Column

پاکستان کا واحد نامیاتی گاؤں ….. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

سکردو میں ہفتہ بھر گزار کر یہ خیال آیا کہ نامیاتی گاؤں میں ایسا کیا خاص تھا کہ یہاں پر برطانوی شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن کو بطور خاص لایا گیا۔ ہم نے بھی اس نامیاتی گاؤں کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ گھانچے کے مضافات میں واقع یہ گاؤں ماچولو وادی میں ہے۔ سکردو شہر سے کھرپوچو قلعے کے عقبی راستے پر دریا سندھ کے کنارے آباد ہے۔

’’ ہم نے پہلے تھوڑے گاؤں دیکھے ہوئے ہیں کہ پھر گاؤں کی طرف چل نکلیں ‘‘ فوزیہ نے عدم دلچسپی دکھائی ، مگر ہم چل دئیے۔
عجیب ٹریک جو چونکا دینے والی منزل کی طرف جاتا تھا، سکردو کا پہلا نامیاتی گاؤں جیسا بھی ہو گا ، اس منزل کا راستہ زیادہ خوبصورت تھا۔ پیدل سفر کے راستے کی خاموشی ، اس جگہ کی پاکیزگی ، نامیاتی گاؤں کی نظر نہ آنے والی کشش تک جانا اور چلتے چلے جانا دلکشی کا مؤجب تھا۔ پورے دن کے لیے گاؤں کی تلاش اور پھر منزل کا لمس ضروری تھا ، جس میں واپسی کے لیے 2 گھنٹے کی ٹریکنگ شامل تھی۔ ٹریکنگ روٹ کا پہلا نصف کھردرا اور سخت تھا ، خاص طور پر ہم بچوں کے ساتھ تھے اس لیے محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔ راستے کا دوسرا نصف حصہ نسبتاً آسان تھا اور ساتھ ہی قدرت کے عمدہ نظارے تھے۔ وہاں مجموعی طور پر 70 سے 80 افراد رہتے ہیں ، جن میں 17 یا 18 خاندان ہیں۔ اس انوکھے گاؤں کی سیر کے لیے چار گھنٹے سے کم وقت کا قیام کافی نہیں ہے۔
ایک نامیاتی طریقہ زندگی گزارنا ایک صحت مند طرز زندگی ہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بہت سے لوگ نامیاتی انداز میں زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں اور اگرچہ یہ زندگی گزارنے کے لیے زیادہ مہنگا طریقہ لگتا ہے ، لیکن نامیاتی طرز زندگی پر چلنے سے آپ زندگی کو بھرپور آسان بنا سکتے ہیں۔
ماحولیاتی ماحول کو بہتر بنانے اور اپنے اہل خانہ کو جسمانی اور ذہنی صحت مہیا کرنے میں نامیاتی طرز بود و باش مدد کرتا ہے ، اس میں تیزی سے بیماری کا امکان کم ہوجاتا ہے۔
اس نانگسوق نامیاتی گاؤں سکارڈو کے نامیاتی طرز زندگی کو برقرار رکھنے کی وجہ صرف علامتی ہے کہ فطرت کو بچانے کے لیے نامیاتی زندگی گزارنا اب بھی ممکن ہے۔ آب و ہوا کے مسائل جیسے گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نکلنے کا ایک راستہ موجود ہے۔
گاؤں کا احاطہ چھوٹے چھوٹے گول پتھروں سے تعمیرشدہ ایک دیسی ساختہ دروازے سے شروع ہوتا ہے۔ داخلی دروازے پرانگریزی میں’’ اولین آرگینک گاؤں میں خوش آمدید ‘‘کے الفاظ نقش کئے گئے ہیں۔ گیٹ کے بائیں جانب ایک خستہ حال سائن بورڈپراس منفرد گاؤں میں دستیاب سہولیات کا خلاصہ دیا گیا ہے۔ ان سہولیات میں آرگینک شپ فارمنگ، نیچرل واٹرسپرنگ، سیٹنگ ایریا، ٹروٹ فش فارم، کراپ پروڈکشن ایریا، آ رگینک پولٹری، ٹوائلٹ، کیمپنگ ایریا اورویلیج ہاؤسنگ وغیرہ شامل ہیں۔
