Column

  پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل … سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

جمہوریت ایسا بہترین نظام حکومت ہے جو انتخاب حکمران اور انتقال اقتدار کو پرامن اور انصاف وعدل کے قریب قریب کر دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ انسانیت کا دوست نظام ہے جو کم از کم حکومت اور عوام کے مابین کئی فاصلوں اور بدگمانیوں کو کسی حد تک کم اور ختم کرنے کی کامیاب کوشش کرتا ہے جو کہ ماضی میں انتہائی خون خرابے اور قتل غارت سے بھرے ہوئے تھے۔ اکثر مہذب ممالک میں یہی نظام رائج ہے اور کامیابی کے ساتھ تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہ کر امور حکمرانی کی انجام دہی میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔پاکستان کے بانیوں اور اولین قائدین نے بھی پاکستان کے لیے اسی نظام حکومت کو موزوں اور مناسب قرار دیا اور اس کی بنیاد بھی رکھی مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت ایسی دلہن بن کر رہ گئی جس کے سسرال نے رخصتی سے قبل ہی اِس سے جھگڑا شروع کر دیا ہے اور سسرال آکر وہ دلہن بظاہر تو ان میں رہ رہی ہے مگر عملاً اسے وہ حقوق نہیں ملے جو ایک خاتون خانہ کو ملنے چاہئیں۔ یعنی پاکستان میں آج ستر سالہ سفر طے کرنے کے بعد جمہوریت کو جس انداز کے ساتھ مستحکم ہونا چاہیے تھا ویسے یہاں جمہوریت پنپ نہیں سکی، حالانکہ یہی جمہوریت پاکستان کی بقا اور اداروں سمیت پاکستانی عوام کی ترقی کی ضامن ہے۔ پاکستان میں جمہوری اور جمہوریت کی چیمپئین ہونے کی دعویدار قریباً تمام سیاسی جماعتوں کے اندر بھی کئی جمہوری خامیاں ہیں جن کو دور کئے بغیر ملک میں حقیقی جمہوری نظام قائم کرنا انتہائی مشکل ہے، ہمارے ہاں سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے اپنے سیاسی ورکرز کی تربیت کا عمل شروع کرنا چاہیے تاکہ ان میں حقیقی سیاسی شعور بیدار ہو اور جمہوری روایات کو فروغ ملے۔

سب جانتے ہیں کہ 1973 کا آئین ملک کا متفقہ آئین ہے اس کے مطابق اگر ملک کو چلایا جائے گا تب ہی ملک میں حقیقی جمہوریت فروغ پا سکتی ہے، اس آئین کے مطابق ملک کی تمام اکائیاں اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کی پابند ہیں، اسی روح کے مطابق ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں، عوام کو انصاف ملے اور ملک و قوم ایک گھٹن کے ماحول سے نکل کر ایک آزاد ملک کا ہر ایک شہری ایک آزاد فرد کی حیثیت سے زندگی بسر کر سکے۔ چند عشرے قبل لکھا جانے والا میثاقِ جمہوریت محض محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے مابین طے نہیں پایا تھا بلکہ اس اہم

