
تحریر: سی ایم رضوان
گزشتہ دنوں جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کا گھات لگا کر حملہ پوری قوم کے لئے ایک سخت دھچکا ہے جو ہمیں دیگر اوامر کے ساتھ ساتھ اس امر سے بھی خبردار کرتا ہے کہ ملک کے ایک دیگر صوبے کے پی کے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں ریاست کی رٹ کس طرح کمزور ہے۔ گزشتہ رات فوجی حکام نے انسدادِ دہشت گردی آپریشن ختم ہونے کی تصدیق کر دی۔ اس ضمن میں ان خبروں پر ہرگز یقین نہیں کیا جا سکتا کہ سکیورٹی فورسز کا آپریشن نامکمل رہا ہے اور کچھ یرغمالیوں کو حملہ آور ساتھ لے گئے ہیں بلکہ صرف ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ پر ہی یقین ہے اور پوری قوم کو یقین کر لینا چاہیے کہ ہماری سکیورٹی فورسز نے یہ آپریشن کلئیر کر دیا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) کے دہشت گرد ایک ویران علاقے میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت سیکڑوں مسافروں کو لے جانے والی ٹرین کو ہائی جیک کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
یہ بھی تاریخ ہے کہ اس مخصوص ٹرین کو اس سے قبل بھی دہشت گرد اپنا ہدف بنا چکے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے خود کش حملے میں بھی ہدف یہی جعفر ایکسپریس ہی تھی۔ یہ حقیقت بھی تسلیم شدہ ہے کہ بلوچستان میں نقل و حمل کا نظام بری طرح متاثر ہو چکا ہے جہاں شر پسند عناصر کی جانب سے ہائی ویز بلاک اور ٹرینوں کو ہائی جیک کیا جاتا رہا ہے۔ اب دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے باعث یہاں اس نوعیت کے واقعات کا تسلسل بھی ہے اور مزید خدشہ بھی۔ ان حالات میں ایک جانب تو ایک مخصوص ٹولے اور پی ٹی آئی ٹرولز کی جانب سے سوشل میڈیا پر روایتی اور تنقیدی بیانات دینے کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف حکومت کی جانب سے معاملات کو سلجھانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ اس وقت بلوچستان کو ایک مضبوط سکیورٹی منصوبے اور اس پر نتائج کے حصول تک عملدرآمد کی ضرورت ہے تاکہ صوبے کے عوام کے لئے امن کو یقینی بنایا جا سکے اور وہ تشدد کے کسی خوف کے بغیر اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ یہ بھی تسلیم شدہ ہے کہ اب تک، ریاست اس حوالے سے اپنے حفاظتی فرائض کی انجام دہی میں جزوی طور پر ناکام رہی ہے کیونکہ اگر وہ کامیاب ہوتی تو تو جعفر ایکسپریس پر یہ اتنا بڑا دہشت گرد حملہ نہ ہوتا۔ اگرچہ بلوچستان میں حال ہی میں انسداد دہشت گردی کے لئے متعدد آپریشن ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں بھی ہوئی ہیں اور متعدد دہشت گرد اپنے انجام کو بھی پہنچے ہیں لیکن ان کارروائیوں سے کسی طرح کے طویل مدتی استحکام یا امن کا حصول ممکن نہیں ہو پایا ہے جس کا مطلب ہے کہ ریاست کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے تو صوبے میں ایسے نوگو ایریاز اور غیر حکومتی مقامات نہیں ہونے چاہئیں جہاں شرپسندوں کو کنٹرول حاصل ہو اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کو بوقت ضرورت مشکلات یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔ ریاست کی رٹ پورے صوبے میں چلنی چاہیے۔ لوگ جانتے ہیں اور سکیورٹی اداروں نے بھی تصدیق کی ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے دہشت گرد افغانستان میں اپنے ’’ سہولت کاروں اور ماسٹر مائنڈز‘‘ سے رابطے میں تھے۔ اس ضمن میں پاکستان کو نہ صرف سفارتی سطح پر زبردست انداز میں یہ معاملہ افغان طالبان حکومت کے سامنے اٹھانا چاہیے بلکہ داخلی طور پر جو کمی کوتاہی رہ گئی ہے اس کو بھی دور کرنا چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے دیگر دشمن ممالک کو بھی تنبیہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنی جانب سے پاکستان کے کسی بھی معاملے
