Column

برآمدات پر مبنی معیشت، پائیدار ترقی کی ضمانت

تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

عالمی معیشت کے فروع میں آج وہی اقوام نمایاں مقام حاصل کر رہی ہیں جنہوں نے برآمدات کو اپنی معاشی ترقی کا ستون بنایا ہے۔ پاکستان بھی حالیہ برسوں میں جس شدید اقتصادی بحران کا شکار رہا، اس کی بنیادی وجوہات میں درآمدات پر انحصار، زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور قرضوں پر مبنی معیشت شامل ہیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ حالیہ سخت مالیاتی اصلاحات کی بدولت ملکی معیشت اس خطرناک موڑ سے واپس پلٹ آئی ہے جس نے اسے دیوالیہ پن کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔
پاکستان کی معیشت کی ابتدا زرعی بنیادوں پر ہوئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد صنعتی شعبے کی طرف توجہ دی گئی، لیکن بدقسمتی سے برآمدات پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جا سکی۔ 1960ء کی دہائی میں صدر ایوب خان کے دور میں کچھ برآمدی صنعتیں پروان چڑھیں، جیسے ٹیکسٹائل اور چمڑا سازی، لیکن یہ رجحان مستقل نہ رہا۔ بعد ازاں، قرضوں پر مبنی ترقی کے ماڈل نے معیشت کو وقتی طور پر سہارا تو دیا لیکن اندرونی طور پر اسے کمزور بھی کر دیا۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر خزانہ کی صدارت میں ہونے والا اعلیٰ سطحی اجلاس نہایت اہمیت کا حامل ہے جس میں اسٹیٹ بینک، پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور نمایاں مالیاتی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ برآمدات میں اضافہ ملک کی حقیقی آمدنی بڑھانے کا واحد دیرپا راستہ ہے۔ وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ مالیاتی اداروں کی شمولیت اور مالی معاونت کے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔
بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستان منرلز سمٹ کی کامیابی اور ’’ مرسک لائن‘‘ جیسی عالمی شہرت یافتہ شپنگ کمپنی کی پاکستان کے بندرگاہی انفراسٹرکچر میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے عزم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر صحیح حکمت عملی اپنائی جائی تو دنیا پاکستان کو ایک اہم معاشی کھلاڑی کے طور پر دیکھنے کو تیار ہے۔
اس سلسلے میں ترجیحی شعبوں کی شناخت اور معاونت بھی انتہائی ضروری ہے، برآمدات میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ اُن شعبہ جات کی نشان دہی کی جائے جو عالمی منڈی میں مسابقتی حیثیت رکھتے ہوں، جیسے:
ٹیکسٹائل اور گارمنٹس، معدنیات اور قیمتی دھاتیں، آئی ٹی اور سافٹ ویئر سروسز، زرعی مصنوعات اور دوا سازی، حلال فوڈ انڈسٹری وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کی طرف سے زراعت، چھوٹے و درمیانے کاروبار، ڈیجیٹل و ٹیکنالوجی کے شعبے میں مالیاتی معاونت کی تفصیلات نے ظاہر کیا ہے کہ بینکاری شعبہ اب اس قومی مشن کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔
بینکوں کا کردار صرف مالی وسائل کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ وہ معیاری سرمایہ کاری، ایکسپورٹ فنانسنگ، تجارتی سہولیات، اور لاجسٹکس کے شعبے میں بھی اہم خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک جیسے بنگلہ دیش اور ویتنام نے اپنی ایکسپورٹ بیس معیشت کو بینکاری اور مالیاتی اداروں کی شراکت سے مستحکم کیا۔
معاشی استحکام کا پہلا قدم اگرچہ سخت اصلاحات تھیں لیکن مستقل ترقی کا راستہ برآمدات میں مسلسل اضافے سے ہی ممکن ہے۔ برآمدات میں اضافہ نہ صرف زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھاتا ہے بلکہ روزگار، مقامی صنعت کی ترقی اور عالمی تجارت میں پاکستانی مصنوعات کی موجودگی کو بھی ممکن بناتا ہے۔ موجودہ مالیاتی حکمت عملی میں اگر بینکنگ اور انویسٹمنٹ سیکٹر نے اپنی بھرپور شمولیت جاری رکھی، تو پاکستان عنقریب پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا اور عالمی معیشتوں کی صف میں باوقار مقام حاصل کرے گا ان شاء اللہ۔

جواب دیں

Back to top button