ترین معاہدے پر دیگر تمام جمہوری سیاسی جماعتوں کا بھی اتفاق تھا۔ اگر اس پر ہی عمل کر لیا جاتا تو آج پاکستان میں جمہوریت نہ صرف مضبوط ہوتی بلکہ فروغ بھی پا چکی ہوتی مگر یہاں ایسے مستقل ممبران اسمبلی جمہوریت کے لیے مستقل خطرہ ہیں جو اپنے ذاتی اور گروہی مفاد کی سیاست کرتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں تبدیل کرکے عوامی حمایت سے اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔اس چور دروازے کی بندش بھی ازحد ضروری ہے۔ اگر ان کا سیاسی جماعتوں اور عوامی سطح پر محاسبہ نہ کیا گیا تو یہ کسی صورت جمہوری عمل کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاست دان عوام کے اندر رہتا ہے، ان کے مسائل سے آگاہی رکھتا ہے ، ان کو سمجھتا ہے اور پھر کہیں جا کر وہ عوام کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کرتا ہے مگر ہمارے ہاں ایسے تمام سیاست دانوں کو دیوار سے لگا دیا جاتا ہے جو محض جمہوریت کے لیے سیاست کا حصہ بنتے ہیں اور ملکی ترقی میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی پاکستان کے عوام کی پہلی سیاسی جماعت تھی جو سیاسی اور جمہوری سوچ کے ساتھ وجود میں آئی۔ اس نے عوام کو وہ شعور دیا تھا جو جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے ضروری تھا، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں یہ نعرہ پیپلزپارٹی کا تھا۔ ہمارا آئین بھی اسی اصول کے تابع ہے کہ پاکستان میں اصل حکمرانی عوام کی ہے مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اپنے ماضی اور اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم نے دشمن کے ساتھ ہونے والی جنگوں اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے جیسے سنگین سانحات سے بھی کچھ سبق حاصل نہیں کیا کیونکہ اس کے باوجود ہمارے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کی آبیاری کی گئی، لسانی اور قومیت کی بنیاد پر قوم کو بانٹا گیا۔ جمہوری روایات کو خود جمہوری آقاؤں کے ہاتھوں پامال کیا گیا جمہوریت کو آمریت کے تابع کر کے چلانے کے خوفناک اور گناہ کے مترادف اقدامات دیدہ دانستہ کئے گئے تاکہ جمہوریت فروغ نہ پا سکے۔پاکستان کے اکثریتی عوام کو جان بوجھ کر تعلیم سے دور رکھا گیا تاکہ ان میں وہ شعور بیدار نہ ہوجائے جو ان کو جمہوری اقدار کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا۔ 1980 کے بعد تعلیم کے بجٹ سے ہاتھ اٹھا لیا گیا اور اس کا بجٹ آج تک کہیں اور لگ رہا ہے۔ سیاست دان کو حقائق مسخ کرکے بدنام کیا جا رہا ہے۔ پانامہ لیکس میں پاکستان کے ساڑھے چار سو افراد کا نام شامل تھا مگر اس کا نشانہ صرف شریف فیملی کو بنایا جا رہا ہے اور وہ بھی اس شریف خاندان کے اس فرد کو جس کو ملک کے کروڑوں ووٹروں کی حمایت اور اعتماد حاصل تھا۔ آصف علی زرداری گیارہ سال جیل میں رہے، ان کے خلاف کوئی کیس سچا ثابت نہیں ہوسکا۔ سب سے خوفناک اور المناک تجربہ جمہوریت کے ساتھ چار سال قبل اس طرح کیا گیا کہ ہائبرڈ جمہوری نظام وضع کر کے عمران خان کی صورت میں ایک سول ڈکٹیٹر بظاہر منتخب حکمران بنا دیا گیا۔ خالص جمہوری سوچ سے کافی دور مقام رکھنے والے سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقدامات، خیالات اور نظریات سے ثابت کردیا کہ وہ نہ صرف خود بلکہ جمہوری سوچ رکھنے والے ہر سیاستدان کو ملک کے اقتدار سے ہمیشہ کے لیے دور کردینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عمران حکومت میں اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کی بات کی گئی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوا پاکستان پر کہ ملک کی قریباً تمام سیاسی جماعتیں جو اپوزیشن میں تھیں یا اس حکومت کی اتحادی تھیں انہوں نے اس ہائبرڈ جمہوریہ کے خوفناک ارادوں کو بھانپتے ہوئے اس کے خلاف ملکی تاریخ کا پہلا عدم اعتماد کامیاب کروادیا۔ اگر اس ترمیم سے چھیڑ خانی کی جاتی تو یقیناً ملک ایسے مسائل اور انتشار کا شکار ہو جاتا جس کو حل کرنا اور سنبھالنا مشکل ہوجاتا۔

قدرت کی ایک اور مہربانی یہ بھی ہوئی ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے نہ صرف سابقہ حکومت کی متعدد غیر جمہوری حرکات سے پردہ اٹھایا ہے بلکہ آئندہ کے لیے بھی مارشل لاء نہ لگانے اور سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دینے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے جس طرح یہ کہہ دیا ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔ اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ ملک میں جمہوریت کا نازک پودا اب پھلے پھولے گا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے جس طرح قومی اسمبلی میں سپیکر قومی اسمبلی کی غیر آئینی رولنگ کو تاریخ میں پہلی بار نظریہ ضرورت کو دفن کرتے ہوئے اصولی طور پر غیر آئینی قرار دیا وہ بھی ایک امید افزاء اقدام ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ احساس انتہائی مسرت کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے کہ ملک میں جمہوریت کا مستقبل تابناک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button