آخر یہ محاذ آرائی کیا نتائج لائے گی ؟ …. عمران ریاض
سیاسی طور پر محاذ آرائی کی سیاست عمران خان کو بہت راس آئی جب انھوں نے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو للکارا اور ان سے محاذ آرائی کو بڑھاوا دیاتو عوام ان کی طرف متوجہ ہوئی اور ان کی شہرت میں اضافہ ہوا۔ محاذ آرائی سے موممٹم کے ساتھ وہ اقتدار میں آگئے۔ یہ وہ موڑ تھا جہاں عمران خان کو محاذآرائی کی پالیسی ترک کرکے سٹیٹس مین شپ کی خصوصیات میں خود کو ڈھالنا تھا۔ یہ راستہ نہ صرف مشکل بلکہ صبر آزما اور فوری شہرت سے عاری تھا ۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جس میں حکمران اپنی ذات اور پسند ناپسند سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف ملکی مفادات کے لیے کام کرتا ہے۔ جب بھی کوئی شخص لیڈر سے سٹیٹس مین بنتا ہے تو وہ اپنی ٹیم متحد کرتا ہے اور اپنے سیاسی مخالفین سے صرف نظر کرتے ہوئے انہیں بھی ساتھ لیکر ملک کو ترقی کی منزلیں طے کراتا ہے لیکن افسوس کہ عمران خان یہ رول لینے کو تیار نہ ہوئے اور الیکشن جیتنے کے بعد بھی ساڑھے تین سال اسی موڈ سے باہر ہی نہیں آئے وہ ہر تقریر میں سیاسی مخالفین پر سخت زبان استعمال رہے ان سے ملکی ترقی کا کوئی کام نہ لیا۔ بلکہ الٹا انہیں ہر وقت ریاستی طاقت کے بل بوتے دیوار سے ہی لگانے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپوزیشن اپنے آپ کو حکومتی سختیوں اور چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے نہ صرف حکومت کے خلاف صف آرا رہی بلکہ آپس میں اتحادوں پر بھی مجبور ہوئی۔
اب بجائے اپنے دور میں کی گئی غلطیاں پر غور کرنے کے اور اپنی شکست کا جائزہ لیکر آئندہ کے لیے بہتر حکمت عملی تیار کرنے کے، عمران خان نے پھر محاذ آرائی کی پالیسی کو اپنا ہتھیار بنالیا ہے اور اس محاذ کی لپیٹ میں اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ فوج اور عدلیہ کو بھی نشانے پر لے لیا۔ دونوں اداروں سے انہیں گلہ بس ایک ہی ہے کہ ماضی کی طرح میرا ساتھ کیوں نہیں دیا اب عمران خان تین محاذوں پر بیک وقت جنگ چھیڑکر بھٹو جیسے اتنے زیادہ عوامی لیڈر بننے کے چکر میں ہیں کہ جس کے سامنے آئندہ فوج یا بھی حکم عدولی کی جرأت نہ کرسکیں۔ان اداروں کے خلاف محاذ آرائی کے لیے انہوں نے جس بیانیے کا انتخاب کیا ہے وہ امریکی سازش ہے۔ میرے خیال میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بیانیہ جھوٹ ثابت ہو جائے گا کیونکہ اس کی بنیاد ہی ایک جھوٹے افسانے پر ہے اور اگر نئی آنے والی حکومت اور اس کے بعد نئے الیکشن کے ذریعے آنے والی حکومت پرفارم کر گئی تو کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ کوئی کرکٹر کبھی پاکستانی سیاست میں آیا بھی تھا۔