Aqeel Anjam AwanColumn

سنجیدہ غور و فکر وقت کی ضرورت ہے

تحریر : عقیل انجم اعوان
بلوچستان صرف اسی وقت خبروں میں آتا ہے جب کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آتا ہے۔ جعفر ایکسپریس کے سیکڑوں مسافروں کے اغوا اور اس کے بعد ہونے والے طویل، خونی تصادم نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ خلیج اب بہت وسیع ہو چکی ہے۔ بلوچ مسئلہ اپنی نوعیت میں منفرد ہے کیونکہ یہاں کے عوام کی ایک وسیع اکثریت ریاست سے بیگانگی محسوس کرتی ہے، اور نوجوانوں میں مسلح جدوجہد کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ تاہم، پاکستان کے دیگر نسلی گروہوں اور ریاست کے درمیان بھی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ ایک پیچیدہ صورت حال اختیار کر چکا ہے، اس پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے، نہ کہ ہر بڑے واقع کے بعد محض وقتی ردِعمل دیا جائے۔ اگر ریاستی جبر اور وسائل کی لوٹ مار جاری رہی، تو پاکستان کے مختلف خطوں میں حکمرانی کا بحران مزید گہرا ہوگا۔ سندھ میں حکومت اور سرمایہ داروں کے’’ گرین پاکستان‘‘ منصوبے کے تحت دریائے سندھ پر مزید نہریں تعمیر کرنے کے خلاف شدید ردِعمل پایا جاتا ہے۔ سندھی قوم پرستی کی ایک طویل تاریخ ہے، اور پیپلز پارٹی نے حالیہ برسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے اقتدار سنبھالے رکھا ہے۔ تاہم، نہروں کی تعمیر کے منصوبے نے سندھ کے عوام میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی ایک طرف سندھ کے مفادات کا دعویٰ کرتی ہے، تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتے بھی کرتی ہے۔ جیسے جیسے سندھ کے میدانی علاقے اور ساحلی ڈیلٹا ماحولیاتی تباہی کے شکار ہوتے جائیں گی، غریب اور متوسط طبقے کے نوجوانوں میں انتہا پسندی کا رجحان بڑھ سکتا ہے، کیونکہ وہ بڑے ہاؤسنگ اور انفرا سٹرکچر منصوبوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اگر سندھ میں عوام دریائے سندھ پر بننے والی نہروں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، تو دوسری طرف وہ علاقے جہاں سے یہ دریا گزرتا ہے، وہاں بھی لوگ سڑکوں پر ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے مقامی آبادی کے بے دخل ہونے کے خلاف چلاس اور گلگت بلتستان کے دیگر حصوں میں کئی ہفتے سے احتجاج جاری ہے۔ یہ منصوبہ جو سابق چیف جسٹس کی متنازعہ فنڈ ریزنگ مہم سے منسوب ہے قرضوں پر مبنی ایک بڑا منصوبہ ہے جس کی لاگت 30ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے اور جو گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں کے ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچائے گا۔ مستقل گلیشیئر پگھلنے کے باعث پہلے ہی ماحولیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں، اور مسلسل سیاحتی ترقی کے باعث یہ صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔ ان مسائل کے پیش نظر گلگت بلتستان کے نوجوان ریاستی پالیسیوں کے خلاف مزید شدت پسند رویہ اپنا سکتے ہیں۔ کشمیر ریاستی نظریے میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے، لیکن حکمرانوں کو اس بات کا ادراک نہیں کہ ریاست وہاں کس طرح کے تضادات میں الجھی ہوئی ہے۔ کئی مہینوں سے وہاں معاشی استحصال اور سیاسی حقوق کی بحالی کے لیے ایک احتجاجی تحریک جاری ہے، مگر اس پر کم ہی توجہ دی جا رہی ہے۔ پختون علاقوں میں ایک بار پھر مذہبی عسکریت پسندی کا راج ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اچھے طالبان کی سرپرستی کی پالیسی کتنی خطرناک ہے۔ کرم
ایجنسی گزشتہ کئی مہینوں سے ایک جنگ زدہ علاقہ بنا ہوا ہے جبکہ وزیر ستان، بنوں اور دیگر علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ان سب کے پیچھے ریاستی پالیسیوں کی ناکامی اور وسائل کی لوٹ مار کا عنصر شامل ہے، جس میں مقامی اور غیر ملکی طاقتیں بھی شریک ہیں۔ کئی برس سے پشتون تحفظ موومنٹ ریاستی پالیسیوں کی خامیوں کی نشاندہی کر رہی ہے اور اصلاحات کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن اس کا جواب صرف جبر کی صورت میں دیا گیا ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی متعدد بار گرفتاری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ریاستی ادارے تنقید سننے کے بجائے مظلوموں کو دبانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، پختون بیلٹ میں تحریک انصاف کا بھی اثر و رسوخ ہے، خاص طور پر پشاور ویلی، سوات، دیر اور بونیر میں۔ نوجوان پشتون کم از کم اس حد تک ضرور سوچنے لگے ہیں کہ موجودہ حکومت اور ریاستی جبر کس حد تک ناجائز ہیں۔ دیگر تمام نسلی گروہوں کے برعکس، پنجابی نوجوان عموماً بطور پنجابی متحرک نہیں ہوتے۔ لیکن جیسے جیسے مراعات کا سلسلہ ختم ہو رہا ہے، متوسط اور نچلے طبقے میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ سرائیکی عوام کا سوال اپنی جگہ موجود ہے اور اگر سرائیکی صوبہ بن بھی جائے تو یہ پاکستان میں اکثریتی غلبے کے خلاف ایک اہم قدم ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب کے باقی نوجوان اپنی ناراضی کو کسی ترقی پسند متبادل کی طرف موڑ سکیں گے، جو ایک نیا سماجی معاہدہ تشکیل دے سکے اور ملک کی کثیر القومی حیثیت کو تسلیم کروا سکے؟ اگر ایسا نہ ہوا تو ریاستی جبر اور انکار کی پالیسی اسی طرح برقرار رہے گی، اور نفرت پر مبنی رجحانات مزید تقویت پکڑیں گے۔

جواب دیں

Back to top button