوام کی منشا سو فیصد ہو اور وہ عوام کی ہر قسم کی آزادی عوام کی شراکت کے ساتھ شامل کر سکیں؟اس کا جواب یقیناً بہت بڑی نہیں میں ملتا ہے۔اگر ہم پاکستان کی قانون ساز اسمبلیوں کو ہی دیکھیں تو بدقسمتی سے ان میں اکثریت ایسے اراکین کی ہے جن کا عام عوام سے کوئی تعلق نہیں اور انہیں عوام کو زنجیروں سے آزاد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ زنجیروں میں جکڑے عوام ان کے مفاد میں ہیں اور ان کے حقوق سلب کرنا ہی ان کی سیاسی و مالی حیات ہے۔
روسو بھی فرانس کے عوام کو خواب سے جگا کر زنجیریں توڑنے کی نوید دیا کرتا ، اس کے نظریات عوام کے لیے فرانس کے انقلاب کی تحریک بنے تھے۔ پاکستان کے موجودہ حالات بھی کسی طوفان کا پیش خیمہ دکھائی دیتے ہیں۔آئین پاکستان 1973 میںسانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بنایا گیا تھا اور اس میں صرف چار صوبوں کی بات کی گئی تھی۔ریاست کمزور ہورہی تھی ، یہ آئین پاکستان برطانوی آئین سے لیا گیا تھا جس میں ریاست پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت تجویز کیا گیا تھا۔ایک بے آئین ریاست کے لیے یہ آئین اس وقت بڑاسہانا لگتا تھا لیکن آج قریباً پچاس سال کے بعد آئین پاکستان کے تحت ریاست پاکستان کے عوام محرومیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔گو کہ اس میں قصور ریاستی اداروں اور ریاست چلانے والے حکمرانوں کا زیادہ ہے کہ انہوں نے اپنے مفادات کے لیے آئین پاکستان کو موم کی ناک بنا کر اپنے مفادات کے لیے ہر مرتبہ استعمال کیا۔ اٹھارویں ترمیم ریاست کے مرکز کو کمزور کرنے کی ایک ایسی کوشش ہے کہ ماضی میں اس سے کچھ کم اختیارات مشرقی پاکستان مانگتا تھا اور شیخ مجیب الرحمن کو ہم نے صوبائی خود مختاری مانگنے پر غدار قرار دے دیا لیکن بنگالیوں کو ان کے حقوق نہ دیئے ۔بات کسی اور طرف نکل گئی
۔آج وقت ان پہنچا ہے کہ جب ملک میں وفاق کو کمزور(اٹھارویں ترمیم) کر کے ملک کے چار صوبوں پر مختلف گروہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور عوام کی اکثریت بے بس اور لاچار ہے۔یہ عوام سے زیادتی نہیں کہ ملک کا 64 فیصد صوبہ پنجاب ہے اور ماضی کی کسی حکومت(تحریک انصاف)نے بہاولپور، سرائیکی اور جنوبی پنجاب صوبے بنانے کی کوشش نہیں کی۔کچھ ایسا حال سندھ کا ہے اور اس میں بھی انتظامی امور پر چھوٹے صوبے بنانے کی کوئی کوشش صوبے پر قابض مافیا گروہ کامیاب نہیں ہونے دیتا۔عوام کی آزادی اس سے زیادہ کیا سلب ہو سکتی ہے کہ ان کو قدرت کی جانب سے ملنے والی آزادی اور سہولیات ایک ایسے نظام کے تحت سلب کر لی جائے جس کے بنانے میں عوام یعنی ریاست کے باشندوں کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ایسا نظام جس پر عمل درآمد کرنے والے اور کروانے والے بھی وہ ہوں جن کا عام عوام سے فاصلہ بہت ہی زیادہ ہو جبکہ روسو جیسا فلسفی ریاست کے جس عمرانی معاہدہ کا پرچار کرتا تھا اس کے قوانین ہر عملدرآمد کے لیے جس مجسٹریسی نظام کی بات کرتا تھا ان کا تعلق بھی عوام سے ہونا لازم تھا۔عوام کو عوام سے ہی قوانین کے تابع کرنا اور قوانین پر عمل درآمد کروانا ہی دراصل امور ریاست کو عوام کے ذریعے عوامی منشا سے شراکت سے چلانا روسو کا نظریہ تھا جس میں عوام کو کبھی بھی زنجیروں میں جکڑا نہیں جا سکتا۔
برابری جو خالق کائنات نے ہر شخص کو عطا کی ہے اس کی تکمیل بھی اسی نظام کے تحت ممکن ہے۔روسو ہر اس نظام پر انقلاب کو فوقیت دیتا ہے جس میں عوام کی آزادی (ہر قسم کی)سلب ہوتی ہو۔روسو کی فرانس کے عوام کو یہ ہی ترغیب دنیا کے عظیم انقلاب فرانس کا محرک بنی تھی،  اگر ہم آج کے پاکستانی عوام کی حالت زار دیکھیں تو یہ سمجھنے میں مشکل نہیں آتی کہ یہاں بھی زنجیروں میں جکڑے عوام کی امور ریاست سے بیدخلی اور ہر قسم کی محرومیوں کے تناظر میں ایک لاواپک رہا ہے بلکہ پک چکا ہے اور عوام کو عدم برابری کے پیمانے سے ہانکنے والوں کا روز محشر دور نہیں۔عوام کی امور مملکت یا ریاست میں عدم شرکت ہمیشہ انقلاب روس یا انقلاب فرانس جیسی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں جو یقیناً تباہ کن ہوتی ہیں۔پاکستان میں فوری طور پر نیا عمرانی معاہدہ (دستور)نہ ترتیب دیا گیا تو ہم بھی سری لنکا کی طرح افراتفری کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ عوام کو زنجیروں میں زیادہ دیر جکڑنا قانون قدرت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی طور پر ممکن ہی نہیں اور پھر جب جکڑے ہوئے انسان زنجیریں تڑواتے ہیں تو جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جیسی بھی زیادتی کرلیں عوام نہیں بولنے والی وہ خس وخاشاک کی طرح اڑ جایا کرتے ہیں۔ماضی قریب میں ہم عظیم شاہ ایران کے تخت و تاج کو روئی کی طرح اڑتا دیکھ چکے ہیں۔ عوام کے مینڈیٹ چوری کرنا بھی پاکستان میں انقلاب کی ابتدا ہو سکتا ہے۔ چارہ سازوں کو عوام کی زنجیریں کھولنے کی فوری کوشش کرنی ہوگی ورنہ عوام ان زنجیروں کو جلد توڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔یہی انقلاب ہوا کرتا ہے اور پھر حکومتی جبر بھی کام نہیں آیا کرتا۔

جواب دیں

Back to top button