Editorial

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ

وزیراعظم شہباز شریف نےعالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا پورا فائدہ عوام کو منتقل کرنے کا بڑا فیصلہ کیا اور وزارت پٹرولیم اور وزارت خزانہ سے تیل کی قیمتوں میں کمی کی سمری مانگی جس کے بعد پٹرولیم ڈویژن نے پٹرولیم مصنوعات میں کمی کی سمری منظوری کے لیے وزارت خزانہ کو بھیج دی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق متذکرہ سمری کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 18 روپے فی لٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 33 روپے فی لٹر کمی کا امکان ہے تاہم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ وزارت خزانہ وزیراعظم کی مشاورت سے کرےگی۔وزیراعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ سابق حکومت کی لائی گئی مہنگائی سے ستائے لوگوں کی ممکنہ حد تک مدد کریں گے اور ان کی زندگی میں آسانیاں لائیں گے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت پھر 6فیصد گر گئی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے سے متعلق اجلاس میں کہنا تھا کہ عوام نے قربانی دی، اس کا پورا پھل بھی انہیں ہی ملنا چاہیے، عوام نے مشکل وقت گزارا ہے،اب پورا ریلیف ملنا بھی اُن کا حق ہے۔ وزیراعظم نےہدایت کی ہے کہ عالمی منڈی میں جتنی کمی ہوئی ہے، پوری شفافیت کے ساتھ عوام کو اس کی منتقلی یقینی بنائیں۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق عالمی منڈی میں خام تیل قیمت میں کمی کا رجحان دیکھا جارہا ہے اور خام تیل کی قیمت بڑھنے کے بعد ایک بار پھر 6 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ادھر انڈسٹری ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت میں 12 سے 14 روپے کمی ریکارڈ کی جاچکی ہے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 25 سے 30 روپے فی لیٹر کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ انڈسٹری ذرائع کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم لیوی نہ بڑھے تو 16 جولائی سے قیمت میں کمی ہو سکتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں گرنا شروع ہوگئی ہیں،
اسی طرح پام آئل بھی قیمت کے نصف کے قریب آچکا ہےاور بعض اجناس کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے اس لیے جہاں حکومت پاکستان پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو دینا چاہتی ہے وہیں پام آئل اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ بھی عوام تک پہنچنا چاہیے اور حکومت کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ فائدے عوام تک پہنچے تاکہ مصنوعی اور حقیقی مہنگائی کے ستائے عوام کو ریلیف مل سکے کیونکہ دالیں، پام آئل اور دیگر اجناس جو درآمد کی جاتی ہیں، ان کی قیمتیں عالمی منڈی سے منسوب کرکے ناقابل بیان حد تک بڑھائی جاچکی ہیں اوراگر عالمی منڈی میں ان کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہورہی ہے تو اس کا براہ راست فائدہ عام صارف کو پہنچنا چاہیے، ویسے تو روایت رہی ہے کہ نجی شعبہ اس صورتحال میں تمام فائدہ اپنی تجوریوں میں منتقل کردیتا ہے، یعنی قیمتوں میں اضافے کا تو فوری اطلاق کردیا جاتا ہے لیکن کمی کا اطلاق قطعی نہیں ہوتا اور سارا منافع خود ہڑپ کرلیا جاتا ہے،
لہٰذا حکومت کو اِس معاملے پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بیشی کا تعلق ہے تو ساری صورتحال عوام کے سامنے ہے، آئی ایم ایف پٹرولیم مصنوعات سمیت کسی بھی شعبے پر سبسڈی دینے پر قطعی راضی نہیں یہی وجہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے بڑھتے نرخ ہمارے سامنے ہیںجو سبسڈی میں بتدریج کمی کے بعد آسمان کو چھورہے ہیں۔بعض معاشی ماہرین کا یہ دعویٰ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے یکسر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تھوڑی نیچے آئی ہیں اور اگر عوام کو ریلیف منتقل کیاجاتا ہے تو اس  مجوزہ کمی سے آئی ایم ایف کے جاری مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔یہاں بتانا ضروری ہے کہ حکومت نے اگلے پندرہ دن کے لیے موجودہ سطح پر لیوی کو برقرار رکھتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں کساد بازاری کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے، لیکن واضح رہنا چاہیے کہ عوام کو فائدہ اسی صورت پہنچتا ہے جب تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی ہوتی رہے اگر چند روز کے لیے کمی ہو اور دوبارہ قیمتیں پہلی قیمتوں کے پاس پہنچ جائیں تو اس کا یقینی طور پر فائدہ عوام کو نہیں پہنچ سکتا، بین الاقوامی مارکیٹ میں خریداری کا نظام پیچیدہ ہوتا ہے اِس لیے معاشی ماہرین یا اِن شعبوں سے منسلک افراد ہی بہتر اندازہ کرسکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا صورتحال ہوسکتی ہے ،
ہمارے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اِس لیے بھی غیر معمولی طور پر اہم ہے، کیونکہ موجودہ حکومت نے چند ماہ میں ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں قریباً سو روپے فی لٹر اضافہ کیا ہے جو معاشی حالات کی وجہ سے انتہائی ناگزیر تھا، یہ کڑوا گھونٹ نہ پیا جاتا تو ہم سنگین مسائل   میں مزید دھنس سکتے تھے، کیونکہ ابھی تک ہم سرخ لکیر پر کھڑے ہیں اگرچہ وزیراعظم پاکستان اوروفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہہ چکے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹل چکا ہے لیکن درحقیقت معاشی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں ۔
چونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اب عالمی مارکیٹ سے منسلک کردی گئی ہیں اِس لیے قیمتوں میں کمی یابیشی کے اثرات براہ راست عوام پر منتقل ہوں گے اور ابھی تو پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کا مکمل نفاذ باقی ہے، عالمی مارکیٹ میں پٹرول مہنگا ہوتو فوراً عوام کے لیے مہنگا کردیا جاتا ہے لیکن جب خلاف توقع قیمت کم ہو تو عوام کو فوراً ریلیف منتقل نہیں کیا جاتا، اِس لیے ہم وفاقی حکومت سے کہنا چاہیں گے کہ وہ قیمتوں میں کمی کی صورت میں ریلیف کی براہ راست اورفوری منتقلی کے لیے اقدامات کریں، حسب سابق ایسا نہ ہو کہ قیمتیں کم ہونے پر پٹرول پمپ مالکان سیل بند کرکے مصنوعی بحران پیدا کردیں ، حکومت عوام کوچاہیے کہ اِس ضمن میں انتظامی مشینری کو الرٹ رکھے تاکہ ذخیرہ اندوز ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button