سے متعلق غلط مہم جوئی سے گریز کریں اور داخلی سلامتی کے معاملے پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ جعفر ایکسپریس پر اس منظم حملے نے یہ بھی نشان دہی کی ہے کہ علیحدگی پسندوں کو تجربہ کار بیرونی عناصر کی پشت پناہی حاصل تھی اور وہ سارا وقت ان عناصر سے رہنمائی لیتے رہے۔ اس ضمن میں بھی سکیورٹی فورسز اور متعلقہ اداروں کو پیش بندی کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں محض معمول کی فوجی کارروائیوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند جن وجوہات کو بنیاد بنا کر بلوچوں کا ذہنی استحصال کرتے ہیں، ان وجوہات کو حل کرنے کے لئے مخلصانہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ ان وجوہات میں جبری گمشدگیاں، صوبے کے بگڑتے سماجی و معاشی اشاریے اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی شامل ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جبری گمشدگیوں کا بہانہ بنا کر جو گروہ سیاست کرتے ہیں ان کے بیانیے اور الزامات کا رد بھی واضح طور ہر ہونا چاہیے کہ دہشت گردی کی غرض سے گھروں سے نکل جانے والے مرد و خواتین جبری طور پر گمشدہ نہیں کئے جاتے بلکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے مذموم مقاصد کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ اس امر کی تشہیر بھی ضروری ہے کہ نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے کے لئے کوئی جواز قابلِ قبول نہیں۔ ظاہر ہے رائے عامہ ہموار ہو گی اور خاص طور پر بلوچستان کے عوام میں جب یہ شعور جڑ پکڑ جائے گا کہ بندوق اثھانا اور اپنے ہی ملک اور صوبے میں تخریب کاری کرنا جہاد نہیں جرم ہیں تو پھر آئندہ کوئی بلوچ نوجوان ان دہشت گردوں کا آلہ کار نہیں بنے گا۔ یاد رہے کہ ایسی تجاویز ماضی میں متعدد مواقع پر سامنے آ چکی ہیں مگر ان پر اول تو غور نہیں کیا گیا اور اگر گیا تو ان پر عملدرآمد سرسری طور ہر کیا گیا۔ امید ہے کہ سانحہ جعفر ایکسپریس کے بعد ملک کے پالیسی ساز اور ان پالیسیوں کا نفاذ کرنے والے اب ان تجاویز پر سنجیدہ غور کریں گے تو پھر ہی یہ دہشت گردی جڑ سے ختم ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جو بھی حالات ہوں کوئی بھی حکمران ہو سلامتی اور قانون کی حکمرانی ضروری ہے اور خاص طور پر بلوچستان میں دیرپا امن اسی صورت میں آسکتا ہے کہ جب صوبے کی گورننس اچھی ہو، صوبے کے عوام کو معدنیاتی و دیگر وسائل میں حصہ دار بنایا جائے اور صوبے کے حقیقی نمائندگان کو جمہوری عمل میں شرکت کا موقع دیا جائے۔
جعفر ایکسپریس حملہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اب علیحدگی پسند تنازع مزید پھیلنے میں شاید زیادہ وقت باقی نہیں رہا اور بلوچستان کو بچانے کے لئے حکمرانوں کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ اب بلوچ سوشل سٹرکچر بھی تبدیل ہوا ہے جس کے آثار مسلح مزاحمت کی قیادت میں آنے والی حالیہ تبدیلی اور ان کے باہمی اکٹھ سے بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ اس وقت بلوچ عسکریت پسندی ایسے لوگوں کے پاس ہے جسے ’’ سوشل گریوٹی بیسڈ لیڈرشپ‘‘ یا سماجی سطح پر پائے جانے والے رشتوں سے جنم لینے والی قیادت کہا جاتا ہے جو کہ روایتی قبائلی قیادت سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر اللہ نذر، بشیر زیب اور بنگلزئی سمیت دیگر گرائونڈ بیسڈ لیڈرشپ بلوچ پولیٹیکل یا قبائلی اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ وہ بلوچستان کے لوئر مڈل کلاس کی نمائندگی کرتے ہیں اور اسی کلاس سے نوجوان ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ یہ امر بھی تسلیم شدہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں سماجی تبدیلیوں سے بہت سی تبدیلیاں آتی رہی ہیں لیکن یہ مزاحمت صرف بلوچ مزاحمت ہی کہلاتی ہے۔ اب اس تاثر کو مسترد کر دینا چاہیے کہ اب یہ مزاحمتیں قبائلی ہیں کیونکہ ماضی کی بلوچ مسلح مزاحمتیں مکمل طور پر قبائلی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ماضی قریب میں شہزادہ ابوالکریم کی مزاحمت میں بھی تعلیم یافتہ افراد شامل تھے۔ 1973ء کی شورش میں بھی شہری کیڈر اور پڑھے لکھے لوگ پیش پیش تھے لہٰذا قبائلی یا متوسط طبقے کی بنیاد پر مزاحمت کی درجہ بندی کرنا گمراہ کن ہے۔ پھر یہ بھی کہ جنرل شیروف کے نام سے مشہور شیر محمد مری اور نواب خیر بخش مری کی منظم کی گئی مزاحمت بھی بلوچ قومیت کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے نظریات سے جڑی تھی۔ اسی طرح خواتین کی مسلح حملوں میں شرکت بھی حالیہ برسوں کے دوران بلوچ عسکریت پسندی میں ایک اور بڑی تبدیلی ہے۔ ماضی میں کالعدم مسلح تنظیمیں گیس پائپ لائنز اور ریلوے ٹریکس جیسی بنیادی تنصیبات کو نشانہ بناتی تھیں لیکن اب ان حملوں کا دائرہ ہائی ویز اور شہری علاقوں تک پھیل چکا ہے۔ کراچی ایئرپورٹ حملے، مختلف اضلاع میں بیک وقت کارروائیاں اور جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنانے جیسی کارروائیوں سے بھی بلوچ عسکریت پسند گروپس کی انٹیلی جینس اور آپریشنل صلاحیتوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ پاکستانی حکومت یہ درست الزام عائد کرتی آئی ہے کہ ان گروپس کی بڑھتی ہوئی صلاحیتیں انہیں حاصل غیر ملکی امداد کی وجہ سے ہیں۔ سابق انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان اور ریاستی امور کے ماہر طارق کھوسہ کا بھی کہنا تھا کہ بلوچ کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کو بیرونی عناصر کی واضح حمایت حاصل ہے جو ایک تشویش ناک پہلو ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی واضح طور ہر آن حملہ آوروں کے افغانستان کے ساتھ مسلسل رابطے کی تصدیق کی ہے تاہم بلوچ عسکریت پسندی کا موازنہ دنیا کے دیگر خطے میں چلنے والی تحریکوں سے بھی کیا جانا چاہیے کہ اگر دیگر ممالک یہ سب کرتے ہیں تو اس کا تدارک کر کے ہی امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آئرلینڈ میں تحریک شہری نوعیت کی تھی، کرد تحریک مختلف مراحل میں علاقائی اور عالمی طاقتوں سے متاثر رہی جب کہ بلوچ تحریک اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ خود انحصاری اور خود کفالت پر مبنی ہے۔ اور اب بلوچستان میں ٹرین پر حالیہ حملہ علیحدگی پسند تنظیموں کی نئی اور جارحانہ حکمتِ عملی کا پتہ دیتی اور اب چیلنجز بھی مختلف ہیں۔ جن کو سر کرنا از حد ضروری ہے۔ یہ اعتراف بھی کر لینا چاہیے کہ ریاست اس وقت دفاعی پوزیشن پر ہے اور اس کے اقدامات موثر ثابت نہیں ہو رہے۔ حالیہ عرصے میں آپریشن عزم استحکام اور چینی منصوبوں کے تحفظ کے لئے کی گئی کاررواءیوں کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ موجودہ حالات میں ریاست نے بعض مقامات پر کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں لیکن یہ عارضی نوعیت کی ہیں۔ عسکری آپریشن کے ساتھ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اصل مسئلہ نظریے اور مائنڈ سیٹ کا ہے جو شدت پسندی کو تقویت دیتا ہے۔ جب تک اس کا مقابلہ نہیں کیا جاتا تو یہ چیلنج بھی برقرار رہے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طاقت کا استعمال ہمیشہ عارضی نتائج دیتا ہے۔ ہماری ریاست عسکریت پسندی کے میدان میں صرف طاقت کے استعمال کے اصولوں پر کھیل رہی ہے جو ایک بڑی غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ دیگر حل بھی آزمائے جاتے چاہئیں۔