Column

علی باقر نجفی کا عالیہ سے عظمیٰ تک کا سفر

تحریر : رہیل اکبر
انتہائی محنتی، ایماندار اور مثالی درد دل رکھنے والے والا مخلص ترین شخص جسٹس علی باقر نجفی عدالت عالیہ میں عوامی خدمت کے ریکارڈ توڑتا ہوا عدالت عظمیٰ تک پہنچ گیا، ان کا یہ سفر جہاں دوسرے ججوں کے لیے مشعل راہ ہے وہاں وکلاء برادری کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ والدین کا فرمانبردار اور محنت کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا۔ 15 ستمبر1963 ء کو پیدا ہونے والے علی باقر نجفی نے مسلم ماڈل ہائی سکول اردو بازار لاہور سے میٹرک، گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے 1989ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور پھر قانونی پیشے سے ایسے منسلک ہوئے کہ آج پورے ملک میں ان کے ہی چرچے ہیں پیار، محبت، خلوص اور اپنائیت سے رشتوں کو نبھانے کا جو ہنر ان کے والد مرحوم علی حضور نجفی نے انہیں سکھایا وہ اس پر آج تک کاربند ہیں۔ علی باقر نجفی کے استاد اور محسن ان کے والد گرامی ہی ہیں جو خود بھی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ تھے، انہی کی سرپرستی میں علی باقر نجفی 1990ء میں ہائی کورٹس اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایڈووکیٹ بنے، جہاں انہوں نے بے کسوں اور بے آسرا افراد کو انصاف دلوایا، ان کی عوامی خدمت کا یہ دورانیہ تقریبا ڈھائی عشروں پر محیط ہے۔ تقریبا 12سال تک پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور فیکلٹی میں رہے اور اٹھارہ سال پرائیویٹ لاء کالجوں میں بھی درس و تدریس کے فرائض سر انجام دئیے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے انٹرنل اور ایکسٹرنل ایگزامینر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں، قانونی پیشے کے دوران علی باقر نجفی لوئر کورٹس، فیڈرل شریعت کورٹ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے مقدمات میں پیش ہوئے، جن کی تعداد تقریبا1000 سے زائد بنتی ہے، ان کے کیسوں پر جاری ہونے والے متعدد فیصلے آئین و قانون، سول، کریمنل، کارپوریٹ، بینکنگ، کسٹمز، نارکوٹکس، اینٹی کرپشن، لیبر، امیگریشن، اور اسلامی قوانین بشمول پرائیویٹ انٹرنیشنل لاز میں بھی رپورٹ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے عام لوگوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اس میں کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ 16اپریل 2012ء کو لاہور ہائیکورٹ لاہور میں جج کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے ثابت کر دیا کہ ایک اچھا اور مثالی جج کیا ہوتا ہے انہوں نے فوجداری، دیوانی، آئینی، انسانی حقوق، نیب، بینکنگ اینڈ کمپنی ایکٹ، اینٹی کرپشن، منشیات، قتل کے ریفرنسز، فیملی، کرایہ داری اور لیبر جج کے 37ہزار سے زائد مقدمات کا فیصلہ کیا۔ پرنسپل سیٹ اور اس کے تمام بینچوں، ملتان، راولپنڈی اور بہاولپور میں کام کیا، سانحہ ماڈل ٹائون لاہور جو17جون 2014کو ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے باہر رونما ہوا تھا کے واقعے کی عدالتی انکوائری بھی کی، جس میں14افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ انہوں نے 23جنوری 2017کو لیگل ایڈ سنٹر جوہانسبرگ میں سائوتھ افریقہ لیگل ایڈ کی ورکشاپ میں شرکت کی اور 25جنوری 2017سے 27جنوری 2017تک جوہانسبرگ، جنوبی افریقہ میں ’’ انٹیگریٹنگ انوائرمینٹل لا ٹریننگ‘‘ کے موضوع بھی شرکت کی اور 27جنوری 2017تک ترکی میں ASTADRمیں شرکت کی۔ 2021انہوں نے برطانیہ، فرانس، جرمنی، امریکہ، ایران، عراق اور سعودی عرب کا بھی دورہ کیا، علی باقر نجفی انصاف کی اس کرسی پر بیٹھے ہیں جہاں پاکستان کا مستقبل بھی ہے اور عوام کی آس امید بھی، کیونکہ انصاف کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے اور اس بنیاد کو مضبوط رکھنے میں جسٹس کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے، اگر ہم ایک اچھے اور مثالی جسٹس کی بات کریں کہ ان میں کیا خصوصیات ہوتی ہیں تو ایک مثالی اور اچھا جسٹس صرف قانون کی کتاب کا عالم نہیں ہوتا بلکہ وہ اعلیٰ انسانی اقدار کا پیکر اور معاشرے کے لیے امید کی کرن ہوتا ہے، اس پر کسی قسم کا خوف، لالچ یا ذاتی پسند و ناپسند اثر انداز نہیں ہوتی وہ تمام فریقین کو یکساں اہمیت دیتا ہے جو صرف ٹھوس شواہد اور قانون کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے۔ اس کی نظر میں طاقتور اور کمزور، امیر اور غریب سب برابر ہوتے ہیں، وہ کسی بھی دبائو کے سامنے جھکنے کی بجائے آئین و قانون کی پاسدار ی پر لبیک کہتا ہے، اچھے جسٹس میں قانون کی گہری سمجھ بوجھ اور اس کی تشریح کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، وہ صرف الفاظ کی ظاہری معنی تک محدود نہیں رہتا بلکہ قانون کی روح اور اس کے مقاصد کو بھی سمجھتا ہے، وہ پیچیدہ قانونی نکات کو سادہ اور قابل فہم انداز میں بیان کرتا ہے، تاکہ عام آدمی بھی انصاف کے تقاضوں کو سمجھ سکے، ایک مثالی جسٹس صرف فیصلے سنانے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، وہ نظام عدل میں اصلاحات لانے کے لیے کوشاں رہتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر فرد کو بروقت اور سستا انصاف میسر ہو وہ مقدمات کو غیر ضروری تاخیر کا شکار نہیں ہونے دیتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد از جلد حقدار کو اس کا حق مل جائے۔ اچھے جسٹس میں صبر و تحمل اور تحمل مزاجی بھی لازمی عناصر ہیں، وہ فریقین کے دلائل کو غور سے سنتا ہے، انہیں اپنی بات کہنے کا پورا موقع دیتا ہے اور کسی بھی قسم کی بد زبانی یا غیر شائستہ رویے کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اس کا رویہ وقار اور احترام پر مبنی ہوتا ہے، جو عدالت کے تقدس کو برقرار رکھتا ہے، ایک مثالی جسٹس معاشرے کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا کردار اور عمل لوگوں کو قانون کی حکمرانی پر یقین دلاتا ہے، وہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پابند ہوتا ہے اور کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرتا ہے جو اس کے منصب کی روح کو مجروح کر سکے۔ ایک مثالی اور اچھا جسٹس وہ شخص ہوتا ہے جو غیر جانبدار ہو، قانون کا ماہر ہو، انصاف کی فراہمی کے لیے کوشاں ہو، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے اور معاشرے کے لیے ایک مثال ہو، ایسے جسٹس کا وجود کسی بھی ملک کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں اور ان کی موجودگی سے ہی معاشرے میں امن، ترقی اور خوشحالی ممکن ہو سکتی ہے۔ ہمیں ایسے جسٹس پر فخر کرنا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے فرائض کو مزید بہتر انداز میں سرانجام دے سکیں اور ان میں علی باقر نجفی سر فہرست ہیں۔

جواب دیں

Back to top button