Column

ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پرسپریم کورٹ کا سنہری فیصلہ …. خادم حسین

ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پرسپریم کورٹ کا سنہری فیصلہ

خادم حسین

سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی کی تحریک عدم اعتمادکومسترد کرنے کی رولنگ پر ایک مشکل ترین مقدمہ سنا یااور اس رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم دے دیا۔ میں بھی اس حق میں ہوں کہ سیاسی اور پارلیمانی تنازعات عدلیہ میں نہیں جانے چاہیے لیکن جب سیاسی جماعتیں با ہم دست وگریباں ہوجائیں، ایک فریق پارلیمان کو اپنے پاس گروی رکھ لے تو پھر سپریم کورٹ ہی آخری آپشن بچتی ہے، اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی سپریم کورٹ کو آئینی، سیاسی اور پارلیمانی تنازعات کو دیکھنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ کوئی اچھی صورتحال نہ پہلے تھی نہ آج ہے۔پاکستان کے سیاسی حلقوں میں کیس عدالت میں جانے کے بعد سے مفاہمتی فیصلوں کی بہت بات کی جا رہی تھی۔ بالخصوص تحریک انصاف کے وہ حلقے مفاہمتی انصاف کی بہت بات کر رہے تھے۔ ان کی رائے میں بے شک ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو آئین و قانون کے منافی قرار دے دیا جائے اور یہ بھی قرار دے دیا جائے کہ آئندہ کسی بھی سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ روکنے کے لیے ایسی کسی بھی رولنگ دینے کا کوئی اختیار نہیں ہوگالیکن ساتھ ساتھ یہ بھی قرار دے دیا جائے کہ اب چونکہ ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہو گیا ہے، فیصلہ عوام کی عدالت میں چلا گیا ہے اور سب سے بڑی عدالت عوام کی عدالت ہے تو ہم انتخابات کو نہیں روک رہے، اس لیے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط ہے لیکن انتخابا ت ہونے چاہئیں۔ اس طرح دونوں فریق خوش ہو سکتے تھے۔ دونوں کوکچھ نہ کچھ مل جاتا۔اپوزیشن کہے گی کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط ثابت ہو گئی ہے، اس لیے غداری اور بیرونی مداخلت کے تمام الزامات بھی غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ عمران خان کہے گا کہ میرا انتخابات کرانے کا اعلان قائم رہا ہے، اس لیے سپریم کورٹ نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ دونوں ہی مٹھائیاں بانٹتے۔ لیکن عدالتی فیصلے نے صورتحال واضع کردی کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غیر آئینی ہے۔
پاکستان اس وقت جہاں کھڑا ہے، اگر پاکستان کو آئین و قانون کے مطابق چلانا ہے تو پھر حقیقی معنوں میں آئین و قانون کی سربلندی قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے سیاسی کھلاڑیوں کو سبق دینا ضروری ہے کہ انہوں نے سیاست کا کھیل آئین کے دائرہ کے اندر رہ کر کھیلنا ہے۔ کسی بھی حالت میں آئین سے چھیڑ چھاڑکرنا، توڑنا مروڑنا اور آئین کے آرٹیکلز کی من مانی تشریح کرکے کوئی اقدام کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے آئین سے چھیڑ چھاڑ کرنا ایک ریڈ لائن ہے اورجس کو عبورکر نے سے انہیں کوئی معافی نہیں ملے گی۔ آئین کوئی موم کی ناک نہیں بلکہ ایک سیسہ پلائی دیوار ہے۔ کسی بھی قسم کا مفاہمتی رویہ ہر حکمران کو یہ حوصلہ دے گا کہ وہ آئین سے کھیل کر بھی بچ سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریٹائرڈ ججز اور ریٹائرڈ جنرلز کو ریٹائرمنٹ کے بعد کو ئی حکومتی عہدہ نہیں ملنا چاہیے بلکہ انہیں سرے سے کوئی بھی ملازمت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ پرتعیش نوکری اور مراعات کسی ایک طرف جھکاؤ کی ترغیب دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی پاکستان کا سیاسی کلچر خراب ہو رہا ہے۔ سیاسی کام سیاستدانوں کو ہی کرنا چاہیے۔ پاکستان کے نظام
انصاف میں پہلے ہی نظریہ ضرورت کے تحت دیے گئے، فیصلوں کی بہت داستانیں ہیں۔ یہ ہمارے نظام انصاف کے کوئی سنہرے باب نہیں ہیں۔ ہمارے نظام انصاف نے ڈکٹیٹرز کو حکمرانی کے قانونی جواز بھی فراہم کیے ہیں۔ ایک ڈکٹیٹر کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا تھا۔ آج اگر ہم مفاہمت کے تحت ایک سول حکمران کو آئین سے کھیلنے کی قانونی اجازت دے دیتے تو یہ بھی کوئی اچھی مثال نہیں ہو تی۔ جیسے ماضی میں جو متنازعہ فیصلے دیے گئے وہ تاریخ میں متنازعہ ہی قرار پائے ہیں۔ متنازعہ فیصلے آئندہ بھی متنازعہ ہی قرار پائیں گے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں جو جوڈیشل ایکٹو ازم سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی، اس کو بھی پاکستان کی عوام اور قانون دانوں نے سراہا نہیں ۔ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس نے تو اپنی سیاسی جماعت بھی بنانے کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی ہے۔ اگر سیاستدانوں کے بچے ان کی سیاست سے پہچانے جاتے ہیں تو نظام انصاف کی بھی یہی صورتحال ہے۔ وردی میں آنے والے ڈکٹیٹرز نے ہمیشہ آئین کی بے توقیری کی ہے۔کیا اب جمہوری حکمرانوں کو بھی آئین کی بے توقیری کی اجازت ملنی چاہیے؟ کیا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو بھی آئین سے کھیلنے کی اجازت دے دی جانی چاہیے؟ جنھوں نے پارلیمان کو آئین کے مطابق چلانے کی قسم کھائی ہوگی، انہیں بھی آئین سے انحراف کی اجازت ہوگی؟یہ کوئی اچھی پیش رفت نہیں ہوگی۔یہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے بجائے اسے کمزور سے کمزور کرنے کا باعث ہوگا۔آئین سے انحراف کسی بھی طرح جمہوری نظام کو مضبوط نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں کسی بھی قسم کے مفاہمتی انصاف کو پاکستان کی جمہوریت اور آئین کے لیے درست نہیں سمجھتا۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے آئین کے تناظر میں سخت فیصلہ د یا ہے تاکہ آئندہ آئین سے انحراف اور اس سے کھیلنے کے بارے میں کوئی حکمران سوچ بھی نہ سکے۔ جو حکومت کل تک جمہوری اقتدار کے لیے ارکان کو باندھنے کے لیے سپریم کورٹ میں کھڑی ہوئی تھی، وہی حکومت آج آئین سے انحراف پر سپریم کورٹ میں بطور ملزم کھڑی تھی، اگر دیکھا جائے تو عمران خان اور ان کی ٹیم سپریم کورٹ میں بطور ملزم کٹہرے میں ہی کھڑی تھی اور کسی مفاہمتی انصاف کی امید کر رہی تھی۔ لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ آئین سے کھیلنے کے تمام دروازے مستقل بند کیے جائیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بنچ کی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دینا سنہری فیصلہ ہے۔اب کسی کو آئین سے کھلواڑ کی جرأت نہ ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button