سائن بورڈپرگاؤں میں داخل ہونے والے مہمانوں کے لیے چند ہدایات بھی درج ہیں۔ جن میں مقامی روایات کی قدردانی، رہائشی ایریازمیں داخلے سے اجتناب، قدرتی ماحول کاتحفظ، گندگی اور کچرہ پھیلانے سے گریز اور مشکل کی صورت میں مقامی کمیٹی سے رجوع شامل ہیں۔
گاؤں شروع ہوتے ہی آپ خود کو ایک الگ دنیا میں محسوس کرتے ہیں۔ جہاں ہرطرف ہرے بھرے کھیت ، لہلاتے پھول، چھوٹے چھوٹے باغات ، بیمار اور عمررسیدہ درخت کے جنگل ، گنگناتے چشموں، بودا مکانات ، پالتوجانور، چرند پرندکی آوازیںاورمسکراہٹ بھرے چہرے آپ کا استقبال کررہے ہوتے ہیں۔
گاؤں کوآرگینک اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں کے باسی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے معاملے میں خودانحصارہیں۔ یہ لوگ کھانے پینے کے لیے گھریلو سطح پر دستیاب خالص غذا کا استعمال کرتے ہیں۔ گندم ، سبزیاں اور پھلوں کی پیداواران کی اپنی ہے۔ یہ لوگ ان اجزاء کی پیداوار کے سلسلے میں کمیائی کھاد کی بجائے دیسی کھاد، گوبر وغیرہ کوترجیح دیتے ہیں۔ دودھ، انڈے، مکھن، لسی، گوشت وغیرہ کے معاملے میں بھی یہ لوگ خودکفیل ہیں۔ یہاں کے کھانے انتہائی لذیذ اور متوازن ہیں۔ یہاں پر بازاری چیزوں کا استعمال آٹے میں نمک کے برابرہے۔ حتیٰ کہ چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج بھی دیسی ٹوٹکوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بشرط کہ وہ بیماری کوئی پیچیدہ صورت اختیارنہ کرجائے۔
مہمانوں کے قیام کے لیے رہائشی آبادی سے قدرے فاصلے پر دیسی ساخت کے دوکمرے تعمیرکئے گئے ہیں۔ گاؤں کے لوگ انتہائی صفائی پسند اور قدرتی ماحول کوآلودگی سے بچانے کے حوالے سے سخت محتاط ہیں۔
’’نامیاتی‘‘ایک لیبلنگ اصطلاح ہے جو نامیاتی فوڈز پروڈکشن ایکٹ کے اختیار کے تحت تیار کردہ مصنوعات کی نشاندہی کرتی ہے۔ نامیاتی پیداوار کے لیے اہم رہنما اصول یہ ہیں کہ قدرتی نظام کے ماحولیاتی توازن کو بڑھانے والے اور زراعت کے نظام کے کچھ حصوں کو ماحولیاتی طور پر ضم کرنے والے مواد اور طریقوں کا استعمال کیا جائے۔ زمین پر تین سال تک مصنوعی کھادیا ادویات استعمال نہ کی جائیں اور پھر فصل کاشت کی جائے تو حاصل شدہ خوراک نامیاتی کہلائے گی۔ زہریلی ادویات اور کیمیکل سے پاک زندگی نامیاتی گاؤں کی پہچان تھی۔ وہاں پر صرف ہم لوگ مصنوعی تھے ، باقی سب کچھ خالص اور دیسی تھا۔
شام ڈھلے ہم اپنی زہر بھری زندگی میں واپس سکردو لوٹ آئے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button